خواجہ شبیر الزماں (علیگ(
18اکتوبر ،2012
اس حقیقت سے انکار کی کوئی
گنجائش نہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیوسٹی نے ہندوستان کو بہترین تعمیری اعلیٰ ذہن کے افراد
دیئے۔ اس مادر درسگاہ سے تعلیم یافتہ افراد اپنی بے پناہ صلاحیتوں اور انفرادیت کے
ساتھ ہر ایک شعبۂ حیات میں قوم و ملت کی خدمت کررہے ہیں تو وطن کی ترقی اور اس کو عالمی
پیمانہ پر کھڑا کرنے کے لئے بھی کوشاں ہیں۔ اس یونیورسٹی کے فارغ طلباء میں بڑے بڑے
سائنسداں ،ڈاکٹر ، ماہر سرجن ، فلاسفر ، رائٹر ، صحافی ، لیڈر ، دانشور وں پروفیسر
وں کی بڑی تعداد عالمی پیمانہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ انہی بڑی ہستیوں میں ایک قدر آور شخصیت
جاوید حبیب کی بھی تھی۔
جاوید حبیب بے باک ، بے خوف،
صاف گو صحافی تھے تو ساتھ ہی نڈر اور بے باک مقرر بھی۔ اُن کے اندر حق پر ستی اور امت
مسلمہ کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ جب وہ حالات ، سیاسی ارباب کی مسلم دشمنی ،
منافقت، جھوٹ اور فریب کا جائزہ لیتے تو اُن کے اندر کا بے لوث، بے خوف امت مسلمہ کا
درد رکھنے والا فرد جاگ جاتا اور وہ بے چین ہوجاتے۔
غالباً اسی حق گوئی ، بے باکی
اور بے خوفی کی ہی دین تھی کہ انہوں نے امت مسلمہ کے غموں کے مد د کے لئے اور ہندوستانی
مسلمانوں کی زبوں حالی اور کسمپرسی کو دیکھتے ہوئے اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا تھا ،
لیکن اخبار نکالنے کے لئے اور اسے قائم رکھنے کے لئے (فی زمانہ ایک بڑی تعداد کے نظریہ
کے مطابق) جس چاپلوسی ، خوشامدانہ مصلحت اور ضمیر فروشی کی ضرورت ہوتی ہے، جس طرح حقائق
سے چشم پوشی کر کے خود کو فریب دینا ہوتا ہے،جس طرح ارباب اقتدار اور دولت کے آگے بے
بس ہوکر قلم بیچے جاتے ہیں مجبوراً ضمیر فروشی کرنی ہوتی ہے، عوام کی تقدیر ابہام گوئی
اور حقیقت کو چھپا کر بگاڑی جاتی ہے۔ یہ سارے مکرو فریب، ریاکاری ، منافقت انہیں نہیں
آتی تھی، اس لئے ان کا اخبار ’’ہجوم ‘‘ (ہندوستانی صحافتی دنیا کے 10فیصد کو چھوڑکر
الیکٹرانک میڈیا اور ہندی انگلش پرنٹ میڈیا کی ریاکاری )فریب ، مکاری، منافقانہ صحافت
اخباری ہجوم اور جاہل عوامی ہجوم میں گم ہوگیا۔
لیکن جاوید حبیب صرف حق پرست،
حق گو، بے خوف صحافی ہی نہیں تھے ، قوم کا دردرکھنے والے بے لوث خادم بھی تھے اس لئے
:
گرمتاع لوح و قلم چھن گیا
تو کیا غم ہے
انہوں نے اپنی آواز کو او
ربلند کرلیا ۔ وہ بے باک، بے خوف حق پرست زبان جب کھلتی توسننے والے حیران و ششدر رہ
جاتے ۔ جب نہایت مؤدہانہ او رمہذبانہ لیکن معصوم انداز میں بڑے بڑے رہنماؤں کے سامنے
وہ مسلم مسائل پر اظہار خیال کرتے تو ان رہنماؤں کو انہیں جواب دینا مشکل ہوجاتا۔ جاوید
حبیب علی گڑھ کے ایم ایم ہال کے بائیں ہاتھ پر نیوسیفی میں کنارے کے کمرے میں سینکڑوں
کتابوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ یہی کتابیں اور ان کا ملی درد ان کے مونس ورفیق تھے۔ میں
امین ہاسٹل کے 72میں رہ رہا تھا۔ سامنے 80میں منظر صفی کا قیام تھا۔ اولڈ سیفی کے
21میں جہاں مولانا کلب جواد مغربی کمرہ میں رہ رہے تھے اس سے ایک کمرہ پہلے میرے دوستوں
کا کمرہ تھا اور نیو سیفی کے تمام طلباء کا کامن روم تھا جہاں شام سے رات دو بجے تک
ہنگامہ آرائی ہوتی۔
یونیورسٹی کے ہر ایک فیکلٹی
کی باتیں ہوتیں۔ آتے جاتے ان سے سلام و دعا ہوتی رہتی لیکن یہ بات کبھی وہم و گمان
میں بھی نہیں آئی کہ اس خاموش شخص کے اندر ہمہ وقت طوفان پر خاموش ہونٹوں کا بند بنا
رکھا ہے۔ تفصیلی طور پر 1978کے ماہ اکتوبر کے آخری عشرہ کے ایک پروگرام میں ان کی تقریر
کی گھن گرج اور ا ن کی تقریر ی صلاحیتوں ، لفظوں کی بازیگر ی ، چست ، جملوں کے زہر
آگیں تیر پھڑ کتے جملوں کے نشتر سے واقف ہوا۔ علی گڑھ میں مسلم کش فساد ہو چکا تھا۔
جاوید حبیب اسٹوڈنٹس یونین
کے صدرتھے ۔ فساد کے دوران یونین نے جاوید صاحب کی قیادت میں شہر کے فساد متاثرین مسلمانوں
کی مدد کے لئے غذا، دوائیاں اور دیگر مدد فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ پولس اور ہندو
دہشت گردوں نے افواہ پھیلائی کہ جاوید حبیب اور مسلم یونیورسٹی کے طلباء مسلمانوں کو
اسلحہ فراہم کررہے ہیں جبکہ پہلی بار فسادیوں نے سرسید ہال اور آفتاب ہال کے پیچھے
واقع چنگی روڈ پر فوٹو گرافر کی دکان کے علاوہ بھی کئی دکانوں کو لوٹ کر آگ لگادی تھی۔
فساد ختم ہوچکا تھا ۔ یونیورسٹی کا سیشن لیٹ ہوچکا تھا ۔ یونیورسٹی کا ماحول اور خصوصی
طور پرشہر میں خوف و دہشت کا ماحول تھا۔ جاوید حبیب نے شیخ عبداللہ کو یونیوسٹی آنے
کی دعوت دی تھی جسے انہوں نے قبول کرلیا تھا۔ شیخ عبداللہ، فاروق عبداللہ، مادر مہربان
(شیخ عبداللہ کی بیگم ) سرسید ہال کی لٹن لائبریری میں مہمان خصوصی ہیں۔ جاوید حبیب
بحیثیت اسٹوڈنٹ یونین صدر کے تقریر کررہے ہیں ۔ شیخ عبداللہ سے مخاطب ہیں:
’’شیخ صاحب! آپ نہایت قد آور مسلم رہنما ہیں۔ یوں بھی آپ کی لمبائی
آپ کے قد آور ہونے کی گواہ ہے(طلبا کا قہقہہ آپ دلی میں اندرا گاندھی سے ملنے جارہے
ہیں۔ میں آپ سے کہوں گا کہ آپ اندرا گاندھی سے ذرا دریافت کریں کہ آخر ہندوستانی مسلمان
اس مسلم کش فساد کے شکار کب تک ہوتے رہیں گے‘‘۔آپ ان سے پوچھئے اس لئے آپ کو پوچھنے
کا حق ہے۔ آپ جواہر لال نہرو اور پٹیل کے ہم عصر رہ چکے ہیں کہ آخر پتلی پتلی گلیوں
میں متعفن جگہوں پر ٹاٹ کے پردوں کے پیچھے چھوٹے چھوٹے کمروں میں ہڈیوں کے ڈھانچہ نما
مردوعورتیں ننگ دھڑنگ بچوں معذور اور بیمار افراد کے ساتھ جینے والوں کی بڑی تعداد
میں مسلمان ہی کیوں ہیں؟ آخر ہندوستانی مسلمانوں کو کس بات کی سزا مل رہی ہے۔ فساد
کے متعلق ذکر کرتے ہوئے علی گڑھ یونیورسٹی کا حال اور پولس والوں کے کارناموں کی تصویر
کچھ اس طرح کھینچی ۔
علی گڑھ میں مسلم کش فساد
پھیل گیا۔ دنگائی یونیورسٹی میں داخل ہوگئے۔ میں نے ایس پی صاحب کو خبر دی (ایس پی
کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یہ یہاں پر موجود ہیں) ان کے آفس سے جواب ملا۔ ہم پولس کی
مزید نفری بھیج رہے ہیں ۔فساد ی آگ لگاتے رہے اور لوٹ کرتے رہے۔ میں بار بار ایس پی
کے آفس ایس پی صاحب کے آفس کنٹرول کو فون کررہا ہوں آفس سے جواب مل رہا ہے۔ حالات کنٹرول
میں ہیں جب کہ ان کا آفس بھی ان کے کنٹرول میں نہیں تھا۔ (طلباء کا قہقہہ اور تالیوں
کا شور) انہوں نے آگے کہا کہ یہی نہیں جب میں فساد متاثرین کو کھانا اور راحت کا سامان
پہنچارہا تھا ان کے آفس سے یہ خبر پھیلی کہ جاوید حبیب کھانے کے بہانے مسلمانوں کو
اسلحہ پہنچارہے ہیں جبکہ ہم اورہمارے ساتھی خود بھی نہتے ہوتے تھے۔ یہ ہے ہماری پولس
کی شاندار کارکردگی .....یہ وہ تیر نیم کش تھا جو دل و جگر کے پار ہوکر ہمیشہ کے لئے
خلش چھوڑ جاتا تھا۔انہیں بہترین اسپیکر تسلیم کرتے ہوئے اس وقت کے لوک سبھا کے اسپیکر
ڈھلون نے جب وہ خصوصی تقریب میں علی گڑھ یونیورسٹی تشریف لائے تو جاوید حبیب کا زور
خطابت دیکھا جہاں انہوں مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے متعلق مضبوط شواہد مدلل
پیش کئے ۔ ان کے طرز تقریر سے متاثر ہوکر ڈھلون نے چھ ماہ کے لئے ’’پارلیمنٹری اسپکینگ
کورس‘‘ یونیور سٹی میں چلانے کی خصوصی اجازت انہیں دی تھی۔ وہ حق گو بلند آہنگ بے خوف
آواز اب خاموش ہے۔ علی گڑھ چھوڑنے کے بعد وہ دلی آگئے۔
بابری مسجد سانحہ غالباً جیسے
حساس آدمی کے لئے دوسرا ناقابل برداشت جھٹکا تھا۔ غالباً ان کا خیال تھا کہ شاہی امام
عبداللہ بخاری کی قیادت میں اس مسئلہ کا کوئی معقول حل نکل آئے گا، لیکن وقت گزر نے
کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا یقین ہوگیا کہ تمام سیاسی اکابرین نے مسلمانوں کا ووٹ
لے کر بر سراقتدار آنے کے بعد ہندستانی مسلمانوں کو نہ صرف نظر انداز کیا ہے بلکہ ان
کا استحصال بھی کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے بابری مسجد تعمیر نو کمیٹی تشکیل دی،
لیکن جس نہج پر بابری مسجد مقدمہ کی کارروائی چل رہی تھی اس سے کنارہ کشی میں ہی عافیت
تھی اور انہوں نے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
آج بھی مسلم یونیورسٹی علی
گڑھ کے اقلیتی کردار کا معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ آج بھی بابری مسجد تنازعہ اپنی جگہ موجود
ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے لئے کئی نئے محاذ دہشت گردی کے نام پر کھول دیئے گئے ہیں۔
ہندوستان میں اسرائیلی موساد اور امریکی خفیہ ایجنسی کے افراد کی بنائی پلاننگ پر عمل
ہورہا ہے اس لئے کہ ہندوستانی مسلمان عالمی پیمانہ پر انڈونیشیا کے بعد سب سے کثیر
تعداد میں دوسری آبادی کے طور پر یہاں موجود ہے۔
حکومت کے زیر سر پرستی مسلم
نوجوانوں کے ساتھ ویسے ہی معاملات ہورہے ہیں جیسا فلسطین کے غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی
کررہے ہیں ۔ اچھا ہی ہوا انہوں نے ان تمام معاملات پر ہمیشہ کے لئے خاموش اختیار کرلی۔
اگر زندہ رہتے تو نہ جانے کب تک گھٹن اور بے بسی کے احساس کے ساتھ زندہ رہنا پڑتا
۔
18اکتوبر ، 2012 بشکریہ
: روز نامہ صحافت، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/jawed-habib-fearless-voice-got/d/9034