ایمن ریاض ، نیو ایج اسلام
(انگریزی سے ترجمہ۔مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام )
ہر انسان منفرد ہے ؛ ہر شخص
کچھ اپنی خوبیاں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ چھ فٹ لمبے ہو جاتے ہیں جب کہ کچھ لوگ کم از کم
پانچ فٹ ہونے کی خواہش رکھتے ہیں ؛ کچھ لوگ گورے ہوتے ہیں اور کچھ سانولے؛ کچھ لوگ
دس سال کی عمر میں ہی سن بلوغت کو پہونچ جاتے
ہیں جب کہ کچھ لوگ تیرہ یا چودہ سال کی عمر میں بالغ ہوتے ہیں ۔ ہماری جسمانی خصوصیات پوری طرح ہمارے جین، اوراس ماحول پر منحصر ہے جس
میں ہماری پرورش وپرداخت ہوتی ہے ۔
جہاں کی آب و
ہوا گرم ہے ، وہاں لوگ جلدی بالغ ہوتے ہیں اور جلدی شادی کرتے ہیں ۔ ہر شخص کو یہ سمجھنے
کی ضرورت ہے کہ 1400 سو سال پہلے کا زمانہ
آج کے دور سے بالکل مختلف تھا ۔ اب وقت اور انسان دونوں بدل چکے ہیں۔یہ اس وقت کی نو جوان لڑکیوں سے شادی کرنے سے زیاد ہ عام تھا
، در اصل انہیں نوجوان لڑکی نہیں بلکہ نوجوان عورت سمجھا جاتا تھا ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یوروپ ، ایشیاءاور افریقہ میں لڑکیوں کی شادی دس سے چودہ سال کی عمر میں کی جاتی تھی ، در اصل
صرف دو صدی پہلے امریکہ میں بھی لڑکیوں کی
شادی دس سال کی عمر میں کی جاتی تھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ نے پیغمبر
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح چھ سال کی
عمر میں کی لیکن نکاح دس سال کی عمر میں منعقد کی گئی ۔ جب ایک لڑکی بلوغت کے مرحلے سے گذرتی ہے تو اسلام میں اسے ایک
عورت ، اور شادی کے قابل سمجھا جاتا ہے ۔غالباً
حضرت عائشہ صدیقہ آٹھ سال کی عمر میں سن بلوغت کو پہونچی۔
حیض سے پہلے کی علامت تبدیلیوں کا ایک ایسا مجموعہ جسے ایام شروع ہونے سے پہلے کوئی بھی لڑکی دیکھ سکتی ہے اور محسوس کر سکتی ہے
۔ایام حیض شروع ونے سے پہلے لڑکیوں کو سر درد ، چکر یا پیٹ میں بیماری محسوس ہو سکتی
ہے ۔ انہیں زیادہ رونے اور کچھ اداسی کا احساس ہو سکتا ہے اور وہ ہر چیز کے متعلق زیادہ
جذباتی ہو سکتی ہیں ۔ PMS لڑکیوں کےپانی میں رہنے کی وجہ بن سکتا ہے ۔ پانی
میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایام حیض کے دوران
اور اس سے پہلے جسم سےزیادہ رطوبت نکلتی ہے ۔
صحیح بخاری Volume 5, Book 58,
Number 234 میں ہے ۔
حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں:
جب میری عمر چھ سال تھی تو
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے منگنی کی ۔ہم مدینہ گئے اور ہم نے بنی الحارث
بن خزرج کے گھر میں قیام ۔اس کے بعد میں بیمار پڑ گئی اور میرے بال جھڑ گئے دوبارہ
میرے بال اگنے پر میں جب اپنی سہیلیوں کے ساتھ
کھیل رہی تھی تو میری ماں نے مجھے پکارا میں یہ جانے بغیر کہ
وہ میرے لئے کیا کرنا چاہتی ہیں میں ان کے
ساتھ چلی گئی ۔انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے
گھر کے دروازے پر کھڑا کر دیا ۔اس وقت میں بے دم تھی۔ جب مجھے کچھ افاقہ ہوا ،انہوں نے کچھ پانی لیا اور میرے چہرے اور سر پر
اسے مل دیا ۔ پھر اس کے بعد وہ مجھے گھر میں لے گئیں ۔ میں نے اس گھر میں انصاری عورتوں کو دیکھا جنہوں نے مجھے مبارک بادیاں دیں ۔اس کے بعد
انہوں نے مجھے ان کے حوالے کر دیا اور انہوں نے مجھے( شادی کے لئے )تیار کیا ۔ غیر
متوقع طور پر دوپہر سے پہلے ،اللہ کے نبی میرے پاس آئے اور میری ماں نے مجھے ان کے
حوالے کر دیا ، اور اس وقت میری عمر نو سال
تھی ۔’’
لیکن ، تاریخی انکشافات ہمیں یہ
بتاتے ہیں کہ جب حضرت عائشہ پیغمبر اسلام کے گھر میں زوجہ کی حیثیت سے آئیں تو ان کی
عمر تقریباً انیس سال تھی اور جو حدیث اوپر
ذکر کی گئی وہ وہ مشکوک ہے اس لئے کہ وہ قرآن اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات کے خلاف
ہیں ۔
تاریخ کی کتاب ابن جزیر الطبری
کے حصہ چار ، صفہ نمبر پچاس میں ہے کہ ایام جاہلیت میں حضرت ابو بکر نے دو عورتوں سے
شادی کی تھی ، پہلی بیوی فتیلہ تھی جو عبد العزاء کی بیٹی تھیں اور دوسری ام رومان
تھی جن سے عبدالرحمٰن اور عائشہ کی پیدائش ہوئی تھی ۔ حضرت ابو بکر کی تمام اولاد کی
پیدائش زمانہ جاہلیت میں ہوئی تھی ۔
عبدالرحمٰن نے بدر میں مسلمانو
ں کے خلاف جنگ لڑی تھی ان کی عمر اکیس یا بایئس سال تھی اور وہ عائشہ سے بڑے تھے لیکن
عمر میں ان دونوں کے درمیان تین سے چار سال سے زیادہ کا فرق نہیں
تھا ۔
شیخ وحید الدین اپنی ایک مشہور کتاب ‘ احمل فی اسماءالرجاء’(Ahmal
fi Asma al-Rajja’)
میں لکھتے ہیں :
‘‘نکاح کے انعقاد کے وقت سیدہ عائشہ کہ عمر 18-19 سال سے کم نہیں تھی ’’
اسلام میں نکاح سے پہلے تمام شرائط قبول کرنا ضروری ہے ۔ اسلام
میں شادی دو ایسے افراد کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہے جو اپنی ذمہ داری اور اپنے
فرائض کو سمجھتے ہوں ۔ایک بچہ، شادی کی الجھنوں
اور بچوں کی پرورش کی پریشانیوں سے آشنا نہیں ہوتا ہے ۔شادی کی تمام تفصلات کا جاننا
دونوں فریقین کے لئے ضروری ہے اور چھ یا نو سال کی عمر میں اس قدر حکمت و دانائی کا
حاصل ہونا نا ممکن کہ وہ اس قسم کے پختہ فیصلے لے سکے ۔
آنے والی حدیث اسے پوری وضاحت کے ساتھ ثابت کر دے گی کہ اسلام
بچوں کی شادی کی اجازت نہیں دیتا ہے :
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ
‘ائے نو جوانوں ! تم میں سے جو بھی شادی کے لائق ہے اسے شادی کر لینی چاہئے ، اور جو
شادی کرنے کے لائق نہیں ہے اسے یہ صلاح دی جاتی ہے کہ وہ روزے رکھے اس لئے کہ روزے
رکھنے سے جنسی طاقت میں کمی آتی ہے’’ (ترجمہ صحیح بخاری Volume
7, BOOK 62: Wedlock, (Nikah), Number 3)
یہاں نو جوانوں کے لئے ایک
عربی لفظ (يا معشر الشباب ) کا استعمال کیا
گیا ہے جس کا مطلب نو جوان مرد اور نو جوان عورت ہے ۔
صرف نوجوان ہی شادی کر سکتے ہیں ،اگر وہ نفسیاتی ، سماجی ، جذباتی اور خاص کر
جسمانی طور پر تیار ہوں ۔
ابھی جلد ہی ،اتغا ‘Atgaa’ (عمر دس سال) ، اور
ریمیا ‘Reemya’ (عمر آٹھ سال) کی ایک ساٹھ سالہ آدمی سے شادی کی خبر چونکانے والی
ہے ۔ ان کا یہ عمل نہ صرف یہ کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ یہ انسانی وقار کے
بھی خلاف ہے۔
URL:for
English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/child-marriage-allowed-quran/d/9652
URL: