راشد سمناکے، نیو ایج اسلام
9اپریل، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
ہاکنس، ہچنس جیسے لوگوں کا شکریہ، جن کی وجہ سے آج الحاد اور مذہب سے متعلق با تیں عوام کے درمیان موضوع بحث ہیں ۔ قرآن کے سیاق و سباق میں، لفظ 'مذہب' کی مزید تحقیق
کئے جانے کی ضرورت ہے۔
لفظ مذہب دماغ میںمندرجہ ذیل
تصویر کشی کرتا ہے :‑
- گرجا گھر، جو عام معنوں میں مذہبی ادارے اور عبادت گاہیں ہیں۔
- اس کے کارکنان، پادری اور انتظامیہ اس کے ساتھ منسلک ہے۔
- ضابطہ عقائد، رسوم عبادت
خصوصی طور پر چرچ اور اس کے لوگوں کے زیر انتظام ہے۔ ضابطہ عقائد اکثر خاص طور پر خدا
یا دیوتاؤں سے منسوب کئے جاتے ہیں۔
‑
خدا اور اس سے بڑھ کر
کمال درجے کے مندرجہ بالا دیوتائوں کی
عبادت جن کے پاس کسی بھی وقت بھی اور
کچھ بھی انجام دینے کی قوت ہے اور جو سائنس
اور منطق کی سمجھ کے دائرے سے باہر ہیں۔
ملحد وہ شخص ہوتا ہے جو چرچ سے متعلق خدا یا خدائوںکے وجود سے انکار کرتا ہے جو اپنے نظریات کی تشہیر کرتے ہیں۔ تاہم، ملحد جس چیز کو چھوڑ دیتے
ہیں اس خلا کو پر کرنے کے لئے ایک متبادل
ہے اور اس طرح انسانیت
کے تجسس کو مطمئن کرنے کے لئے وہ سوال
چھوڑتے ہیں جیسے کہ کائنات کیسے وجود میں آیا، کس نے اس کی تخلیق کی اور کیوں کی۔ بگ بینگ تھیوری بہت کچھ واضح نہیں کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ "یہ صرف ہوا" اوراس وضاحت کے بغیر کہ یہ کیسے ہوا۔ انسانیت تب سے اس کشمکش
میں مبتلا ہے جب سے اسے سوچنے کی صلاحیت حاصل ہوئی ہے کیونکہ سوال پوچھنا اس کے تجسس کا حصہ ہے ! ملحد لوگوں کو ایک اور اعتراض ہے اور وہ یہ ہےکہ مذہب
ارتقا کے موضوع پر بحث کرنے سے روکتا
ہے۔
یہ عجیب لگ سکتا ہے لیکن یہاں دلیل دی جاتی ہے کہ ایک مومن، ایمان رکھنے والا اپنے عقیدے کی بنیاد پر ایک ملحد ہے، کیونکہ وہ اعلان
کرتا/ کرتی ہے کہ کوئی معبود نہیں‑ جسے عربی زبان
میں لا الہ الااللہ کہا جاتا ہے ‑ انسانوں کے ذریعہ تشکیل دئے گئے خدا یا خدائوں سے انکار کرتا ہے،
یعنی تعظیم کی تمام اشیاء جو
مقابلے میں مومنوں کو کم درجے کا بناتی ہیں۔ یہ لوگ یقین کرتے/ کرتی ہیں کہ قرآن
انہیں نمایاں طور پر لا (LAA) کا اعلان کرنے کی اجازت دیتا ہے اور اس کے بعد پھر کہتے ہیں
سوائے اللہ کے۔ جس کا کوئی ساجھی نہیں۔ جس نے اس کائنات کو پیدا کیا اور وہ اس طرح کام کرتا ہے جیسے کہ ایک گھڑی کام کرتی ہے، جیسا کہ آئنسٹائن نے جانے پہچانے انداز میں کہا ہے۔ تاہم کتاب کہتی ہے کہ اس گھڑی ساز کو کوئی شکل
یا روپ دینا ان لوگوں کے لئے تقریباً ناممکن ہے۔
یہ پہلے حقیقی ملحد پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کے مطابق ہے جنہوں نے چرچ اور اپنے والد کے خلاف بغاوت کی جن کے والد ار (Ur) میں معروف مجسمہ بنانے
والے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد اور اور اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ ایک لفظ جسے ہم
عربی میں جانتے ہیں، لیکن اس وقت میسو پوٹامیا کے لوگوں کے لئے یہ پرایا لفظ تھا۔
لیکن زبان کی حد کے ناطے لوگ اس پروردگار کو عربی میں اس لئے اللہ کہتے
ہیں، کیونکہ یہی وہ لفظ تھا اور ہے جو عام
استعمال میں تھا اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں پیدا ہوئے تھے اس لئے وہ ایک عرب تھے۔ اس
میں کچھ بھی مقدس یا غیر معمولی نہیں ہے۔ انگریزی زبان میں ہم اللہ کو گاڈ کہتے ہیں۔
اس میں جو عجیب ہے وہ یہ ہے
کہ اس زمانے کے عرب جنہوں نے کفر اور مومنوں
دونوں سے انکار کیا تھا، انہوں نے الا اللہ کے مکمل مضمرات کو سمجھا تھا، یعنی سوائے اللہ کے
اور جس نے کثیر تعداد میں دنیاوی اور غیر معمولی خدائوں کو منتقل کر دیا تھا۔
خاص طور سے امیر شہر، اشرافیہ
طبقہ اور مندر کے نگراں اور کافروں نے سختی سے
اس عقیدہ کی مخالفت کی، نہ صرف اس لئے
کہ یہ ان کی روزی روٹی کے لئے خطرہ
تھا، کیونکہ مکہ شہر کی معیشت ، ایک اہم مندر شہر ہونے کے سبب مذہبی
کاروبار پر مبنی تھی اور ساتھ ہی قوم میں
ان کی حیثیت اور اشراف میں سے ہونے
کا درجہ اور طرز زندگی ختم ہو جاتی۔
یہ سب سے اہم تبدیلی تھی اور اس نے
اہم انقلاب برپا کیا۔
اس کے برعکس ، عام طور پر
کم منصب والے مومنوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں دیکھا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس کی تبلیغ کر رہے ہیں وہ مساوات پر مبنی معاشرے کا قیام کر رہے ہیں، جو سب کو برابر مواقع
فراہم کرنے پر مبنی منصفانہ
سماجی نظام ہے، جو کسی کے ذریعہ کی
گئی کوشش کے تناسب میں اس کو
نوازتا ہے۔ اس نے پھر ایسے حالات بنائے کہ
جس میں انقلابی تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت تھی۔
لا الہ الااللہ کے انقلاب نے دانشوروں
کی اقلیت کو بھی اپیل کیا ، اور اس میں ان لوگوں نے محسوس کیا کہ اس عقیدہ نے
ایک مضبوط بنیاد فراہم کی ہے اور کائنات کے قوانین کو سمجھنے اور ان کا مطالعہ کرنے کی بنیاد عطا کی ہے اور اس
طرح انہیں توہم پرستی سے آزاد کیا ہے جس میں
ان لوگوں کو چرچ کے اشرافیہ طبقے نے مضبوطی سے جکڑ رکھا تھا تاکہ ان پر قابو بنائے رکھا
جا سکے۔ اس نے دانشوروں کو
کھلا میدان فراہم کیا تاکہ وہ
علم کی بنیاد پر نظام قائم کر سکیں
اور اس نے تحقیقات کے لئے ایک بڑی پیش رفت
کی جسے ہم سائنس کہتے ہیں، جس پر مسلم دنیا اور وسیع
پیمانے پر دنیا نے عظیم ترقی کی۔
تاہم، یہ بہت بڑا المیہ ہے
کہ جو نظام منظم چرچ، اشراف کے حکمرانی کرنے کے
نظریےاور توہم پرستی کا خاتمہ کرنے اور مساوات،
انصاف اور علم کی بنیاد پر معاشرے کو قائم
کرنے کی بنیا د پر تھا، اس نے کچھ ہی صدیوں بعد مذہب کے پرانے اصولوں کو اپنا لیا، اور اس نے تحقیق پر پابندی عائد کر لی
اور ایک ایسے معاشرے کا قیام کر لیا جس کا یقین تھا کہ ، " وہ اپنے آبا
و اجداد کے کے نقش قدم کی پیروی کریں گے"۔
اس نے دنیا کے مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی
کو ایک ہزار سال کے لئے دور جہالت میں دھکیل
دیا۔
اصل پیغام اور اس کی تفہیم کو اب دوبارہ کس طرح قائم کیا جائے ، یہ ایک اہم سوال ہے۔
سائبر اسپیس کمیونی کیشن ٹکنالوجی کے
دور اور لوگوں کا مغربی ممالک کی جانب نقل و حرکت کو دیکھتے ہوئے کسی کا بھی یہ خیال ہو سکتا ہے کہ اگر ہمارے
علماء کرام نئی نسل کی زبان میں بات کریں اور میڈیا کا استعمال کریں اور اس کے بجائے
عالمانہ اور دانشورانہ کام کے ذریعہ نئی نسل کو یہ بتانا چاہیں کہ کائنات کی تخلیق کیسے ہوئی تو یہ مذاہب سے ان کو
دور کرنے اور ترقی پزیر پیغام کو اپنانے میں مددگار ہوگا
اور لا (LAA) کے موزوں ہوگا۔ اس طرح ایسے
خدائوں کا انکار جو انسانیت کے فائدے کے بجائے اپنے مفاد میں اپنی کتاب کو
خود دوبارہ لکھنا چاہتے ہیں اور جو الا اللہ
کے لئے ان میں اتحاد قائم کرے گا۔
عیسائی چرچ کی مثال غور کرنے کے
لائق ہے۔ ایک وقت یہ بھی تھا جب موسیقی کو عبادت کی رسوم میں شامل کرنے کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا، جیسے
کہ آج مساجد میں ہوتا ہے۔ گرجا گھروں نے محسوس کیا کہ اجتماعی
عبادت کے لئے گرجا گھروں کو بھرنے
کے لئے یہی راستہ ہے کہ اسے عبادت کی رسوم میں شامل کیا جائے، جیسا کہ کہاوت
ہے کہ اب گرجا گھروں میں راہبہ، پادری اور
راہب ہیں ، جن کے نغمے موسیقی کے معاملے میں کافی مقبول ہو رہے ہیں۔ اور اب گرجا گھر مکمل طور پر بھر رہے ہیں۔
اللہ ، مسلمانوں کے تمام اماموں
کو درویش بننے سے منع کرتا ہے۔ جو پوری دنیا کی سیر کر رہے ہیں اور شو کر کے پیسہ
کما رہے ہیں۔ اور اس عمل کو مسجدوں کو بھرنے کے لئے اپناتے ہیں، کیونکہ اب مسجدیں بھری
ہوئی ہیں اور وہ بھی تمام غلط وجوہات کی بناء پرہے۔ لیکن اگر مسلمان علماء کرام نوجوانوں
کو تمام پیغمبروں کے پیغام کو سنانے ااور سمجھانے کے لئے ایسے ہی اقدام کو اپنانا چاہیں جو کثرتیت کی بنیاد پر مشتمل ہو اور نوجوانوں کی اس نسل کو مذہب سے دور کرنے کے لئے ، اگر ضرورت پڑے تو موسیقی کے ذریعہ اسے کیا جائے، جسے یہ لوگ بڑے جوش کے ساتھ سنتے ہیں اور یہ کام سو صفحات پر مبنی عالمانہ کام سے بھی زیادہ بہتر ہوگا
اور جو اسلام میں داخل ہونے والوں کو
تو تبلیغ کرتا ہے لیکن نوجوانوں تک نہیں پہنچتا ہے۔ بہر حال، رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے بارے میں بتایا جاتا
ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی
میں حبشہ کے وفد کے ذریعہ
انجام دی گئی موسیقی کی تقریب میں شرکت کی تھی اور پیغمبر حضرت دائود
علیہ السلام نے اپنے پیغام کی تبلیغ شاعری
اور موسیقی میں بھی کی تھی۔
-------
راشد سمناکے
ہندوستانی نژاد انجینئر (ریٹائرڈ) ہیں اور چالیس سالوں سے آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور
نیو ایج اسلام کے لئے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
URL
for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/muslim-atheist-first-momin-next!/d/7017
URL
for this article: https://newageislam.com/urdu-section/muslim-atheist-first-momin-next!/d/9178