زاہدہ حنا
یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ
اس وقت سندھ کے قحط زدہ علاقوں میں ٹی۔بی کے لاکھوں مریضوں کے علاج کے لئے صرف 25کروڑ
روپیوں کی ضرورت ہے جو ہماری دیا لو دھنوان
حکومت پاکستان فراہم نہیں کر سکی ہے۔ اور کرےبھی تو کیسے، فوجی اخراجات سے ‘‘دفاع وطن’’
کی ضروریات سےکچھ بچے تو سہی ۔پاکستان کا دفاعی
بجٹ ہمیشہ ایک سربستہ راز رہا ہے۔ اس کے چند نکار جو ہمارے علم میں ہیں، ان کے مطابق
1996میں 11؍ارب
روپے پنشنوں پر خرچ ہوئے، 1997میں یہ رقم بڑھ کر 14؍ارب
روپے ہوگئی ہے اور اسے بھی دفاعی بجٹ سے نکال کر شہریوں کے اخراجات میں دیکھایا گیا
ہے۔ صرف اس لیے کہ یہ کہا جاسکے کہ ہم نےدفاعی اخراجات میں کمی کردی ہے جب کہ حقیقتاً
ان اخراجات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ پاکستان 1949۔1950میں اپنی جی۔ڈی ۔پی کا 32؍فیصد
دفاع پر خرچ کرتا تھا۔ 1996۔1997میں یہ بڑھ کر 7؍فیصد
ہوگیا اور 1997۔1998میں یہ خرچ 79فیصد تک جا پہنچا ۔ پاکستانی فوج، جسے ریٹائر ڈ جنرل
حمید گل دنیا کی سب سےبڑی جہادی تنظیم کہتے ہیں ، 1976میں ایک ارب روپے ہوگئی ، یعنی 20برس میں صرف 115فیصد کا اضافہ ہوا اور اس سال
جب وزیر خزانہ اعداد وشمار کا ہیر پھیر دکھاتے ہوئے دفاعی بجٹ میں کمی کا اعلان کررہے
تھے ،عین اسی وقت بجٹ دستاویز ات میں دفاع کے شعبے میں پچھلے سال کی نسبت 15؍ارب
روپے کا اضافہ دکھایا گیا تھا اور اگر شہری اخراجات میں ڈالی جانے والی رقم بھی شامل
کرلی جائے تو دفاعی بجٹ ایک کھرب 59؍ارب
58؍کرو ڑ تک جا پہنچتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ فوجی حکومت
کے ایک وزیر قلمدان وزارت سنبھالنے سے پہلے
بے پناہ دفاعی اخراجات کے نکتہ چینوں میں سے تھے ،انہوں نے حلف یافتہ ہونے سے پہلے
یہ لکھا تھا کہ فوج بہت سے ایسے اخراجات بھی کرتی ہے جو دفاعی بجٹ کےلئے مخصوص ہونے
والی رقم سے ہوا ہے۔ انہوں نے یہ لکھا تھا کہ ہمیں یہ نہیں معلوم ہوسکتا کہ پاکستان
پر 36؍یا
38؍ارب ڈالر کے جو قرضے ہیں ان
کا کتنا حصہ فو ج پر خرچ ہوا ہے۔ فوج کی مختلف خفیہ ایجنسیوں پر 4؍ارب
روپے ، سول آرمڈ فورسز پر 2؍ارب
روپے 70؍کروڑ
روپے، پاکستان رینجرز پر ایک ارب اسّی کروڑ روپے ،فریئنٹیر کانسٹبلر ی پر 70؍کروڑ
روپے اور وزارت دفاع پر ایک ارب 50؍کروڑ
خرچ ہوتے ہیں ۔ یہ رقم دفاعی بجٹ سے ہوا ہے۔
اس صو رت حال کا نتیجہ یہ
ہے کہ عوام گھاس کھاتے ہیں اور اسلحہ خانوں میں رکھے ہوئے ہلاکت خیز ہتھیار صبح وشام
چمکائے جاتے ہیں اور ان کی ہلاکت خیزی ہمارے حکمرانو ں کی رعونت میں اضافہ کرتی ہے
۔مجھے نہیں معلوم کہ پی۔سی ۔او کے خلف یافتہ اور عدلیہ سے سند یافتہ ہمارے موجودہ وزیر
کا دفاعی بجٹ کے بارے میں اب کیا نقطہ نظر ہے؟
اندرونی اور بیرونی فرقہ جات
کی قسطوں کی ادائیگی ،دفاعی اخراجات اور افسر شاہی کی تنخواہوں کے بعد 13؍کروڑ
عوام کے لئے بجٹ میں جو پانچ فیصد رقم بچتی ہے ،اس سے ہمارے ‘‘عدل پرور’’ اور ‘‘خوف
خدا’’ میں مبتلا حکمران مولانا الطاف حسین حالی کے ہدایت پر عمل کرتے ہوئے پل اور چاہ
بنواتے ہیں ،مسجد وتالاب بنواتے ہیں ،ان کے بھائی بھتیجے اس پر کمیشن بھی کھاتے ہیں
۔بیواؤں ، یتیموں اور مساکین کی دادرسی کرتے ہیں۔ کہیں قحط پڑجائے تو لال آٹے کی
تھیلیاں تقسیم کرتے ہیں ان کی تصو یریں چھپتی
ہیں۔ جن علاقوں میں 45؍ڈگری
سینٹی گریڈ کی گرمی میں عورتیں چند گھونٹ پانی کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہیں اور
ناکام ونامراد آتی ہیں ،وہاں ہمدردی کے لئے
جانے والے ہمارے یہ مقتدرین منرل واٹر پیتے ہیں ۔مگر مچھ کےآنسو ذخیرہ کرلیں تو یقیناً چاغی سے تھرتک فصلیں لہلہا
ئیں گی اور 1947سے اب تک دکھائے جانے والے سبز خوابوں کے باغات ہمسری کریں گی۔
ہندوستان اور پاکستان کے جنگجوعناصر
نے اپنے عوام کو غربت ، بیروزگاری ،جہالت اور بیماریوں کی جس دلدل میں دھکیل دیا ہے
ان سے کچھ کہنا فضول ہے۔ اس لیے کہ ان کا روزگار ہی جنگی جنون کو ہوا دینے سے وابستہ
ہے۔ یہ ذمہ داری برصغیر کے دانشوروں کی ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے امن اور جنگ کے درمیان
فرق کو واضح کریں، عوام کو بتائیں کہ دفاعی اخراجات کم ہوجائیں ،اگر نیو کلیائی تجربات
اور ہتھیاروں کو شب برآت کی آتش بازی اور دیوالی کا چراغ نہ سمجھا جائے تو ان کی
زندگیاں کس قدر بدل سکتی ہیں ، ان کے دکھ کتنے کم ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں ایٹمی دھماکوں
کےاعلان کے ساتھ ہی عوام نے جس طرح جشن منایا اس کی ایک عینی شاہد ایک جاپانی خاتون
ڈاکٹر ماریکو کیٹانو بھی تھیں ۔ ڈاکٹر کیٹانو نے اوسا کا یونیورسٹی سے مذاہب عالم پر
ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، ہندوستان اور پھر پاکستان نے دھماکے کیے تو ان دنوں وہ
پاکستان کے تاریخی شہر لاہو ر میں تھیں ۔ جاپان پر امریکہ کے ایٹمی حملے کے وہ خود
اور ان کا خاندان شکار ہوا تھا۔ ان کےلئے ہندوستان اور پاکستان کے یہ ایٹمی دھماکے
اور ا س پر عوام کا جشن منانا ، قابل فہم نہیں تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے پاکستانی
عوام کے نام پر ایک کھلا خط لکھا جو یہاں بعض اخبارات میں شائع ہوا ۔ انہوں نے لکھا....
‘‘ ایٹمی دھماکوں کی خبر سن کر پاکستانیوں کو سڑکوں پر بے اختیار ناچتے،
مٹھائیاں بانٹتے اور ‘‘جشن’’ مناتے دیکھ کر مجھے شدید ذہنی اذیت ہوئی ۔ خوشی سے تمتماتےہوئے
یہ چہرے بے خبری اور لاعلمی کی علامت تھے۔ انہوں نے ایٹمی ہتھیاروں کی تباہی کو دیکھنا
تو دور کی بات ہے شاید اس بارے میں کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔
میں نے ایٹم بم کے اثرات دیکھے
ہیں۔ انہیں اپنے بدن پر محسوس کیا ہے۔ ناگا ساکی پر اترنے والی قیامت کا شکار ہونے
والی عورتوں میں ایک میری نانی بھی تھیں ۔مجھے اپنے مسخ شدہ چہرے پر اپنی نانی اور
ان جیسی سینکڑوں عورتوں کے زخموں کی جلن محسوس ہوتی ہے۔ میری ایک آنکھ بصارت سے محروم
ہے اور میرا بایاں ہاتھ مردہ ہے۔ میں نے اس مسخ شدہ بدن کے ساتھ جنم لیا ۔ انسانیت
نے مجھے ورثے میں یہی کچھ دیا ۔میری ماں بھی معذور تھی کیو نکہ اسے ناگاساکی میں ایٹمی
تابکاری کا شکار ہونے والی عورت نے جنم دیا تھا۔ یہ سب کچھ اسی ایٹمی‘‘ معرجزے’’ کی
مہربانی ہے جس پر آپ جشن منارہے ہیں اور اسے اپنی سلامتی کا سرچشمہ کہہ رہے ہیں۔
کوئی بھی صحیح الدماغی شخص
یہ کیسے مان سکتا ہے کہ ایٹم بم قومی سلامتی کی ضمانت دے سکتا ہے۔ یا کسی ٹک ٹک کرتے
ہوئے ٹائم بم کو سینے سے لگائے بیٹھے رہنا سلامتی اور تحفظ کی علامت ہے؟ (چرنوبل کے
لوگ اس کادرست جوا ب دےسکتے ہیں ) کیا ہر لمحہ ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑے رہنے کا
مطلب ملکی تحفظ ہے؟
ایٹمی دھماکے کر کے پاکستانیوں
نے اپنی تاریخ کی بدترین غلطی کی ہے۔ خدا نہ کرے انہیں کبھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔
میں نے پاکستان میں بچوں کو رو ٹی کے چند ٹکڑوں کی خاطر بھیک مانگتے دیکھتا ہے ، عورتوں
کو گود میں بلکتے ہوئے بچے اٹھائے ہوئے خیرات مانگتے دیکھا ہے، بیمار بوڑھوں کو سسکتے
دیکھا ہے ۔ حکومت نے ان غریب ،لاچار اور بے بس لوگوں کے دکھوں کا مدد کرنے کی بجائے
انہیں مزیدغربت میں دھکیل دیا ہے۔ اس ایٹمی دوڑ کے لیے جو رقم درکار ہوگی اس کے بعد
تعلیم اور صحت کے لیے کیا باقی بچے گا؟ ایٹم بم سے بھوکے بچوں کا پیٹ تو نہیں بھرا
جاسکتا ۔
مذاہب عالم کے تقابلی مطالعے
کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کے دوران میں نے اسلام کا مطالعہ بھی کیا ۔ اسلام نے انسان کو
اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ آج کی دنیا عملی طور پر انسان کی اس حیثیت کو تسلیم
نہیں کرتی ۔ ہم نے اس عظیم سبق کو بھلادیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے چہرے پر تہذیب
کے چاہے کتنے ہی نقاب اوڑھ لیں، ہمارے اندر کا وحشی آج بھی پہلے کی طرح زندہ اور توانا
ہےاس کرۂ ارض پر انسان ہی واحد مخلوق ہے جو اپنی نسل کو ختم کرنے کے لئے مسلسل خطرناک
ہتھیار بنارہی ہے ۔جوں جوں ا س کے پاس ہتھیار بڑھتے جاتے ہیں ،اس کی وحشت اور انانت
بھی بڑھتی جاتی ہے۔ شاید اسے اپنے جیسے انسانوں کو ہلاک کرکے تسکین ملتی ہے۔
ہمارے لئے ماضی کو فراموش
کردینا کس قدر آسان ہے۔ نئی نسل اپنے اجداد کی غلطیوں سےسبق سیکھنے پر آمادہ نہیں
ہوتی ۔نازیوں نےیہودیوں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا، اس سے یہودیو ں نے کچھ نہیں سیکھا
اور وہی سلوک فلسطینیوں کے ساتھ شروع کردیا۔ آج بوسنیا میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے
۔ہیرو شیما اور ناگاساکی پر جوقیامت ٹوٹی اس سے دنیا نے کچھ نہیں سیکھا کیو نکہ آج
بھی ایٹمی دھماکے کیے جارہے ہیں ۔البتہ جاپان نے ایک سبق ضرور سیکھا ۔ اس نے ایٹمی
دوڑ میں حصہ لینے سے انکا ر کردیا۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ جاپان نے ایسا کیوں کیا
؟ ا س لیے کہ ہم نے ایٹمی تابکاری کی ہولناکی دیکھی ہے۔برداشت کی ہے ۔ہم نے اپنی آنکھوں
سے اپنے دوستوں ،رشتہ داروں او رہمسایوں کو جھلستے ہوئے دیکھا ۔ہمارے گھر ریت کی مانند بکھر گئے ۔کسی پاکستانی
یا ہندوستانی شہری نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے اندھے بچوں کو نہیں دیکھا ۔وہاں آج
بھی معذور بچے جنم لیتے ہیں۔ یہ معصوم جانیں کس جرم کی سزا کاٹ رہی ہیں؟ وحشت اور بربریت
کی اس طاقت پر آپ جشن منارہے ہیں ؟
میر ی دعا ہے کہ ایسا وقت
کبھی نہ آئے کہ کوئی پاکستانی یا ہندوستانی اپنے نومولود بچے کو پہلی مرتبہ گود میں
اٹھائے اور دیکھے کہ جہاں اس کی آنکھیں ہونی چاہئے تھیں وہاں صرف دوسراخ ہیں۔ خدانہ
کرے کہ آپ کے بچے بے نور آنکھوں ،مردہ ہاتھوں اور مسخ چہروں کے ساتھ اس دنیا میں
آئیں۔’’
مجھے نہیں معلوم کہ ڈاکٹر
ماریکو کیٹانو کے اس دل دہلادینے والے خط کا ‘‘پاکستانی دفاع کے ذمہ دار ’’افراد میں
سے کسی ایک کے دل پر بھی کوئی اثر ہو ا یا نہیں ، لیکن میں یہ ضرور جانتی ہو ں کہ ایٹمی
اسلحے کا حصول ہندوستان اور پاکستان کے مقتدرین کا خواب رہا ہے ۔ہندوستان اور پاکستان
نے جب ایٹمی آتش بازی میں حصہ لیا تھا تب بھی اس کے آثار صاف نظر آرہے تھے۔ پاکستان
کے سابق وزیر خزانہ اور معروف دانشور ڈاکٹر محبوب الحق نے اپریل 1996میں ‘‘ٹائمز آف
انڈیا’’ کی اشاعت میں اسی موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا تھا......
‘‘ہندوستان اور پاکستان اپنے عوام کی اند وہناک غربت سے بے نیاز ہر
سال اپنے دفاعی اخراجات پر بیس ارب ڈالر لٹا رہے ہیں ۔ سعودی عرب، پاکستان اور ہندوستان
سے 25؍گنا
زیادہ امیر ملک ہے مگر سعودی عرب ہر سال ان دونوں کنگال ملکوں سے آدھی رقم دفاع پر
خرچ کرتا ہے۔پاکستان او ر ہندوستان میں فوجیوں کی تعداد ڈاکٹروں سے 6؍گنا
زیادہ ہے ۔حال ہی میں پاکستان نے 12؍ارب
ڈالر خرچ کر کے فرانس سے دو آبدوز یں خرید ی ہیں۔ ادھر ہندوستان میزائلوں کی تنصیب
پر بے تحاشہ روپیہ خرچ کررہا ہے جبکہ کروڑوں ہندوستانی غربت کے باعث فٹ پاتھوں پررات
بسر کرنے پر مجبور ہیں۔’’
یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے
اور ہنسی بھی آتی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتیں جنگی سازوسامان کی خریداری
اور فوج پر بے تحاشہ وسائل ضائع کرنے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بھیک کا
تقاضہ کرتی ہیں اور اس ضمن میں قرضہ حاصل کرنے کےلیے ہر قسم کےذلت آمیز اور نقصان
دہ معاہدے کرنے پر تیار ہوجاتی ہیں۔ اسلام آباد اور نئی دہلی میں مسلسل تصادم اور
محاذ آرائی پر اٹھنے والے معاشی اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ دونوں ممالک کے ہوش ٹھکانے
آجانے چاہئیں ۔ مگر دونوں ممالک کے پالیسی ساز حکام اور رہنما اس حقیقت سے غافل نظر
آتے ہیں جو ساری دنیا پر عیاں ہوچکی ہے۔ یعنی قومی سلامتی کا سب سے اہم حصہ متعلقہ
ملک میں بسنے والے انسانوں کی سلامتی ہوتا ہے۔ معاشی خوشحالی ہی ملک وقوم کو یکجا رکھ
سکتی ہے اور عوام کا بلند معیار زندگی ہی ملکی استحکام کی ضمانت دے سکتا ہے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ
جنوبی ایشیا میں جنگ روکنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے مابین باہمی دہشت
اور خوف کا توازن موجود ہو۔ لیکن اس توازن کی بھی آخر کوئی حد تو مقرر کرنی ہوگی؟
اگر غریب عوام فٹ پاتھوں پر راتیں بسر کررہے ہوں تو وزرا کو جدید ترین جہاز اور توپیں
خریدنے کا حق نہیں پہنچتا ۔ عام شہریوں کے بچے اسکول کی ٹوٹی پھوٹی عمارتوں میں بیٹھ
کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں اور سرکاری افسران ایئر کیڈیشن گاڑیوں میں دندناتے
پھررہے ہیں ۔کوئی قوم ہتھیار وں کے جس قدر چاہے انبار لگا لے اگر اسکے عام شہریوں کی
غربت ختم نہیں ہوتی تو ایسی قوم ہمیشہ کمزور رہے گی۔
عالمی بینک نے حال میں ‘‘دنیا
کی دولت’’ کے عنوان سےایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں دنیا کے 190؍ممالکی
معاشی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں قومی دولت کا
صرف 16؍فیصد
حصہ مشینری ،سڑکوں اور تعمیرات میں پایا جاتا ہے۔ معدنیات ،جنگلات اور دوسرے قدرتی
ذرائع سے 20؍فیصد
دولت حاصل ہوتی ہے جب کہ کسی قوم کا 64؍فیصد
سرمایہ اس کے افراد ہوتے ہیں۔ ہم جنوبی ایشیا کے رہنے والے ہتھیار کے انبار لگارہے
ہیں لیکن عوام کی بھلائی اور بہترین کو بھول جاتےہیں ۔’’
میں سوچتی ہوں کہ کیا اب بھی
وقت نہیں آیا کہ برصغیر میں رہنے والے وہ لوگ جو غربت ،جہالت ،بھوک اور بیماری کا
شکار ہیں اور یہ جانیں کہ....
ایک ٹینک کی قیمت 40؍لاکھ
ڈالر ہے، صرف ایک ٹینک نہ خریدا جائے تو40؍لاکھ
بچو ں کو مہلک بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جاسکتے ہیں۔
ایک 5۔2000میراج طیارے کی
قیمت 90؍ملین
ڈالر ہے ،اگر صرف ایک طیارہ خریدا جائے تو اس کی رقم سے 30؍لاکھ
بچوں کو پرائمری تعلیم دینا ممکن ہے۔
وہ جدید آبدوز جس کی قیمت
300ڈالر ہے ،وہ چھ کروڑ انسانوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے محروم کررہی ہے۔
پاکستان نے فرانس سے جو تین
آگو سٹا آبدوز یں خریدی ہیں اگر وہ خریدی نہ جاتیں اور ان پر خرچ ہونے والی رقم پاکستانیوں
میں خرچ ہوتی تو.....
ایک کروڑ ستر لاکھ پاکستانی
بچے پرائمری تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔
اور چھ کروڑ ستر لاکھ لوگوں
کو پینے کا صاف پانی مہیا ہوسکتا تھا۔
ماحولیات کے کئی ماہرین کاکہنا
ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے جو علاقے اس وقت بدترین خشک شالی کی لپیٹ میں ہیں، وہی
ہیں جہاں ہندوستان اور پاکستان نے اپنے نیو کلیائی دھماکے کیے تھے ۔ ان دھماکوں نے
ایک وسیع وعریض علاقے میں فطرت کے ماحولیاتی توازن کو درہم برہم کر دیا ہے۔ صحرائے
تھر سے ملے ہوئے راجستھان کے علاقے پوکھران میں ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے اور
پاکستان نے بلوچستان میں چاغی کو ان تجربات کے لئے منتخب کیا تھا۔ نیتجہ یہ نکلا ہے
کہ پاکستان میں بلوچستان نادر تھر، ہندوستان میں پوکھران اور اس سے متصل علاقوں میں
1998اور 1999اور اب 2000کے جون تک پانی کی بوند نہیں برسی ہے۔کنویں خشک ہوچکے ہیں ،صدیوں
پرانی زیر زمین نہریں سوکھی پڑی ہیں۔ وہ پانی جو 80فٹ کی گہرائی میں ملتا تھا اب
800اور ہزار فٹ کی گہرائی میں نہیں ملتا ۔ صرف بلوچستان میں 20؍لاکھ
سے زیادہ مویشی ہلاک ہوچکے ہیں ، پوکھران (ہندوستان)اور صحرائے تھر(پاکستان) میں لاتعداد
مویشی چارہ او رپانی نہ ملنے کی وجہ سے ختم ہوچکے ہیں۔ ان قحط زدہ علاقوں سے لوگوں
کے قافلے پانی اورکھانے کی تلاش میں ان علاقوں کا رخ کررہے ہیں جہاں یہ نعمتیں دستیاب
ہیں۔ میں ہندوستان سے مہینہ بھر پہلے لوٹی ہوں.....
وہاں راجستھان کے بعض شہروں
اور ان علاقوں سے گزری ہوں جہاں خشک سالی نے قحط ساری کی صورت پیدا کردی ہے۔ ان علاقوں
میں یہ نعرے سنے ہیں کہ ....
بم پھوڑا پوکھران میں
.....سوکھا پڑا راجستھان میں
اس طور غم وغصے کا اظہار کرنے
والے بھی وہی لوگ ہیں جو 11مئی 1998کواپنے وزیر اعظم کے اس اعلان کے بعد رقص کرتے ہوئے
سڑکوں پرنکل آئے تھے کہ ہندوستان دنیا کی چھٹی نیو کلیائی طاقت بن گیا ہے۔ پاکستان
میں بعض حلقے اب یہ سوال کرنے کی ہمت کرنے لگیں کہ وہ ہلاکت خیز ہتھیار جسے استعمال
نہ کرنے کی یقین دہانی پہلے پاکستان کے منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف کراتے تھے اور
اب یہ فریضہ پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے سنبھال لیا ہے، تو پھر اس کی تیاری پر بیس
برس کے دوران ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ چھ کھرب روپے یا اس سے زیادہ رقم کیوں خرچ
کی گئی؟ کیا یہ پاکستان کے غریب ، مفلس ،بیا ر اور ناخواندہ عوام کا حق نہ تھا کہ وہ
رقم انہیں بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے پر صرف کی جائے؟
ہندوستان کے کثیر الاشاعت
ہفتہ روزہ ‘‘ انڈیا ٹوڈے’’ نے ملکی انتخابات کے فوراً بعد ملک گیر پیمانے پر ایک سروے
کرایا تھا۔ اس سروے میں عوام کی بھاری اکثریت نے ‘‘افراط زر’’ اور ‘‘بیروزگاری ’’ کو
ہندوستان کے اہم ترین مسائل قرار دیا۔ اس سروے میں عوام سے یہ بھی پوچھا گیا کہ وہ
ایٹم بم کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میں کچھ دنوں پہلےپوکھران دھماکوں
پر جشن منانے والی ہندوستانی جنتا میں سے صرف 22؍فیصدنے
بم کی حمایت کی ،38؍فیصد
بم کی حمایت میں نہیں تھے اور نہ مخالف میں ، جبکہ 40فیصد کی رائے ایٹم بم کے خلاف
تھی۔
اس وقت غیر سرکاری اعداد وشمار
کے مطابق مختلف ملکوں میں 30؍سے
35ہزار جوہری بموں کا انبار لگا ہوا ہے جن کی تخریبی قوت ہمارے کرۂ ارض کو تو کیا،
ایسی پچاسوں دنیاؤں کو منٹوں میں صفحہ ہستی سے نیست ونابود کرسکتی ہے۔ یہ ہلاکت خیز
قوت انسان کو کہاں لے جائےگی؟ کل کیا ہوگا؟ اسی طرح کا ایک سوال بیسویں صدی کی عظیم
ترین شخصیت البرٹ آئن اسٹائن سے کیا گیا ، اس کا جواب تھا....
‘‘میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ تیسری جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ ہاں،
یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ چوتھی جنگ لاٹھیوں اور پتھروں سے لڑی جائے گی۔’’
اگر لوگوں کو یہ بتایا جائے
کہ ہتھیار ان سے کیسی سہولتیں چھین رہے ہیں تو شاید انہیں یقین نہ آئے لیکن وہ دن
اب دور نہیں جب انہیں اس بات کا یقین آجائے گا ۔ اس دن ہندوستان اور پاکستان میں اگر
ریفرنڈم کرایا جائے گا اور یہ پوچھا جائے گا کہ وہ ان ہتھیاروں کی خریداری کے حق میں
ہیں یا ان ہتھیاروں پر خرچ ہونے والی رقم کے ذریعہ قحط ،بھوک ،جہالت اور بیماری سے
نجات چاہتے ہیں تو یہ آپ اور میں سب ہی جانتے ہیں کہ اس ریفرنڈم کا کیا نیتجہ سامنے
آئےگا۔
ہندوستان او رپاکستان کے وہ
لوگ جو مئی 1998میں سرخوشی کے عالم میں جشن منارہے تھے ،انہیں ایک ایسی دنیا کا تصور
بھی کرنا چاہئے جہاں کے دریا، سمندر، جھلیں
اور تالاب برف زار ہوچکے ہیں۔ دہکتی ہوئی گرم راکھ کی برسات ہورہی ہے ۔اس کی تپش سے
جنگل جل رہے ہیں اور شہرو ں کو بلند وبالا اور فولادی ڈھانچے والی عمارتیں موم کی طرح
پگھل رہی ہیں۔ ایسی سردی ہے جو نقطہ انجماد سے بیس اور تیس درجے کم ہے۔ ایسی رات ہے
جو برسوں تک قائم رہے گی۔ نیلا آسمان گم ہوگیا ہے ۔وہ آسمان جسے کہکشاں اپنادوشالہ
اڑھاتی تھی ، شام کا پہلا تارا جس کی پیشانی پر جگمگا تا تھا، اس آسمان کو نیو کلیائی
آگ کے دھوئیں نے نگل لیا ہے ۔ انسان پگھل گئے اور دنیا خاک کا ڈھیر ہے۔ یہ میری آپ
کی او ر ہماری دنیا ہے۔
یہ کسی سائنسی فلم کا منظر
نامہ نہیں کسی تخیلاتی کہانی کا ٹکڑا نہیں ۔ انسان کا ....میرا ....آپ کا....ہم سب
کا ممکنہ مستقبل ہے۔
اپنی ا س بربادی کا سامان
ہم نے خود کیا ہے۔ ہمارے اسلحہ خانوں میں اس وقت 30؍سے
35؍ہزار ایٹم بموں کی ہلاکت خیز
یاں ہوتی ہیں اور ان میں سے کوئی سا بھی ایٹم بم ....لاکھوں ٹن بارود ی قوت رکھتا ہے۔
ہم انسانوں کو خلائی جنگوں کا عارضہ بھی لاحق ہوچکا ہے ۔ جن کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں،
انہیں یہ غم کھائے جاتا ہے کہ ابھی تک انہوں نے یہ مہیب طاقت کیوں حاصل نہیں کی۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ امریکہ
نے 1945میں ہیرو شیما پر جو پہلا بم گرایا اس کا نام ‘‘ ننہا لڑکا’’ رکھا تھا ،وہ ننہا
لڑکا چند سیکنڈ کے اندر اس ہنستے بستے شہر کو راکھ کا ڈھیر بناگیا ، پلک جھپکتے ہی
ساٹھ ہزار افراد لقمہ اجل بنے او رہزاروں نے سسک سسک کر مہینوں اور برسوں میں جان دی۔
ہیروشیما کے رہنے والوں کے سینوں
میں ایٹمی تباہی کا زخم آج بھی ہرا ہے۔ 1994میں ہیرو شیما نے اس زخم کی یاد یوں منائی
کہ 6؍اگست
کی رات اس کی دریا کی لہروں میں بہتی ہوئی رنگ برنگ کاغذی قندیلیں رخصت ہوجانے والوں
کو یاد کررہی تھیں ۔ ہمیشہ کیلئے جدا ہوجانے والوں کو یاد کرنے کا یہ ایک جاپانی انداز
ہے ۔ اس رات دریا کے کنارے ایک لاکھ آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں اور شہر کے ان گنت گھروں کے طاقچوں
پر شانتی کےشہزادے گوتم بدھ کی مورتیاں گیان دھیان میں گم تھیں۔ ایسی ہی مورتیاں اس
روز بھی کچھ سوچ رہی تھیں جب موت کی چھتری نے اس بد بخت شہر کے آسمان پر نیلی ،گلابی
، سرخ، زرد اور کاسنی روشنیوں کے رنگ میں سایہ کیا۔ اس روز ہزارہا بچوں ،بوڑھوں ، عورتوں
،مردو ں ،کتابوں ،پرندوں ،پیڑوں، اور شاندی کے شہزادے گوتم بدھ کی مورتیاں اس جہنم
میں جل گئی تھیں جس کے درانسان نے انسان پر کھولے تھے۔
(جاری)
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-voice-conscience-part-2/d/2365