New Age Islam
Tue Feb 11 2025, 01:34 AM

Urdu Section ( 25 Dec 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Miracles in the Quran قرآن مقد س میں معجزات

ایمن ریاض، نیو ایج اسلام

12 نومبر2012

(انگریزی سے ترجمہ ، مصباح الہدیٰ ۔ نیو ایج اسلام )

ہم عنقریب ان کو اطراف (عالم) میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ (قرآن) حق ہے۔ کیا تم کو یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے خبردار ہے(41:53)

قرآن مقدس ایک ایسی آخری  آسمانی کتاب ہے جو آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی  ۔ کسی بھی کتاب کے بارے میں یہ دعویٰ کرنے کے لئے کہ یہ خدا کی جانب سے  ایک الہامی کتاب ہے، اسے  زمانے  کی کسوٹی پر کھرا اترنا  چاہئے ۔ گزشتہ زمانہ معجزات کا زمانہ تھا ؛قرآن معجزات کا معجزہ ہے ۔ اس کے بعدزبان و ادب کا زمانہ آیا ،مسلم اور غیر مسلم دونوں کا یہ کہان ہے کہ قرآن روئے زمیں پر اس زمانے کی  سب سے عمدہ کتاب ہے  ۔ اور آج  کا  دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے ۔ آئے دیکھتے ہیں کے کیا قرآن  کو حقیقتاً ایک الہامی کتاب سمجھا جاسکتا ہے۔

موضوع  میں غور و خوض کرنے سے پہلے ، میں قارئین کو یاد دلا دوں کے  قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں ہے ، یہ نشانیوں کی ایک کتاب ہے ۔لہٰذا  سائنس کے  تعلق سے قرآن کی آیتوں کو پڑھتے اور سمجھتے ہوئے کوئی سائنسداں نہیں بن سکتا ۔

علم ہئیت  کے باب میں :

ماہر فلکیا ت   اس بات  کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ دنیا کس  طرح معرض وجود میں آئی ۔ وہ اسے (Big Bang) ایک بڑا دھماکہ کا نام دیتے ہیں ۔سب سے پہلے ستاروں کا گچھا تھا ، ایک بڑے دھماکے کے ساتھ ہی وہ پھیل گیا جس کی وجہ سے  کہکشاؤں اور ستاروں کا  وجود  ہوا  ۔  قرآن کہتا ہے :

کیا کافروں نے نہیں دیکھا ؟کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کردیا۔(21:30)

اب یہ حقیقت بالکل عیاں ہو چکی ہے کہ دنیا وسیع ہو رہی ہے ؛ ایڈون ہبل (Edvin Hubbel) نے اس کی دریافت کی ۔ قرآن کہتا ہے :

اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا اور ہم کو سب مقدور ہے(51:47)

جلد ہی کچھ دہائیوں پہلے یہ مانا جا تا تھا کہ سورج ساکت و جامد ہے ، لیکن سائنس کی تازہ دریافت کے مطابق ہمیں یہ پتہ چلا ہے کہ سورج کو  ایک چکر پورا کرنے میں تقریباً 25 دن لگتے ہیں ۔

‘‘اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو بنایا۔ (یہ) سب (یعنی سورج اور چاند اور ستارے) آسمان میں (اس طرح چلتے ہیں گویا) تیر رہے ہیں(21:33)

پانی کی گردش کے باب میں :

‘‘آسمان کی قسم جو مینہ برساتا ہے’’ ( اس کا مطلب بارش ہے ،  اللہ نے خاص بارش کا ذکر نہیں کیا ، اس لئے کہ بارش کے  لوٹنے کے  علاوہ  ٹیلی مواصلات،تیلی ویژن  اور ریڈیو  کی لہریں  بھی  لوٹتی ہیں ’’(86:11)

‘‘کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی بادلوں کو چلاتا ہے، اور ان کو آپس میں ملا دیتا ہے، پھر ان کو تہ بہ تہ کردیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ بادل میں سے مینہ نکل (کر برس) رہا ہے اور آسمان میں جو (اولوں کے) پہاڑ ہیں، ان سے اولے نازل کرتا ہے تو جس پر چاہتا ہے اس کو برسا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ہٹا دیتا ہے۔ اور بادل میں جو بجلی ہوتی ہے اس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کرکے بینائی کو اُچکے لئے جاتی ہے۔’’(24:43)

علم الارضیات کے با ب  میں:

 علم الارضیا ت کے ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ زمین کا حلقہ تقریبا  ً 3750 میل ہے ۔زمین کے سطحی حصے کی پرت نہایت ہی باریک ہے ۔اور اس کے سطحی حصے میں درار پڑ نے  کے امکان زیادہ ہیں ۔اور ایسا اس کا پرت والا ہونے کی وجہ سے ہے ،جو پہاڑوں کی وسعت کو جنم دیتا ہے ، جس کی وجہ سے  زمیں کو پائیداری ملتی ہے ۔ سورۃ النبا کی  آیت 6 اور 7 میں اللہ نے فرمایا کہ ‘‘ہم نے  زمین  کو وسعت عطا کی اور پہاڑ کو کھمبے کی مانند پیدا کیا ’’۔

قرآن میں اللہ نے   سورۃ الغاشعہ کی آیت 19 ، اور   سورۃ الغاشعہ کی آیت  29 میں فرمایا ہے ‘‘ میں نے زمین پر پہاڑوں کو ثابت قدم اور مستحکم بنایا ’’۔

اور علم الارضیات کے ماہرین اب یہ کہتے ہیں کہ پہاڑ زمین کو استحکام بخشتے ہیں ۔

قرآن سورۃ الانبیا ء آیت 31 ، سورۃلقمان  آیت 10،اور سورة النحل آیت 15 میں فرماتا ہے :

‘‘اور ہم نے زمین پر پہاڑ (بنا کر) رکھ دیئے کہ تم کو لے کر کہیں جھک نہ جائے’’۔

علم بحریات کے باب میں :

قرآن مقدس نے سورة الفرقان کی آیت ۵۳ میں فرمایا ‘‘اور وہ اللہ ہی  ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا دیا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری چھاتی جلانے والا۔ اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ بنادی’’۔

سورة الرحمٰن کی آیت  ۱۹ اور ۲۰  میں قرآ ن مقدس ارشاد فرماتا ہے :

‘‘اسی نے دو دریا رواں کئے جو آپس میں ملتے ہیں۔ دونوں میں ایک آڑ ہے کہ (اس سے) تجاوز نہیں کرسکتے’’۔

جب بھی کوئی ایک خاص قسم کا پانی کسی دوسرے قسم کے  پانی کے ساتھ بہتا ہے ، تو وہ  اپنی  ماہیت کھو دیتا ہے ، اور اس میں ہی جا ملتا ہے جس کے ساتھ وہ بہہ رہا ہے ۔قرآن نے جسے ‘‘برزخ ’’ نظر نہ آنے والی رکاوٹ کہا ہے ، وہ  ملنے والا ایک جھکا ہوا  مقام ہے ۔

علم الجنین کےباب میں :

قرآن مقدس  پیدائش کے  مرحلہ کو اخروٹ کے چھلکے کی مثال سے سمجھاتا ہے :

‘‘اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے۔ پھر اس کو ایک مضبوط (اور محفوظ) جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔ پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا۔ تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے۔ (سورة المؤمنون، آیت 12 تا 14 )

‘‘ہم نے تم کو (پہلی بار بھی تو) پیدا کیا ہے تو تم (دوبارہ اُٹھنے کو) کیوں سچ نہیں سمجھتے؟۔ دیکھو تو کہ جس (نطفے) کو تم (عورتوں کے رحم میں) ڈالتے ہو۔ کیا تم اس (سے انسان) کو بناتے ہو یا ہم بناتے ہیں؟’’۔( سورة الواقعۃ ، آیت 57 تا 59 )

URL English article: https://newageislam.com/spiritual-meditations/miracles-quran/d/9283

URL: https://newageislam.com/urdu-section/miracles-quran-/d/9794

Loading..

Loading..