خامہ بگوش مدظلہ، نیو ایج اسلام
26 اپریل، 2013
پاکستان میں اُبھرتے ہوئے سلفی کٹر پن کے بارے میں کسی سطح پر گفتگو کرنا عام نہیں کیوں کہ اس طرح کا رویہ خطرناک ہوسکتا ہے،نہ ہی لوگ اس موضوع پر کچھ کہنا چاہتے ہیں اور نہ سننا۔جن لوگوں نے اپنے طور پر کسی فورم پر ایسا کرنے کی کوشش کی تو اس بات کا ضرور اہتمام رکھا کہ کوئی ’’اجنبی‘‘ اس قسم کے مذاکروں میں شامل نہ ہونے پائے۔کسی تعلیمی ادارے یا کسی اخبار وغیرہ میں بھی اس قسم کی کسی کارروائی کے بارے میں کبھی سننے میں نہیں آیا۔جبکہ دوسری طرف مذہبی و مسلکی تنظیمیں اور جماعتیں آئے روز مخصوص ایام کی مناسبت سے یا ویسے ہی ایسے مذاکروں اور سیمیناروں کا اہتمام کرتی رہتی ہیں جن میں آج کی نسل کوحالات کے تناظر میں رہنمائی فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حالانکہ مذہبی مدارس اور سرکاری تعلیمی اداروں میں مذہب کی مبادیات کا سہارا لے کرروزانہ سماجی، اخلاقی اور سیاسی موضوعات پر تربیت عام کا بندوبست کیا جاتا ہے۔جن کو پاکستانی اخبارات اور ٹی وی چینل مکمل کوریج دیتے ہیں۔اگر اس پر کوئی احتجاج کرے یا متبادل پیش کرے یا اس کو فرقہ وارانہ اور انتہا پسندی کا حامل رویہ قرار دے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ وہ دین دشمن ہے، کفار کا خیرخواہ اور نمایندہ ہے اور سب سے بڑھ کر اس کا قلع قمع لازمی ہے۔ایسے لوگوں کا قلع قمع آسانی سے کیا جاسکتا ہے یا اِنہیں مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس کام سے باز آجائیں یا مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ایک تیسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ’’دارلسلام‘‘ کو چھوڑ دیں۔جیسا ہم نے پاکستان میں کئی مرتبہ دیکھا ہے اور تازہ مثال کے طور پر جید عالم دین علامہ جاوید احمد غامدی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، جو غیر متشدد اسلام اور مذہب میں غور و فکر کی تلقین کرتے تھے اور اکثر اوقات اِنہیں ذرائع ابلاغ پر یا عام زندگی میں شدید ترین اختلاف کا سامنا کرنا پڑالیکن جب وہ اپنے نقطہ نظر پر ڈٹے رہے تو اِنہیں ایک دن پاکستان کو چھوڑنا پڑا کیوں انہیں سلفی مسلح تنظیموں اور طالبان کی طرف سے باقاعدہ دھمکی موصول ہوئی کہ وہ مرنے کے لیے فی الفور تیار ہوجائیں۔اُنہوں نے ملک چھوڑنے کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کیا کہ اُنہوں نے اس لیے پاکستان چھوڑ دیا کہ اُن کی وجہ سے بعض بے گناہ اور معصوم لوگ بھی جان سے مارے جاتے۔کیوں کہ سلفی حضرات اُن کا گھر دھماکے سے اُڑانا چاہتے تھے۔
پاکستان کے سلفی کسی بھی قسم کی بینکاری کے مخالف ہیں اِن کا یقین ہے کہ پاکستان میں سودی کاروبار کے حامل بینک اور ان کے کھاتہ دار اللہ کے ساتھ جنگ میں مصروف ہیں۔حالانکہ جماعت الدعوہ اور اس کی جہادی تنظیم لشکر طیبہ اور موجودہ فلاحی تنظیم فلاح انسانیت فاونڈیشن سودی کاروبار کے حامل بینکوں میں اپنے اکاونٹس رکھتی ہیں اور اِنہی بینکوں کے ذریعے لوگوں سے امداد کی اپیل کرتی ہیں۔مجلہ الدعوہ، مجلہ الحرمین انگریزی جرائد وائس آف اسلام اور ویژن اسلام میں حافظ محمد سعید، مولانا امیر حمزہ اور جماعت الدعوہ کے دیگر اعلیٰ عہدیدار تواتر سے سود کی حرمت اور پاکستانی بینکوں میں سودی کاروبار کی لعنت کے نقصانات کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں۔ان کا مطمع نظر یہ ہے کہ پاکستان اور دسورے ممالک کے سودی بینکوں کے کھاتہ دار چوں کہ اللہ کے ساتھ براہ راست جنگ میں مصروف ہیں اس لیے ان کا جنت میں جانے کا کوئی امکان نہیں۔حالانکہ اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل یعنی جہاد کے لیے پیسہ اِنہی سودی بینکوں اور سود خور رحم دل مسلمانوں کی طرف سے مہیا کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والے تمام بینک زکواۃ اور صدقات کو جمع کرتے ہیں اور مساجد کی تعمیر سے لے کر مذہبی مدارس کے اخراجات تک اس پیسے سے پورے کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان بھر میں لشکر طیبہ کو مالی امداد دینے والوں میں سرفہرست پاکستان کے جیولرز ہیں۔جو لوگ جانتے ہیں کہ یہ کیسا کاروبار ہے ،اُنہیں معلوم ہوگا کہ اگر جیولر اپنے کام میں ایمانداری کا شائبہ بھی آنے دے تو اس کو ایک پیسے کی بچت نہیں ہوسکتی۔لہذا جیولر کا کاروبار مکمل طور پر ملاوٹ اور کم تول ناپ سے تعلق رکھتا ہے تاکہ اُس کو قابل قدر بچت ہوتی رہے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بے ایمانی اور دھوکہ دہی کے پیسے کی مدد سے جہاد جیسا پاکیزہ فریضہ سر انجام دیا جاسکتا ہے؟دوسری طرف اگر پاکستان میں آپ کسی جیولر کی دکان میں داخل ہوں تو سب سے پہلے سونے کی پانی چڑھی قرآنی آیات پر نظر پڑتی ہے جو اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ یہ ایک مکمل مذہبی انسان کی دکان ہے جو اپنے کاروبار سمیت ہر چیز میں مذہب کو اولیت دیتا ہے۔پاکستان میں سلفی جہادی تنظیم لشکر طیبہ کو ملک بھر کے جیولرز سب سے زیادہ عطیات دیتے ہیں جن کی مدد سے جہاد کا کام جاری و ساری رہتا ہے۔
اب دفاتر ،تعلیمی اداروں اور عام پبلک مقامات پر سلفیت کا دوردورہ ہے، صفا چٹ مونچھوں اور لمبی ڈاڑھی والے ڈھیلے ڈھالے لباس میں ملبوس نوجوان اور سر سے پاوں تک سیاہ برقعوں اور دستانوں سے ڈھکی ہوئی نوجوان لڑکیاں کٹر اسلام کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتی ہیں۔یہ نوجوان روزانہ کلاس رومز اور کیفے ٹیریا سے لے کر فیس بک اور ٹویٹر صفحات تک اپنے سخت گیر نظریات کا پرچار کرتے ہیں اور مقامی سماج میں سرایت کرجانے والے غیر اسلامی رسوم و رواجات اور بدعات منکرات پر بحث مباحثے کرتے ہیں۔اِنہیں اس بات کا شدید قلق ہے کہ اِن کے ملک پاکستان جس کو اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا، کو کفار اور مشرکین کے حملوں کا سامنا ہے۔اِن کو یقین کامل ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، جن کو پاکستان کے نام نہاد مورخین نے سیکولر بنا کر پیش کیا ہے۔وہ یہ توجیح پیش کرتے ہیں کہ اگر قائد اعظم باعمل مسلمان نہیں تھے تو اُنہوں نے تحریک پاکستان کے دوران کیوں یہ کہا کہ ہندوستان میں پاکستان کی بنیاد اُسی روز پڑ گئی تھی جب یہاں پہلی مرتبہ کسی مقامی نے اسلام قبول کیا تھا۔اس کے علاوہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک ریاست کے تصور کو اُجاگر کرنے والے قائد اعظم کے فرمودات بھی اُنہیں ازبر ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں کسی غیر مسلم کو مسلمانوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں۔بعد میں آنے والے فوجی حکمران ضیا ء الحق کو یہ نوجوان پکا مسلمان قرار دیتے ہیں جس کے دل میں اُمت مسلمہ کا غم کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور جس نے لادین روس کو نہ صرف شکست سے دوچار کیا بلکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردئیے۔افغان جہاد اکیسویں صدی کا معجزہ ہے جس نے پوری دنیا کے کفار کو افغانستان میں خاک چاٹنے پر مجبور کردیا ہے اور مغربی دنیا افغانستان میں عبرتناک شکست کھانے کے بعد وہاں سے راہ فرار اختیار کررہی ہیں۔اِنہیں پاکستان کے سو سے زائد ایٹم بموں سے عشق ہے جو بھارت اور اسرائیل سمیت امریکہ و برطانیہ کی تباہی و بربادی کے لیے استعمال ہوں گے۔اِن کا خیال ہے کہ صرف پاکستان کے حکمران بودے ، بزدل اورلالچی ہیں بصورت دیگر تمام عالم کفر کب کا پاکستان کے سامنے سرنگوں ہوچکا ہوتا۔نوجوان لڑکیاں القاعدہ کی معاون ومددگار ڈاکٹر عافیہ کو اپنی ہیرو گرادنتی ہیں جو پاکستان کے ایک بدنام حکمران اور اسلام دشمن پرویز مشرف کی وجہ سے آج کفار کی قید میں ہے۔آج عافیہ پر کئی کتب مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور بہت سی نومولود بچیوں کے نام عافیہ رکھے گئے ہیں۔اُسامہ بن لادن کے ہیرو ہونے پر کوئی دوسری رائے نہیں اور جب پاکستان میں مغرب نواز اسلام دشمن اور لالچی حکمرانوں کا دور ختم ہوجائے گا تو پاکستان کی اسلامی پارلیمنٹ اُسامہ بن لادن کے یوم شہادت کو قومی دن کے طور پر منانے کی قرارداد پاس کرے گی اور قوی اُمید ہے کہ اُسامہ کے نام سے بہادری اور اسلام دوستی کا قومی ایوارڈ متعارف کروایا جائے تاکہ عالم اسلام کے اس عظیم سپوت کو خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی اس قدرے نئی شکل وصورت کو مقبول عام پاکستانی میڈیا پیش کرنے سے قاصر ہے۔اس میں ذرائع ابلاغ میں طاقت کے حامل سخت گیر لوگوں کی بڑی تعداد کا اثرورسوخ سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے جو پاکستان کے عوام کو اپنے نظریے کی عینک سے دیکھی ہوئی چیزیں دکھانا چاہتے ہیں اور اس سے ہٹ کر ہر چیز اُن کے لیے حرام اور غیر اسلامی ہے۔مثال کے طور پر پاکستانی راسخ العقیدہ میڈیا پاکستان کے شہروں میں جابجا نظر آنے والی جسم فروشی کو موضوع نہیں بنا سکتا کیوں کہ اس طرح اسلامی معاشرے کا پول کھل جانے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔میڈیا نہ ہی دینی مدارس میں تواتر کے ساتھ چھوٹے بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں پر کچھ کہنا چاہتا ہے کہ اگر وہ ایسا کرے گا تو دشمنان اسلام کو اپنا کمزور گوشہ دکھانا پڑے گا۔ابھی پچھلے سال پاکستان میں طالبان، فرقہ پرستوں اور دیگر مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ بعض مغربی ممالک کے سفارتی حلقوں سے تعلق رکھنے والے اور امداد حاصل کرنے والے بھاری بھرکم ملاں طاہر اشرفی جو پاکستان علماء کونسل نامی تنظیم کا سربراہ بھی ہے، جرمنی کے سفارت خانے میں برپا ایک تقریب میں حد سے زیادہ شراب پی جانے کے بعد جب خاصا بہک گیا اور پولیس کے ساتھ بدتمیزی کرنے لگا تو اس کو گرفتار کرلیا گیا۔ملاں کے ساتھیوں نے فوج اور بیوروکریسی میں موجود دوستوں کی مدد سے اس کو تھانے کی حوالات سے رہا کروایا تو اس نے ایک ٹی وی چینل پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس کو اغواء کرلیا گیا تھا۔عام خیال یہی تھا کہ اغواء کار طالبان کا کوئی گروپ ہے لیکن پھر اچانک ہی ملاں اشرفی منظر عام پر آگیا اور اغواء کی کہانی سے مکر گیا۔اس ملاں کی طاقت اور رابطوں کا یہ عالم ہے کہ لشکر جھنگوی کے سربراہ مولانا ملک اسحاق کی جیل سے رہائی کے وقت یہ پھولوں کا ہار لے کر استقبال کے لیے باہر کھڑا تھا۔پاکستان کے میڈیا نے پاکستان علماء کونسل کے سربراہ ملاں اشرفی کی شراب نوشی اور پھر اغواء کی جھوٹی داستان کے بارے میں ایک لفظ بھی نہ کہا اور یوں ملاں اپنے تمام تر تقدس اور رابطوں کے ساتھ موجود ہے۔
خامہ بگوش مدظلہ۔تعارف
ایک متذبذب مسلمان جو یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مسلمان کی اصل تعریف کیا ہے۔کیا مسلمان واقعی سلامتی کا داعی ہے یا اپنے ہی ہم مذہبوں کی سلامتی کا دشمن؟اسلام کی مبادیات،تاریخ،تہذیب اور تصور عالم کیا ہے اور کیوں آج مسلمان نہ صرف تمام مذاہب بلکہ تہذیبوں کے ساتھ بھی گتھم گتھا ہیں؟کیا اسلام غالب آنے کو ہے یا اپنے ہی پیروکاروں کے ہاتھوں مغلوب ہوچکا ہے؟میں اِنہی موضوعات کا طالب علم ہوں اور نیو ایج اسلام کے صفحات پر آپ دوستوں کے ساتھ تبادلہ خیال کی کوشش کروں گا۔
URL for Part 3: https://newageislam.com/urdu-section/the-salafi-wave-south-asia-3/d/11174
URL for Part 2: https://newageislam.com/urdu-section/the-salafi-wave-south-asia-2/d/11078
URL for Part 1: https://newageislam.com/urdu-section/the-salafi-wave-south-asia-1/d/10959
https://www.newageislam.com/urdu-section/the-salafi-wave-south-asia/d/11296