جاوید چودھری
مرکزی مدرسہ بورڈ کے قیام کے سلسلے میں گفتگو ہورہی تھی ،بورڈ کے دستور العمل کا مسودہ ہمارے سامنے تھا، اس کی مختلف شقوں اور دفعات پر دوڈھائی گھنٹے تک گفتگو ہوچکی تو آحر میں ’حضرت مولانا‘ کہنے لگے کہ اگر سرکار وہ تمام اندیشے اور خدشات دور کرادے اور مدرسوں میں کسی قسم کی مداخلت نہ کرنے کی ضمانت دے تو بورڈ کے قیام میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ بہت اچھا ہے کہ ہماری اسناد کو اسکول کالج کی اسناد کے مساوی تسلیم کرلیا جائے گا لیکن جب اسکول کالج کے بچے بورڈ کے امتحانات میں عصری مضامین میں فیل کرجاتے ہیں تو ہمارے بچے کیسے پاس کریں گے؟ جس نصاب کی بات اس مسودے میں ہے اس کے تعلق سے مدارس کے ذمہ داران عام طور پر یہی کہیں گے کہ اس سے طلبہ پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ ایک دوسرے ’مولانا‘ جو مرکزی مدرسہ بورڈ کی مخالفت کا مورچہ سنبھا لے ہوئے ہیں جب ان کے سامنے بورڈ کے مجوزہ دستور کا اردو ترجمہ پیش کیا گیا تو موصوف نے چن چن کر اس کی ان شقوں کو نشان زد کیا جن میں بورڈ کے نصاب کی صراحت ہے کہ یہ عربی زبان اور علوم دینی کے علاوہ ایسی عام تعلیم پر مبنی ہوگا جس سے طلبہ یونیورسٹی یا کسی بھی اعلیٰ تعلیم کے ادارے میں داخلہ کے اہل ہوجائیں ۔ تیور سے الگ رہاتھا کہ یا تو وہ درس نظامیہ کے ساتھ عصری علوم کی ورس و تدریس کو حرام وناجائز سمجھتے یا پھر اسے انتہائی مشکل بلکہ ناممکن العمل تصور کررہے ہیں۔ دراصل یہ ہماری تن آسانی کی کی ایک ادنیٰ سی جھلک اور برصغیر میں مسلم معاشرے کا عمومی مزاج ہے رونہ آج کے تیز عہد میں جن کو انفجار معلمی (Explosion of knowledge) کا عہد کہا جاتا ہے ۔ ہمارے علماء وطلبہ ریاضی اور سائنسی کی بنیاد ی و ضروری تعلیم کو مشکل نہ سمجھتے ۔ پاکستان کے معروف صحافی ایکسپریس نیوز کے ٹاک شو’کل تک‘ کے میزبان جاوید چودھری کا یہ مضمون ان کے اصل مخاطبین کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے بھی درس عبرت ہے۔ (ادارہ(
مجھے اپنے لیے ریسر چر چاہئے تھا، ہم نے اس سلسلے میں انٹر نیٹ پر اشتہار دیا، بے شمار لوگوں نے اپلائی کیا، ان میں حافظ شبیر اعوان بھی شامل تھے، حافظ صاحب انٹرویو کے لیے تشریف لائے تو میں انہیں دیکھ کر حیران رہ گیا، حافظ صاحب پیدائشی اندھے ہیں لیکن انہوں نے لیپ ٹاپ اٹھا رکھا تھااوریہ ریسرچر کی جاب کے لئے انٹر ویو دینے آئے تھے ، میں تصور نہیں کرسکتا تھا کوئی نابینا کمپیوٹر بھی چلا سکتا ہے اور یہ انٹر نیٹ سے ریسرچ بھی کرسکتا ہے لہٰذا میں نے ٹسٹ کے لیے حافظ صاحب سے عرض کیا ’’دنیا میں ایک ایسا معذور سائنس داں بھی ہے جس نے نہ صرف معذوری کے باوجود آئن اسٹائن کے بعد دوسرے بڑے سائنس داں کا اعزاز حاصل کیا بلکہ وہ دنیا کا بہترین مصنف بھی بنا ،کیا آپ مجھے انٹر نیٹ سے اس سائنس داں کا پروفائل نکال کر دے سکتے ہیں‘‘ حافظ صاحب نے لیپ ٹاپ کھولا، گوگل پر گئے اور ریشرچ شروع کردی ،حافظ صاحب کی انگلیاں ’کی بورڈ پر تیزی سے تھرک رہی تھیں اور وہ اسکرین ریڈنگ سافٹ ویئر کے ذریعہ سائنس داں تلاش کررہے تھے، وہ آدھے گھنٹے میں نہ صرف اسٹیفن ہاکنگ تک پہنچ گئے بلکہ انہوں نے مجھے اس کا ساراپروفائل بھی بتانا شروع کردیا، میں نے اس کے بعد ان سے عرض کیا’’چین نے اگست میں اپنے ایک سیاست داں کو کرپشن کے الزام میں موت کی سزا دی تھی ، کیا آپ مجھے اس سیاست داں کا نام، اس کا جرم، اور بیک گراؤنڈ تلاش کرکے دے سکتے ہیں‘‘حافظ صاحب دوبارہ لیپ ٹاپ میں گم ہوگئے ،میں نے ساتھ ہی یہ ٹاسک اپنے پرانے ریسرچر کو بھی دے دیا، یہ ریسر چر پچھلے سات سال سے میرے ساتھ کام کررہا ہے، یہ انٹر نیٹ کا کیڑا ہے اور صحافتی ریکوائر منٹس سے پوری طرح واقف ہے ، دونوں نے کام شروع کیا لیکن حافظ نابینا ہونے کے باوجود اس سے آگے نکل گئے، یہ نہ صرف چین کے اس سیاست داں تک پہنچ گئے بلکہ مجھے انہوں نے پچھلے ساٹھ سال میں کرپشن کے الزامات میں سزا ئے موت پانے والے تمام چینی سیاست دانوں کی تفصیل بھی نکال کر دے دی، میں حافظ صاحب کی صلاحیت پر حیران رہ گیا۔
حافظ شیبر اعوان وادی سون سیکسر کے گاؤں مردوال میں پیدا ہوئے ، ان کے والد محکمہ زراعت میں چھوٹے سے ملازم تھے، حافظ صاحب دوبھائی ہیں اور یہ دونوں پیدائشی نابینا ہیں، حافظ صاحب کے پاس بچپن میں دو آپشن تھے، یہ دوسرے نابیناؤ ں کی طرح بھیک مانگ کر زندگی گزاردیں یا پھر زندگی کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور خود سے بھیک مانگنے پر مجبور کردیں، حافظ صاحب نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا، انہوں نے لفظوں کو ٹٹول ٹٹول کر بی اے کیا، پھر بی ایڈ کیا، پھر پنجاب یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کیا اور پھر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا، حافظ صاحب نے اس دوران قرآن مجید بھی حفظ کیا،یہاں تک ان کا سفر غیر معمولی نہیں تھا، پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک میں بے شمار نابینا بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن حافظ صاحب کا کمال کمپیوٹر تھا، حافظ صاحب نے اسکرین ریڈنگ سافٹ ویئر کے ذریعہ اپنی مدد وآپ کے تحت کمپیوٹر سیکھا، اپنی قوت سماعت کو اپنی بینائی بنایا اور آوازدوں کے ذریعہ انٹر نیٹ کی دنیا میں اتر گئے اور اب یہ نہ صرف نارمل نوجوانوں کی طرح کمپیوٹر اور انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں بلکہ موبائل پر ایس ایم ایس بھی کرتے ہیں ، انہیں دنیا بھر سے ای میلز اور ایس ایم ایس ایم ایس اور ای میلز کا جواب بھی دیتے ہیں ، حافظ صاحب کے موبائل میں فون بک بھی ہے، یہ اس فون بک میں لوگوں کے نمبر بھی ’سیور‘ کرتے ہیں، ان کا لزم بھی ’ریسیو‘ کرتے ہیں اور انہیں کال بھی کرتے ہیں اور حافظ صاحب یہ سارے کم خود سر انجام دیتے ہیں ، یہ آوازوں اور تھوڑی سی چہل قدمی سے کمرے کے اندرونی ماحول اور سیٹنگ کا اندازہ بھی لگالیتے ہیں اور چند لمحے بعد پورے اعتماد کے ساتھ کمرے میں چلنا پھرنا شروع کردیتے ہیں۔
میں حافظ محمد شبیر اعوان کو اسٹیفن ہاکنگ کے مقابلے میں کہیں زیادہ باہمت اور جرأت مند انسان سمجھتا ہوں کیونکہ اسٹیفن باکنگ ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوا تھا جس میں معذور وں کو اسپیشل شہری سمجھا جاتا ہے اور عام لوگوں کے مقابلے میں انہیں زیادہ سہولتیں فراہم کی جا تی ہے جب کہ حافظ شبیر اعوان نے ایک ایسے ملک میں جنم لیا تھا جہاں معذوروں کا مقدر خیرات اور صدقہ ہوتا ہے اور جہاں انہیں عام شہریوں کے برابر بھی حقوق نہیں دیے جاتے ۔ آپ بڑی سنجیدگی کا اندازہ اں بات سے لگا لیجئے کہ اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت تھا جس میں ٹانگوں کے معذور خواتین و حضرات کسی دکان میں داخل نہیں ہوسکتے تھے، سی ڈی اے کے چیئر مین کامران لا شاری نے اپنے دور میں مہربانی کی اور انہوں نے پورے شہر میں معذوروں کے لیے پارکنگ اور تمام کمررشیل ایریاز ،گراؤنڈ ز اورپارکس کے گیٹس پر ’’یمپز ‘‘ بنوادیے جس کی وجہ سے آج ویل چیئر ز پارکس ، گراؤنڈز اور کمرشیل ایریاز میں داخل ہوسکتی ہیں چنانچہ ایسے ماحول میں حافظ شیبر اعوان کا پیدا ہونا، وادی سون سیکسر میں زندگی کو ٹٹولنا شروع کرنا اور پھر ایسا کمال کردینا واقعی قابل ستائش ہے لہٰذا ہم حافظ صاحب کو جس زاویے سے بھی دیکھیں یہ عزم ہمت اور جرأت کی اعلیٰ مثال ہیں ، زندگی سے لڑنا اور پھرنا اپنا مقام بنانا مشکل ہوتا ہے لیکن آنکھوں کی معذوری کے ساتھ زندگی کے مصائب کا مقابلہ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے ،آنکھیں کتنی بڑی نعمت ہیں؟اس کا اندازہ لگانے کے لیے آپ صرف ایک گھنٹہ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیں ،آپ کو محسوس ہوگا۔ آپ کی 75فیصد زندگی آپ کے ہاتھ سے نکل گئی ہی ، آپ اب ٹیلی ویژن نہیں دیکھ سکتے، آپ کمپیوٹر استعمال نہیں کرسکتے ،آپ موبائل پر ایس ایم ایس نہیں کرسکتے ،آپ لوگوں کے ٹیلی فون نمبر رسیو نہیں کرسکتے اور آپ اب سات رنگوں کی اس دنیا کونہیں دیکھ سکتے ،آپ کو چڑیا کی آواز آرہی ہے لیکن یہ چڑیا دیکھنے میں کیسی ہے، آپ یہ نہیں جان پاتے ، آپ سڑک پار نہیں کرسکتے ، آپ گاڑی ،موٹر سائیکل اور سائیکل نہیں چلا سکتے اور آپ کسی ہمدرد ہاتھ کے بغیر راستہ تک تلاش نہیں کرسکتے ،آپ ذرا محسوس کیجئے ،اندھیرے کی زندگی کتنی خوفناک ،کتنی بے رنگ اور کتنی بے ذائقہ ہوتی ہے لیکن حافظ شبیر اعوان نے اپنی اس بے ذائقہ ،بے رنگ اور اندھی زندگی کوروشن بنالیا۔انہوں نے اپنے لیے کمپیوٹر ، انٹرنیٹ اور موبائل کی دنیا کھول لی، آکسفورڈ میں آنکھ کھولنے والے اسٹیفن ہاکنگ اور وادی سون سیکسر میں اندھی زندگی کے ساتھ پیدا ہونے والے حافظ محمد شبیر اعوان میں بڑا فرق ہے، وہ ہمدرد لوگوں کے ہمدرد سسٹم میں پیدا ہوا تھا جب کہ حافظ صاحب نے سنگ دل لوگوں کے بے مہر نظام میں جنم لیا اور ہم جب تک سسٹم کے اس فرق کو سامنے رکھ کرنہیں دیکھیں گے ہمیں اس وقت تک حافظ صاحب کی محنت ،ہمت اور جرأت کی قدر نہیں ہوگی ، حافظ صاحب ا س ملک بہادر ترین انسان ہیں، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف دونوں درد دل رکھتے ہیں ، میری ان سے درخواست ہے کہ یہ حافظ صاحب کو بلائیں اور پوری کابینہ سے انہیں سیلوٹ کرائیں ، انہیں ہارورڈ ،کیبرج یا آکسفورڈ بھجوائیں اور جب یہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے واپس آئیں تو انہیں پاکستان کا سفیر بنادیں تاکہ یہ دنیا کو بتائیں اصل پاکستا اور اصلی پاکستان کون ہیں۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/o-muslims,-salute!-!/d/1867