انصار عباسی
‘‘کیا پاکستان اور پاکستان کے لوگ ابھی زندہ اور آزاد ہیں...........؟
جبکہ اپنی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں سےمارکر انکی نعشوں اور عزتوں کا سودا کرنے کے بعد بھی.........
قرآن کے اوراق کوجلانے کے بعد بھی...........
اپنی زندہ بہن کو ڈالرز کے عوض بیچنے کے بعد بھی...........
اور اب اپنے ہی ملک میں گوری چمڑی کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے بعد بھی...........
کیا ہم زندہ ہیں..........؟
کہیں ہم اسپین کی طرح شہر کی چابیاں دشمن کو دے کر رونے والوں کو اپنا لیڈر تو نہیں مان چکے ..............؟
مجھ کو تو یہی لگتا ہے کہ ہم ایک اور سقوط کی تیاری کرچکے ہیں...........
ہم اپنی عزت کا سودا کرچکے ہیں...........
کاش ہم زندہ ہوتے ..........
کیافائدہ ایٹمی پاور ہونے کا جب ہم اپنے ہی ملک میں گوری چمڑی کے ہاتھوں ذلیل اور رسوا ہوں اور کوئی ہمیں دلاسا بھی نہ دے..........
ہمارے اپنے ایم این اے اور ایم پی اے تو چلو ہم کو ذلیل کرلیں یہ گورے تو نہ کریں......وہ بھی ہمارے ہی ملک میں آکر ہماری سڑکوں پر کھڑے ہوکر ................
کاش ہم زندہ ہوتے.........’’
مندرجہ بالا سطور مجھے ایک ای میل کے ذریعہ کویت میں مقیم ایک پاکستانی یوسف جمال کی طرف سے 8ستمبر کو موصول ہوئیں ۔کاش کیری لوگربل پر خوشیاں منانے والے حکمران خصوصاً صدر آصف علی زرداری صاحب وزیر داخلہ رحمٰن ملک اور امریکہ میں متعین ‘‘ہمارے ’’جذباتی سفیر حسین حقانی صاحب وہ سب کچھ دیکھ سکیں جو ایک عام پاکستانی دیکھ رہا ہے۔ کاش ہمارے ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنما اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اپنی خاموشی توڑیں ۔ہماری حالت تو اسپین سے بھی گئی گزری ہے۔ یہاں تو ہم خود کیری لوگر بل سے منسلک سنگین شرائط کے باوجود امریکی امداد کے حصو ل کیلئے مادر وطن کی چابیاں امریکا کو دینے پر بضد ہیں۔ یہاں تو ایک طرف خوشی منانے والے ہیں اور دوسری طرف مکمل خاموشی ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما امریکا کی ناراضی کسی طرح مول لینا نہیں چاہتے کیونکہ اس سے یا تو ان کی حکمرانی جاسکتی ہے یا حکمرانی کےحصو ل میں رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ جس طرح موجودہ حکمرانوں کی کیری لوگر بل پر خوشی خطرناک ہے اسی طرح میاں صاحب کی خاموشی بھی قابل معافی نہیں ۔ اس پاکستان دشمن بل کی امریکی کانگریس اور سینیٹ پہلے ہی منظوری دے چکی ہیں اور اب کسی بھی وقت صدر اوباما اس بل پر دستخط کر کے اس کو قانون کی شکل دے دیں گے تاکہ اس کے مطابق پاکستان کو امداددی جاسکے۔ابھی حتمی منظوری کا انتظار ہے اور ان ڈالروں کا بھی جو پاکستان کی سالمیت کے اس سودے کے جواب میں ہمیں ملیں گے کہ امریکی انتظامیہ اور اس کے پاکستان میں موجود نمائندوں نے قبائلی علاقوں کی طرح کوئٹہ اور بلوچستان کے بارے میں بے سروپاپروپیگنڈہ کرنا شروع کردیا ہے اور وہاں بھی ڈرون حملوں کی باتیں شروع ہوچکی ہیں۔
امریکا کو اچانک یہ اطاعات ملی ہیں کہ طالبان اور القاعدہ کی اعلیٰ قیادت کوئٹہ میں موجود ہے۔ پاکستان میں امریکہ کی سفیراین پٹیرسن اور دوسرے امریکی اہلکار آجکل مقامی اور بین الاقو امی میڈیا میں یہ پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں کہ اسامہ بن لادن اور ملا عمر کوئٹہ میں ہیں اور ان کے پاس ‘‘حقیقت’’ کے ثبوت موجود ہیں۔ حکومت پاکستان کے بارہا انکار کے باوجود امریکی اپنی جگہ قائم ہیں اور اپنا وہی راگ الاپنے میں مشغول ہیں ۔ حالات تیزی سے اس سمت بڑھ رہے ہیں جہاں ہم امریکی ڈرون حملوں کو کوئٹہ اور بلوچستان کو نشانہ بناتےدیکھ سکتے ہیں ۔امید ہی کی جاسکتی ہے کہ امریکا کی طرف سے ایسا کرنا کیری لوگر بل سے منسلک خاموشی (unwritten) شرائط سے نہیں ہوگا ۔ ماضی کے تجربہ کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو شروع شروع میں ہماری طرف سے ہنگامہ ہوگا احتجاج ہوں گے اور غم وغصہ کا اظہار ہوگا مگر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد قبائلی علاقوں کی طرح کوئٹہ بلوچستان میں بھی ڈرون حملے ہمارے لئے ایک معمول بن کر رہ جائیں گے۔ دوسروں کو چھوڑیں ہم اخباروں میں لکھنے والے بھی ان ڈرون حملوں کےحق میں توجہیات پیش کریں گے اور ان حملوں کے نتیجے میں مرنے والوں کو اس طرح شدت پسند اور دہشت گرد لکھیں گے جس طرح ہم آج کل قبائلی علاقوں کے متعلق لکھ رہے ہیں۔
افسوس ہم اس حد تک بے حس ہوچکے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک کی امریکا کے ہاتھوں روز روز تار تار ہوتی ہوئی خود مختاری کا کوئی احساس نہیں بلکہ ہم خو شی مناتے ہیں کہ آج اتنے ‘‘دہشت گرد’’ مارے گئے ۔احتجاج کرنے کی جن کی ذمہ داری ہے تو وہ چاہے صدر آصف علی زرداری صاحب ہوں یا میاں نواز شریف صاحب عام امریکی اہلکاروں کو بھی اس خوش دلی اور جو ش جذبہ سےملتے ہیں جیسا کہ کچھ ہوا ہی نہیں ۔ہمارے حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں میں تو اتنی ہمت بھی نہیں کہ امریکا کو یہ کہہ سکیں کہ کوئٹہ شوریٰ کے متعلق امریکی اطلاعات کا ہم کس طرح اعتبار کریں جب ہمارے سامنے صرف چند سال قبل ہی امریکا نے عراق پر حملہ کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMDs) کی موجودگی کا بہانہ بنایا لیکن پورے عراق میں کوئی ایسا ہتھیار آج تک نہیں مل سکا۔ البتہ لاکھوں معصوم مسلمانوں کا وہاں اب تک خون بہایا جاچکا ہے اور خون اور آگ کا یہ کھیل آج بھی وہاں جاری ہے ۔ آگ اور خون کا یہ کھیل پاکستان میں بھی کھیلا اور پھیلا یا جارہاہے اور اس کیلئے ہر روزنئے نئے بہانے تلاش کئے جارہےہیں ۔ عام پاکستانی اور عام سیاستداں امریکی سازش کو واضح انداز میں دیکھ رہے ہیں مگر جن کو یہ سب کچھ دیکھنا چاہئے وہ اپنے ذاتی نفع و نقصان کی خاطر یہ سب کچھ دیکھنے سے عاری ہوچکے ہیں ۔انہیں جو سننا چاہئے وہ ایسی قوت گویائی سےمحروم ہوچکے ہیں ۔ بولنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔جیسا کہ یوسف جمال صاحب نےکہا کاش ہم آزاد ہوتے .......کاش ہم زندہ ہوتے.......اگر ایسا ہوتا تو ہمیں یہ سمجھنے میں کیامشکل ہوتی کہ قبائلی علاقوں کے بعد کوئٹہ بلوچستان کے بعد پنجاب اور سندھ بھی امریکی جارحیت کا نشانہ بن سکتے ہیں۔اسلام آباد میں بھی ڈرون حملے کرنے کا جواز پیدا ہوسکتا ہے اور یہاں بھی ان حملوں کے نتیجے میں مرنے والوں کوشدت پسند اور دہشت گرد گردانا جائے گا اور کوئی دکھ کرنے والا نہ ہوگا۔ دنیا اسی کی بات کا یقین کرے گی جو جارح کہہ اور کررہا ہوگا۔ خون مسلمانوں کا مزید بہتا رہے گا اور ڈالرز کی بھیک ہمیں مزید اندھا، گونگا اور بہرہ کرتی رہے گی تا وقت کہ ہم ذلیل وخوار ہو کر مٹ جائیں گے۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/i-wish-were-alive-/d/1919