خالد شیخ
ورلی پر دور درشن کیندر کے
سامنے جوگلی ہے وہ عموماً سنسان ہوتی ہے۔ گلی کے دونوں طرف بڑی کمپنیوں کے دفاتر ہیں
اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر درختوں کی قطاریں ہیں جن کی وجہ سے گلی میں ٹھنڈک اور سایہ
رہتا ہے ۔شام کے وقت اگر کبھی آپ کا گزراس گلی سے ہوتو اسٹریٹ لائٹس کے نیچے آپ کو
طلبہ کے گروپ اسٹڈی یا گفتگو کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔تعلیم کے تئیں ان بچوں کی دلچسپی
اور لگن دیکھ کر خوشگوار حیرت اور مسرت ہوتی ہے۔ ان بچوں کا تعلق غالباً ان غریب یا
متوسط گھرانوں سے ہوتا ہے جو کوچنگ کلاسز کے اخراجات کے متحمل نہیں ہوتےہیں۔ ورلی کے
اطراف کی کثیر آبادی ہندوؤں اور دلتوں پر مشتمل ہے۔چھوٹے چھوٹے کمروں میں رہنے والے
یہ بچے جگہ کی تنگی اور ماحول کے شور شرابے سے بچنے کیلئے یہاں اسٹڈی کیلئے آجاتے
ہیں اور یہ سلسلہ تقریباً سال بھر جاری رہتا ہے ۔انہیں دیکھ کر ہمیں اپنا زمانہ یادآگیا
۔ہم اوسط درجے کے طالب علم رہے ہیں اور امتحان کے موقع پرہی پڑھائی کی طرف متوجہ ہوتے
تھے اس کے لئے کبھی ہم ممبئی سینٹرل اسٹیشن کے خالی پلیٹ فارم پر تو کبھی رانی باغ
میں یا پھر کسی دوست کے گھر ڈیرا جماتے تھے۔ آج بھی اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر طلبا محو
اسٹڈی نظر آتے ہیں لیکن قریب میں ہی مسلمانوں کی کثیر آبادی کے باوجود وہاں ہمیں
کوئی مسلم طالب علم نظر نہیں آتاہے۔
چند سال پہلے ہم نے اپنے دوستوں
کے ساتھ گھوگھاری محلے کے مدرسہ فیض العلوم کی دومنزلہ عمارت میں ایک اسٹڈی سینٹر قائم
کیا تھا تاکہ قرب وجوار کے گھنی آبادی اور شورشرابے سے دور علاقے کے اسکول اور کالج
کے طلبہ وہاں آکر اطمینان وسکون کے ساتھ اسٹڈی کرسکیں ۔ ہم لوگوں نے ایک ہینڈ بل بھی
تقسیم کیا تھا اور مفت گائڈ بکس اور کوچنگ کا انتظام کیا تھا۔اور آس پاس کےاسکولوں
کے پرنسپل صاحبان سے مل کر گزارش کی تھی کہ بچوں کو ان سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کی
ترغیب دیں۔پہلے دوچار دن تقریباً 20طلبہ جمع ہوئے ۔اس کے بعد ان کی تعداد بتدریج کم
ہوتی گئی اور مہینے بھر کے اندر ہی ہمیں وہ
سینٹر بند کرنا پڑا ۔یہ اس مذہب کے ماننے والوں کا حال ہے جس کے مردوزن کیلئے علم کا
حاصل کرنا فرض عین قراردیا گیا ہے۔ اسلام میں حصول علم کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا
جاسکتا ہے کہ کلام پاک کے نزول کا آغاز ہی ‘اقرا ’اور ‘قلم’ سے ہوا جو حصول علم کی
شاہ کلید ہے۔
اسلام نے دینی ودُنیوی علوم
کی تحصیل میں کوئی تخصیص نہیں رکھی ہے بلکہ ہر اس علم کو نافع قرار دیا ہے جو انسانیت
کے سود مند اور اسلامی اقدار سے متصادم نہ ہو۔ دینی تعلیم انسان کو اچھا انسان بناتی
ہے تو عصری تعلیم اس کےلئے دنیوی ترقی کی راہیں کھولتی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ اسلام
میں دین ودنیا کے کاموں میں جب احکام الہٰی کی فرمانروائی ہوتی ہے تو وہ دین بن جاتا
ہے اس وقت اس کاکھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا ، سونا جاگنا غرض ہر عمل دین کے تابع ہوجاتا
ہے ۔ایک قلیل عرصے میں اسلام کی قبولیت ومقبولیت کے پیچھے یہی راز کا رفرماتھا ۔عہدِ
رِسالت اور دَورِ صحابہ سے لے کر قرونِ وسطیٰ تک مسلمان علم وفن اور تہذیب وتمدّن کے
میر کارواں تھے۔ انہوں نے ایسے ایسے علمی وتحقیقی کارنامے انجام دیئے جس نے جدید فلسفہ
اور سائنس کی بنیاد رکھی ۔ہمارے اسلاف نے دین ودنیا کے درمیان ایسا عادلانہ توازن قائم
کیا کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا مشکل تھا۔ جب تک یہ توازن قائم رہا دنیا مسلمانوں
کے آگے سرنگوں ہوتی رہی لیکن جہاں ان کے قدم ڈگمگائے دنیا کے قیادت وسیادت ان سے چھن
گئی۔
یہ دور علوم وفنون اور ایجادات
وانکشافات کا ہے کسی زمانے میں ان پر مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔ آٹھویں صدی سے چودھوی
صدی تک سائنس ،فلسفہ، منطق ، ریاضی طب، کیمیا، فلکیات، ارضیات غرض علم کا کوئی شعبہ
ایسا نہ تھا جسے دنیا سے روشناس کرانے میں مسلمانوں کی کاؤشیں شامل نہ رہی ہوں۔مغرب
کو بھی اس کا احساس ہے چنانچہ ڈاکٹر لین پول لکھتے ہیں کہ یورپ ضلالت وجہالت کے اندھیروں
میں گم تھا اس وقت اندلس پوری دنیا میں علم وفن اور تہذیب وثقافت کا علمبردار تھا۔
رابرٹ بریفالٹ اپنی کتاب ‘‘تعمیر انسانیت’’ میں رقمطراز ہیں۔‘‘ یورپ کی ترقی کاکوئی
شعبہ اور گو شہ ایسا نہیں جس میں اسلامی تمدّن کا دخل نہ ہو ۔ اس تمدن کے سائنسی طرز
فکر نے یورپ کی زندگی پر بہت عظیم الشان اور مختلف النوع اثرات ڈالے ہیں ۔
اس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب
اسلامی تہذیب وتمدّن کی پہلی کرنیں یورپ پر پڑنی شروع ہوئیں’’۔نوبل انعام یافتہ پاکستانی
سائنسداں مرحوم عبدالسلام اپنی ایجادات کیلئے قرآن حکیم سے تحریک حاصل کرتے ہوئے
۔فرانسیسی سرجن ڈاکٹر موریس بوکایے جنہوں نے اپنی شہر ۂ آفاق تصنیف ‘‘قرآن بائبل
اور سائنس میں سائنسی حقائق سے متعلق دونوں صحیفوں کا تقابلی موازنہ کیا ہے۔اس اعتراف
پر مجبور ہوئے کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے اور اس میں اور سائنس میں مکمل ہم آہنگی
ہے۔ ہم یہ بتادیں کہ قرآنی علوم کو سیکھنے اور سمجھنے کیلئے ڈاکٹر بوکایے نے عربی
زبان سیکھی عرب ملکوں کا دورہ کیا اور تفاسیر کا مطالعہ کیا۔اسلام میں حصول علم کی
اہمیت اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ قرآن حکیم کی جملہ 6666آیات میں جہاں 250آیتیں
شرعی قوانین سے متعلق ہیں وہیں 756آیات یعنی قرآن کا نواں حصہ مسلمانوں کو بار بار
مظاہر قدرت پر غور وفکر کی دعوت دیتا ہے چنانچہ متعدد مقامات پر یعقلون ،یتذکرون، یتفکرون
اور یقدبرون جیسے الفاظ آئے ہیں جن میں غور فکر اور تدبر وتفکر سے کام لینے کی ہدایت
کی گئی ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کی دینی ودنیوی علوم سےبے رغبتی افسوسناک ہی نہیں
،عبرتناک بھی ہے اور ان کی ہمہ جہت پسماندگی کا سب سے بڑا سبب ہے۔قوموں کے عروج وزوال
میں علم وجہل کا فرق ہے جس کی جڑیں ماحولیاتی اور معاشرتی بگاڑ سے جاملتی ہیں۔مسلمانوں
کے دینی وتعلیمی ادارے حصول علم کے تئیں طلبہ کی ذہن سازی، سائنسی طرز فکر اور اس کا
ذو ق پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ دور بے رحم مسابقت اور علم پر مبنی سماج کا ہے
جو علم اور مسابقت کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کا انتظار نہیں کرتا کچل کر آگے
نکل جاتا ہے۔
اگر مسلمانوں نے تعلیم کے
میدان میں اپنی صلاحیتیں بروئے کار نہیں لائیں تو پسماندگی ہمیشہ ان کا مقدر بن جائے
گی۔ انیسویں صدی میں مسلمان اس سے بھی زیادہ برے حالات کا شکار تھے ۔1857کی پہلی جنگ
ِآزادی کی ناکامی کے بعد وہ ٹوٹ چکے تھے اس وقت علما کے ایک گروپ نے مسلمانوں کے مذہبی
تشخص اور دینی سرمائے کے تحفظ کیلئے دیوبند میں دارالعلوم کی بنیاد ڈالی تو دوسری طرف
دانشوروں کے ایک طبقے نے جس کے قائد سرسید تھے مذہبی تشخص برقرار رکھتے ہوئے سیاسی
، انتظامی اور معاشی میدان میں ترقی اور ساجھیداری کیلئے مغربی طرز تعلیم کو اپنایا،اس
طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی داغ بیل پڑی ۔ دونوں ادارے دینی وعصری تعلیم کیلئے آج
بھی بقعۂ نور ہیں لیکن اس کیلئے جس ہمہ وقتی تحریک ،لگن اور توجہ کی ضرورت ہے وہ موجودہ
اکابرین میں مفقود ہے۔
بشکریہ۔ انقلاب، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islam,-muslims-education-/d/6411