زاہدہ حنا
سندھ کے مشہور دانشور ادیب اور سیاستداں جناب جی ایم سید نے 1966میں ‘‘بزم صوفیائے سندھ’’قائم کی ۔مرحوم اس ادارے کے ذریعہ ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے ساتھ انتہا پسندی اور غیر جمہوری رویوں کے بارے میں شعور بیدار کرنا چاہتے تھے۔آمروں کو تصوف سے بھی ڈر لگتا ہے ۔ اس لیے اب سے چالیس برس پہلے 1969میں جنرل ایوب خان نے اس پر پابندی لگادی ۔سید صاحب کے پیروکار سید خادم حسین سومرد نے اب اسے ‘‘سندھی صوفی انسٹیٹیوٹ ’’ کا نام دیا ہے اور بین المذاہب رواداری کو کراچی کے آئینے میں دیکھنا دکھانا چاہا ہے ۔ذرا سوچئے کہ اگر کھڑک بندر کا سانس ریت کے ٹیلوں سے گھٹ نہ گیا ہوتا تو سیٹھ سجن مل زمیندار اور صراف کے بیٹے سیٹھ بھوجومل اور دوسرے معززین کسی نئی بندر گاہ کی تلاش میں کیوں نکلتے ۔؟کلا چی کاکن کیوں ڈھونڈا جاتا کہ جہاں سے تجارت ہوسکے اور اگر کھڑک بندر کے بعد ہوائیں شاہ بندر کو بھی نہ ریت سے بھر دیتیں تو وہاں کے تاجر بھی کو لاچی اور کھارا ماچھی کا رخ کیوں کرتے ۔وہی بستی جو بعد میں کراچی کہلائی او رملکہ مشرق کےنام سے پکار ی گئی اوراگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو آپ اور ہم اس وقت یہاں یہ بات کیوں کررہے ہوتے کہ مذہبوں کے درمیان رواداری ہونی چاہئے اور کراچی میں رہنے والوں کو مل جل کر رہنا چاہئے۔
صاحبو! سندھ کی رواداری کے کیا کہنے ۔ہندو یہا ں کے جدی پشتی رہنے والے ’ بد ھ مت کے ماننے والے یہاں آباد’ فتح ایران کے بعد جان بچا کر بھاگنے والے آتش پرست جو پارسی کہلاتے ہیں ، یہاں ان کی اگیاریاں قائم ہوئیں اور ا نہیں پناہ ملی ۔انیسوی صدی میں قاچاریوں نے بہائیوں کے سروں میں میخیں ٹھونکیں اور ان کی کھالیں کھینچیں تو انہیں سندھ جائے امان نظر آیا ۔عیسائی یہا ں موجود ،ان کے کیسے شاندار گرجا گھر اپنی بہار دکھاتےہیں ۔ 20ویں صدی شروع ہوئی تو کراچی میں 2500یہودی رہتے تھے ۔تاجر ’ سول سرونٹ’ استاد اور ہنر مند ۔ ان کے لئے 1893میں مگین شلوم کے نام سے ایک سینی گاگ تعمیر ہوا۔ پاکستان بننے کے بعد یہاں یہودیوں کے خلاف جس طرح مہم شروع ہوئی اس کے بعد کراچی میں رہنے والے او رمراٹھی بولنے والے یہودیوں کے خلاف جس طرح مہم شروع ہوئی اس کے بعد کراچی میں رہنے والے اور مراٹھی بولنے والے یہودیوں نے ہندوستان ’ اسرائیل اور انگلستان کا رخ کیا۔ یہودیوں کا سینی گاگ میں نے بچپن میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جسے کیلیں ٹھونک کر بندکیا گیا، ضیا الحق کی حکومت کا آغاز ہوا تو یہ سینی گاگ گرادیا گیا اور وہاں ایک شاپنگ مال بنا ۔ تقسیم کے بعد جو بچے کھچے مندررہ گئے ان میں سے اکثر دھول بنا کر اڑا دیے گئے۔ سچ یہ ہے کہ جب تک پارسی ’ ہندو اور انگریز اس شہر کے نگہدار رہے یہاں رواداری کے دریا رواں رہے ۔ یہ کیسا کمال شہر اور شہر والے تھے کہ برصغیر تقسیم ہوا اور ہندوستان بھر سے آنے والوں نے یہاں کا رخ کیا تو انہوں نے آنے والوں کے لیے بانہیں پھیلا دیں۔پھر یہاں پنجابی اور پٹھان آئے ۔بنگلہ دیش بنا تو بہاری اور بنگالی آئے۔ برمی آئے ۔ کون ہے جس نے کراچی اور سندھ کا رخ نہیں کیا اور جسے شہر نے سینے سے نہیں لگاگیا ۔حدتو یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں پولینڈ سے یہودی نکالے گئے تو ہزاروں یہودیوں کے لیے یہاں ٹرانزٹ کیمپ لگے اورکہاں ؟ وہاں جہاں اب ایرو کلب کے شادی لان ہیں کیمپ میں رہنے والے لوگ سکھ سے رہے اور کراچی کے سندھیوں نے انہیں ‘‘یہودی’’ کہہ کر جلا نہیں دیا اور ان کی حسین لڑکیاں اٹھا نہیں لے گئے ۔ اگر یہاں آنے والے آپس میں لڑنے لگیں ،ایک دوسرے کو قتل کریں’ایک دوسرے کی روزی چھینیں ،زمینوں پر قبضہ کریں۔ منشیات اور اسلحے کا کاروبار کریں تو اس میں سندھ ،سندھ کے دارالحکومت کراچی کی یا سندھو کی کیا خطا جس کے نام سے یہ خطہ موسوم ہوا۔ سندھو، کیلاش کی بلندیوں سے دیوتاؤں کے ٹھکانوں پر بچھی ہوئی پاک پوتر برف کو سورج کی کرنوں سے پگھلا تا ہوا ،جھومتا ہوا چلتا ہے اورہماری بستیوں ،باغوں ،باڑیوں کو سیراب کرتا چلا جاتا ہے رگ وید اور مہابھارت میں اس کے پانیوں کو خراج ادا کیا گیا۔ ہزاروں برس کے دوران اپنا راستہ بدلتا ہوا، تکشلا کے بدھ بھکشوؤں اور ودیارتھیوں کی پیاس بجھاتا ہوا، آباد موہنجوڈرو کی نرتکی کا ناچ دیکھتا ہوا ۔ سیہون ،بھٹ شاہ، ٹھٹھہ کے جوگیوں ،صوفیوں اور بیرا گیوں کے راگ سنتا ہوا سمندر میں جاگرتا ہے ۔
سندھوں کی وسعت اور فراخی اور فراخ دلی کا یہی انداز وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ بنا جس نے تمام نسلوں ، مسلکوں اور تہذیبوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ جس کے مظاہر ہمیں بدھ بھکشوؤں سے لے کر اسماعیلی مبلغین تک نظر آتے ہیں محمد بن قاسم نے سندھ کو تلوار سے فتح کیا لیکن اسماعلی مبلغین تھے جنہوں نے ابتدائی دنوں میں ہی ایسی رواداری کی بنیاد رکھی جو آج بھی سندھ کی رگ وپے میں جاری وساری ہے اور جس کے بارے میں Akbrook نے لکھا ہے کہ انہوں نے ہندوؤں میں جذب ہونے اور انہیں جذب کرنے کےلئے روایات بیان کیں کہ برہما ،وشنو اور شواب اپنے نئے روپ میں مسلمان بزرگوں کی صورت میں آئے ہیں۔ پیر صدر الدین نے خود کو ‘‘اہل رام’’ کا روپ کہا او رہندو مسلم تصورات کا ایک ایسا آمیز ہ پیش کیا جس نے وادی سندھ میں تصوف کے خیالات و افکار کی توسیع کی اور سندھ صوفیا کی سرزمین کہلایا ۔ مسلمانوں کے محترم بزرگ لال شہباز قلندر ہندوؤں کے نزدیک راجا بھر تری تھے ۔پیرپاٹھو ،راجاب گوپی چند اور پیر حاجی منگو’’لالہ سراج کہے گئے۔ IHAJWANIنے کہا کہ سندھی تہذیب اورثقافت میں صوفیانہ روایات بہت اہم اور بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کی یہی اہمیت سندھی شعر وادب میں بھی قائم رہی ہے۔ سندھ میں تصوف کے بنیادی عناصر وحدت الو جود اور ویدانت سے ظہور پاتےہیں ۔ پیر علی محمد راشدی نے لکھا ہے کہ سندھ کا ہندو صوفی منش اور مسلمان پیروں ،فقیروں کا معتقد تھا، فارسی کے اسلامی لٹریچر نے متاثر تھا ۔قرآن شریف کا اس قدر احترام کرتا کہ اس پر ہاتھ رکھ کر کبھی جھوٹ نہ بولنا۔ بعض ہندو تو باقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت بھی کیا کرتے ۔ بیرانی کے ہندو سیٹھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے تین ہزار صحیح حدیثیں یاد تھیں۔ جہاں ابھی اسکول نہیں کھلے تھے وہاں ہندو بچے ملاؤں کے مکتبوں میں (جو اکثر مسجدوں میں ہوتے تھے)تعلیم پاتے ۔ رات کو مسجدوں میں دیے ہندو عورتیں جلا کر رکھتیں ۔شاہ عبد اللطیف کے کلام پر سب سے اہم تحقیق ایک ہندو عالم ڈاکٹر گرن جشانی نے کی۔ بہت سے ایسے ہندو تھے جو کسی فرق کے بغیر مسلمانوں کی خدمت اور حاجت روائی کیا کرتے ۔ بیوہ عورتوں کو گزر اوقات کے لیے مالی امداد اور یتیم مسلمان بچوں میں تعلیم کے لئے وظیفے تقسیم کیا کرتے۔آنکھوں کے اسپتال شکار پور کے ہندو سیٹھ اپنے خرچ پر کھلواتے ۔سرکاری کالج کھلنے سے پہلے ہندو اپنے پرائیویٹ کالج قائم کرچکے تھے ۔ جن میں مسلمان بھی پڑھتے ۔ بینک قائم ہونے سے پہلے سندھ کے مسلمانوں کی تمام کمائی ہندو ساہوکاروں کے پاس امانت کے طور پر رکھی رہتی ۔ پوری تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی ہندو ساہوکار نے مسلمانوں کی امانت میں خیانت کی ہو۔ عام رہن سہن کی حالت یہ تھی کہ ہندو بزرگ داڑھیاں رکھا کرتے ۔ شلوار پہننے اور سر پر پگڑی باندھتے ۔راگ ہندوؤں کی مذہبی روایت کا ایک جزو ہے اور سندھ کے ہندوؤں کے راگ سوفیصد مسلمانی طرز کے ہوتے تھے وہ مسلمان بزرگوں کےکلام کے سو ا کچھ نہ گاتے اور کچھ نہ سنتے ۔سندھ کے ہندوؤں کی نصف سے زیادہ تعداد مسلمان صوفی بزرگوں کی درگاہوں کی مرید تھی ۔ قلندر لعل شہباز پر جتنا اعتقاد مسلمانوں کو تھا اتنا ہی ہندوؤں کو بھی تھا۔درگاہ شریف کی بعض رسوم صرف ہندو بجالاتے تھے مثلاً مہندی کی رسم ۔ سندھی زبان کی بھی ہندوؤں نے بڑی خدمت کی۔سندھی کے بہت چوٹی کے اہل قلم ہندو تھے ۔ سندھ کے واحد آرٹس کالج میں فارسی کا پروفیسر ایک ہندو تھا ۔ سندھ کی قدیم تاریخ کی تحقیق پہلے پہل ہندوؤں نے شروع کی۔ سندھ کے ہندو سور کے گوشت کو چھوتے بھی نہ تھے ۔بکرے کا گوشت بھی جب تک مسلمانوں کا ذبح کیا ہوا نہ ہو نہیں لیتے تھے۔ ان کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے سندھ میں کھلے عام گاؤ کشی کبھی نہ ہوتی تھی ۔ اونچے طبقے کے مسلمان تو ساری عمر کبھی بڑے گوشت کے پاس تک نہ پھٹکتے ۔ شادی یا غمی میں مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کے اس قدر قریب ہوتے جیسے ایک ہی قوم کے افراد بلکہ آپس میں عزیز ہوں۔ مسلمانوں کی بڑی زمینداریوں جاگیروں کی گھریلو آمدنی اور خرچ کا انتظار ہندو کارداروں اور دکانداروں کے سپرد ہوتا تھا۔ وہ دیہی زندگی کا مرکز تھے۔ بعض مسلمان گھرانوں میں تو پردہ نشین عورتیں اپنے ہندو کارکنوں سے پردہ بھی نہ کرتیں حالانکہ عام طور پر وہ پردے کی سخت پابند ہوتیں ۔غرض سندھ کی سماجی زندگی باقی برصغیر کی سماجی زندگی سے بالکل مختلف تھی اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ یہاں ایک مشترک اور متوازن سماج ابھر رہا تھا جس میں باہمی مذہبی اور معاشرتی تضادات سے زیادہ مشترک تصورات، معتقدات اور اقدار کا پہلو نمایا ں تھا۔ یہ بٹوارے سے پہلے کی بات ہے۔ اس وقت تک قبضہ مافیا’ اغوا برائے تاوان مافیا’ ڈرگ مافیا وجود میں نہیں آیا تھا۔ رام باغ جاکر ہندو اور مسلمان دونوں ہی اس بات پر اتراتے تھے کہ رام ’لکشمن اورسیتا جی ہنگلاج یاترا کو گئے تو یہاں چندر اتیں گزرای تھیں۔ لیکن اب رام باغ مشرف بہ اسلام ہوکر آرام باغ ہوچکا ہے اور یہاں چرسی، مالشیے اور موالی آرام کرتے ہیں۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-flowing-river-indus-civilization/d/1992