ایمن ریاض،نیو ایج اسلام
انگریزی سے ترجمہ،مصباح الہدیٰ۔نیو
ایج اسلام
جنوب مغرب لندن میں ایک ووڈا فون کی کمپنی میں تقرری کے کچھ گھنٹوں
کے بعد ہی شاہد سلیم کو کمرے سے باہر کر دیا گیا اور اس دوکان کے مینجر نے کہا کہ اسے
غصہ آ رہا تھا ۔صرف اس لئے نہیں کہ وہ ایک مسلم تھا ،تب اسے پہلی جگہ ہائر نہیں کیا
گیا ہو تا ،بلکہ اس لئے کہ وہ ایک داڑھی والا مسلمان ہے ۔
اکیس سالہ سلیم کو ‘‘Islamophobia’’در حقیقت ‘‘beardophobia’’ سے جھڑپ کا جھٹکا لگا۔”ہر
وقت [دوکان کا مینجر ]مجھ سے با ت کرتا تھا اس نے سر عام ووڈا فون کے ایک عملہ کے سامنے عاجزی اور انکساری
سے کہا ،جس کی وجہ سے میری پوری طرح بے عزتی ہوئی اور میں ذہنی طور سے پریشان ہو گیا
جو میری پریشانی کا سبب تھا’’، اسکے بعد سلیم نے ایک رپوٹر سے کہا کہ ‘‘وہ میرے کپڑوں
ے کے تعلق سے کبھی کسی چیز پر کو ئی دھیان نہیں دیتا تھا ؛وہ صرف یہی کہتا تھا کہ جب
اسکی داڑھی ہو تو وہ اس کے ساتھ کا م کرنا
نہیں پسند کرے گا۔
یقیناً سلیم نہ ہی پہلا مسلم ہے اور نہ ہی آ خری ،جو داڑھی کی
وجہ سے تفریق اور امتیاز کا سامنا کر رہا ہےاور ایسا عالمی پیمانے پر مغرب ۔شمال امریکہ
،یوروپ اور آسٹریلیا میں ہو تا ،اور مشرق کے
غیر مسلم علاقوں میں سے کسی کا ذکر کرنے کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں۔سب سے مشہور واقعہ،
سابق کرکیٹر Dean Jones نے چند سالوں پہلے ایک کر کٹ میچ کے دوران Hashim
Amla کی
طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘ایک دہشت گرد نے کیچ لے لیا ہے ’’
یہ کھلے عام نہیں لیکن واضح
طور پر ہو تا ہے ۔سلیم نے کم از کم اتنا ضرور کہا کہ وہ غصہ کیوں ہو رہا تھا ؛کتنے
لوگ اپنی نوکری گنواں بیٹھتے ہیں یا ان کی ترقی رک جا تی ہے اور ان کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہو تا کہ ان کی داڑھی ان کے راستے میں
حائل ہو گئی ۔
داڑھی والے مسلمانوں کے پاس
ایسا کیا ہے جس سے غیر مسلموں کو تکلیف پہونچتی ہے سب سے زیادہ تکلیف انہیں کب پہونچتی
ہے ؟ماہر نفسیات اسے ‘‘conditioning’’ کہتے ہیں ۔لو گ ان کے تجربا ت سے سیکھتے ہیں اور اور اسی پر مبنی کردار پیش کرتے ہیں ۔اور پچھلی کچھ دہائیوں
میں ‘‘داڑھی والے مسلمانوں’’ نے غیر مسلموں کو بد تمیزی کا سبق سکھایا ہے ۔
درحقیقت تمام دہشت گردانہ
حملے خواہ وہ New York, Bali, Madrid یا Londonمیں
ہو ں داڑھی والے مسلمانوں نے ہی انجام دئے ۔اسامہ بن لادین سے لیکر عمربکری محمد ،تک
تمام متشدد اسلامیوں کے چہرے لمبی داڑھیوں سے بھرے ہوئے تھے ۔اسی نے غیر مسلموں کے
لئے داڑھی کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑنے کے‘حالات
’پیدا کئے ،اگر چہ تمام مسلمان غلط نہیں ہیں ۔
یہ ‘beardophobia’بھی اسی طرح غیر معقول
ہے جس طرح خود ‘Islamophobia’لغو ہے ۔
شاہد سلیم ہاشم آملہ سے سے
زیادہ دہشت پسندنہیں ہے ،یا اس معاملے میں دوسرے بہت سے وہ لوگ جو داڑھیوں کو بڑھاتے
ہیں۔ایسے لوگوں کی اقلیت دہشت گردی میں ملوث
ہے ،اور وہ خلاف قیاس یہ سوچتے ہیں کہ داڑھی والے تمام مسلم دہشت گرد ہیں ۔
بد قسمتی سے ہمارے دماغ اتنے
با شعور نہیں ہیں جتنا ہم ان کے با رے میں ہو نا پسند کرتے ہیں۔مسلم ہو نے کی حیثیت
سے یہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہو نا چاہئے۔اسی لئے ہمیں خود نا معقول وجوہات کی بنا پر
غیر مسلموں کے خلاف ،اور مختلف مسلم جماعتوں سے بھی امتیاز اور تفریق پیدا نہیں کرنی
چاہئے ۔اس معاملے کی وجہ سے ہر مغربی یا ہر غیر مسلم اسلامو فوبی نہیں ہے جیسا کہ ابھی
بھی بہت سارے مسلم تمام غیر مسلم ممالک پر
‘‘مسلم مخالف ’’ہو نے کا الزام لگا تے ہیں ۔
امت میں داخلی سطح پر ،سنیوں
کا شیعوں کے خلاف اور بر عکس،دیو بندیوں کا بریلویوں کے خلاف اور بر عکس ،عربیوں کا
فارسیوں اور خوردوں کے خلاف اور بر عکس ،بھید بھاؤاور تفریق کا تسلسل ان پر منحصرہوتا
ہے جو اکثریت میں ہے یا اقتدار میں ہے ۔ان میں سے اکثر تفرقہ اور بھید بھاؤ مبہم وجوہات
پر ہیں جیسا کہ داڑھی پر ہیں ۔در حقیقت بہت سا رے داڑھی والے مسلمان خود بغیر داڑھی
والے مسلما نوں کے خلاف یکساں وجہ کی بنیاد پر
بھید بھاؤ پیدا کرتے ہیں۔
Islamophobiaاور beardophobia کا شکار ہو نے کی حیثیت سے یہ یاد رکھنا ہمارے لئے
ضروری ہے کہ جس طرح اسلام اور مسلمانوں کے متعلق‘‘دہشت گردی ’’موروثی نہیں ہے اسی طرح
تمام غیر مسلموں کے متعلق ‘‘مسلم مخالف ’’ موروثی نہیں ہے (یا وہ مسلم جو ہم سے کچھ
مختلف سوچتے ہیں یا رویہ پیش کرتے ہیں )۔ بلا شبہ نہ تو اسلا مو فوبیا اور نہ ہی beardophobia کو کہیں کسی بھی طرح کی حمایت حاصل ہے ۔
شاہد سلیم کا واقعہ ستمبر
میں پیش آیا ،چونکہ ووڈا فون نے اس کی تفتیش کی اور سلیم سے معذرت خواہی کی ،جب کہ
عوام میں یہ بیان بھی دیا کہ وہ غصہ نہیں ہو ا تھا بلکہ خود سلیم نے ہی ‘‘اس عہدے کو
قبول نہیں کیا جس کی اسے پیش کش کی گئی تھی’’۔ اگر چہ یہ سچ ہے یا نہیں ،ووڈا فون کا
اس کی تفتیش کر نا اس با ت کا اظہار ہے کہ اس نے کسی کے ذریعہ داڑھی پر کئے گئے تعصب
پر دھیان دیا ،ٹھیک اسی طرح Dean Jonesپر
بھی آئی سی سی کی جا نب سے با ضابطہ طور پر تبصرہ کرنے پر پابندی لگا دی گئی ،جب کہ
ہاشم آملہ ،اس کی ‘‘دہشت پسندی ’’اب وہ ساؤتھ افریقہ ٹیم کا کپتان بن گیا ہے ۔
جو بھی ہو ،داڑھی منڈوائی جا ئے یا نہیں ،ایک الجھن بہت سے مسلمانوں کے دلوں
میں رہ گئی ہے، ہزاروں طرح کے بھید بھاؤصرف اس لئے ہیں کہ مٹھی بھر لوگ بہک گئے ہیں
۔جو بھی ہو اس کا حل یہ ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ اسلا م امن اور اتحاد و اتفاق کا
مذہب ہے ، بندوق اور بموں کا مذہب نہیں ۔لیکن اس سے پہلے اس طرح کی“conditioning”غیر مسلموں کے درمیان
پیدا ہو سکتی ہے ، یہ سبق ہم مسلمانوں کو خود ہی سمجھنا ہوگا ۔
URL
FOR ENGLISH ARTICLE: http://newageislam.com/muslims-and-islamophobia/aiman-reyaz,-new-age-islam/to-shave-or-not-to-shave/d/6977