New Age Islam
Fri Sep 20 2024, 09:57 AM

Urdu Section ( 30 March 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Do Not Target Islam in Every Debate about Women خواتین کے متعلق ہر ایک بحث میں اسلام کو نشانہ نہ بنائیں

فرح ناز زاہدی معظم

(انگریزی سےترجمہ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)

25 جنوری، 2012

ایسا کیوں ہے کہ ایسےمضامین ، بلاگ، دستاویزی فلم، کتاب یا اطلاعات کا کوئی بھی ٹکڑا جو ایک  مظلوم عورت کی بات کرتا ہے تقریبا ان تمام میں اسلام کو لایا جاتا  ہے اگرچہ وہ بے محل اور  بغیر کسی سیاق و سباق  کے ہو ں ؟

کوئی بھی  بیوی نہ مخالف ہے نہ ہی ماتحت ہے اور نہ ہی اعلیٰ ہے لیکن وہ  ایک رفیق ضرور ہے مساوی حق رکھتی ہے، اس کا کردار مختلف ہو سکتا ہے لیکن وہ برابر ہے۔

ایک شادی:  باہمی احترام، رفاقت، محبت اور خوشی پر مبنی ایک ایسا رشتہ جس کی خواہش کی جاتی ہے۔

کیا اسلام اس  کا جو تصور  پیش کرتا ہے اسی  طرح ہونا چاہئے؟اور کیا حقیقتاً  اکثر ایسا ہوتا ہے؟

نہیں، مقدمات کی پریشان کن فیصد کے باوجود، ایسا نہیں ہے۔

کیا اس کے لئے اسلام کو یا مثال کے طور پر کسی بھی مذہب کو مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہئے؟  نہیں۔  کیا پدرانہ ثقافتی رجحانات اس کے لئے ذمہ دار ہیں؟ جی ہاں، اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔

تو پھر ایسا کیوں ہے کہ تقریبا ہر مضمون، بلاگ، دستاویزی فلم، کتاب یا اطلاعات کا کوئی بھی ٹکڑا جو ایک مظلوم عورت کی بات کرتا ہے ، اس میں اسلام کو لایا جاتا  ہے اگرچہ یہ مکمل طور پر بغیر کسی سیاق و سباق  کے ہو تب بھی؟

تاہم، ایسا لگتا ہے جیسےہم  دقیانوسی دور میں رہ رہے ہیں اور جب میڈیا کی بات آتی ہے تو  ہوشیار ہو جاتے ہیں (کتابت، صحافت، موسیقی یا فلم سازی)۔ حال ہی میں فیس بک پر ایک بہت ہی مناسب تبصرہ میں کہا گیا:

"آج کل صوفی نظریہ کو سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کر سکتا ہے۔"

تھوڑا سا ملّا لوگوں کی تنقید، انسانی حقوق کی اصطلاحات، متنازعہ مسائل کو کوٹھری سے باہر لانا اور کامیابی کا نسخہ تیار ہے۔

میرا ایک صحافی اور انسانی حقوق کا سرگرم کارکن ہونے کا مطلب  یہ نہیں ہے کہ اس میں کچھ غلط ہے۔ لیکن سیاق و سباق کا ہونا ضروری ہے کسی طرح کا تعلق ہونا ضروری ہے۔ انسانی حقوق کی ہر ایک خلاف ورزی میں بغیر کسی تعلق کے مذہب کو لانا قابل بحث ہے۔  اگر یہ سیاق و سباق میں ہے تو تمام  ذرائع کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے اور ایسا کرنا چاہئے۔

مثال کے طور پر حال ہی میں ازدواجی عصمت دری پر لکھاایک دلچسپ مضمون۔  مناسب موضوع ، بہت سے لوگوں کے لئے موزوں تھا ۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملات کو  اسی  طرح اسے اٹھایا جانا  چاہئے۔ لیکن اسلام نہ تو اسکی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور نہ ہی اسے  نظر انداز کرتا ہے۔ مصنف سے زیادہ، تحریر پر آئے تبصرے پریشان کرنے والے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے لوگ اسلام پر ضرب لگانے کا موقع تلاش کر رہے تھے۔ جن احادیث مبارکہ کے حوالے دئے گئے وہ بغیر سیاق و سباق کے تھیں۔

میرا فیصلہ، میں مصنف کے ساتھ اتفاق کرتی ہوں کہ ازداجی عصمت دری بھی عصمت دری ہے۔ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔

 مجھے بھی ایک کہانی بیان کر  لینے دیجئے:

ایک مسلمان، پاکستانی،  پڑھی لکھی عورت نے اپنے نام نہاد تعلیم یافتہ شوہر کے ساتھ، اپنے تیسرے بچے کو جنم دیا۔ وہ اپنے بچے کے ساتھ گھر آتی ہے۔ اس کا فرج میں  شگاف ہوجا تا ہے۔ اس کے ٹانکے ٹھیک نہیں ہوئے ہوتے ہیں۔ پہلی رات اس کے شوہر نے اس کے ساتھ ہم بستری کی۔ اسے بہت زیادہ خون آیا۔ وہ روئی۔ وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔ لیکن اسکے شوہر کو اس کی پرواہ نہیں تھی اور اسنے  احتجاج  بھی نہیں کیونکہ یہ ازدواجی عصمت دری کا معاملہ تھا اس لیۓ احتجاج کا  سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ ایک عورت کے احترام کے بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی ہے۔ وہ بیک وقت گھریلو تشدد، ایزا دہی، اور ازدواجی عصمت دری کا شکار ہے۔

مذکورہ بالا کہانی میں کئی ایسی  دقیا نو سیت اور تصورات ہیں کہ  اگر  ایک فیچر یا فلم بنانے کیلۓ اسے  ایک بنیادی کہانی کے طور پر استعمال کیا جائے تو جو اسے فوری طور پر کامیابی مل سکتی ہے اس کہانی میں انسانی حقوق کا چیمپئن بننے کی صلاحیت ہے۔ عورت، مسلمان، ازدواجی عصمت دری، انسانی حقوق، شکار، گھریلو تشدد، ہراساں : یہ تمام الفاظ انٹرنیٹ پر سرچ میں اور بطور ٹیگ آتے ہیں۔ اس میں چند احادیث مبارکہ اور قرآن کریم کی  آیات ملا دی جائیں جو  پدرانہ  نظریات والی ہوں

تو فوراً   کامیابی کا نسخہ تیار ہوجا ۓ ،  اس مضمون پر بہت سے تبصرے آئٰیں گے، ساتھ ہی ساتھ  بہادری اور شجاعت کے ساتھ اسے سامنے لانے کی ہمّت دکھانے پر  اس کی تعریف بھی کی جائے گی ۔

مجھے یہاں واضح کر لینے دیجئے کہ یہ صرف اسلام کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ کوئی بھی مذہب یا اخلاقی ضابطہ اس کی اجازت نہیں دے گا کہ ایک انسان پر ظلم کیا جا ئے۔ لہذا جہاں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، غیر ضروری طور پر مذہب کو  نہیں لانا چاہئے۔ جی ہاں، جہاں ضرورت ہو  اسے سامنے لایا جا نا ضروری ہے۔ موجودہ بحث اور غیرت کے نام پر قتل کے خلاف سندھ اسمبلی میں ایک قرارداد کا منظور کیا جانا قصاص اور دیت   قوانین سے متعلق ہے۔ قوانین پر غور کیا گیا اور ساتھ ہی ان کی کمیوں پر بھی غور کیا گیا جو ان قوانین کو  عزّت کے نام پر قتل کے سادہ مزاج متاثرین کے خلاف غلط استعمال کی اجازت دے رہے ہیں۔

ادیبوں، صحافیوں، نامہ نگاروں اور سرگرم کارکنوں کے طور پر، ہماری ذمہ داری نہ صرف دوسروں کے تئیں بلکہ خود کے لئے بھی ہے کہ ہم جو شائع کرتے ہیں اس میں یقین رکھتے ہیں، اور اس کی مکمل طور پر تحقیق کرتے ہیں ، اوراس بات کو یقینی بناتےہیں  کہ وہ  سیاق وسباق کے ساتھ ہو۔ غیر  جانبداری ایک مقصد ہے، لیکن جب خیالات پیش کرنا ہوتا ہے تو  ایمانداری کے تعلق سے افسانہ بن جاتا ہے۔ ہمیں اپنے  جھکائو کو معقول حدود کے اندر  رکھنے کی ضرورت ہےتا کہ اس میں  غیر جانبداری کا احساس نہ ہو۔

آن لائن موجودگی ایک پرکشش بھنور ہے اور آن لائن موجودگی کے لئے ہم  بارہا سب سے زیادہ پرکشش تصورات اور خیالات کا استعمال کرتے ہیں، جو جائز ہے، اور اس کے لئے ایسےخیال یا قول یا حوالہ پیش کرتے ہیں جو با معنی ہوتا ہے۔ اس کے لئے یکساں طور پر قارئین یا ناظرین بھی ذمہ دار ہیں۔ ہم میں دانشمندی کی کمی ہوتی ہے ، تو ہم بعض تصورات اور خیالات کو مقبول کرتے ہیں،  مثال کے طور پر ان دنوں اسلام کے پدرانہ نظام کی طرف جھکائو یا انتہا پسندی ہے۔ مانگ اور سپلائی کے قوانین سامنے آ جاتے ہیں اور صحافی حضرات متوقع کامیاب مسئلوں کو اٹھانا جاری رکھتے ہیں اگرچہ یہ بغیر سیاق و سباق کے ہو تب بھی۔

میں غیر جانبداری کے لئے التجا نھیں کر سکتی کونکہ یہ مضمون سے  بیز اری  اور بالاآخر ان مقاصد میں نقصان کا سبب ہو سکتا ہے  جن کے لئے  پیروکاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں صرف منصفانہ نظری کے لئے کہ سکتی ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ممکن ہے۔

مصنفہ کے خیالات اور قاری کے تبصرے ضروری نہیں کہ ایکسپریس ٹربیون کے خیالات اور پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہوں۔

ماخذ: ایکسپریس ٹربیون، لاہور

URL for English article: http://www.newageislam.com/islam,-women-and-feminism/don’t-drag-islam-into-every-debate-concerning-women/d/6615

URL: https://newageislam.com/urdu-section/do-target-islam-every-debate/d/6958

Loading..

Loading..