سید امیر علی
(آخری قسط 40)
24 جون 2021
گیارھواں باب ، اسلام کی
صوفیانہ اور مثالی روح کا بقیہ
امام اشعری نے اسرار وجود
کی چھان بین کو ممنوع قرار دیا تھا۔ اگرچہ امام غزالی بھی فلاسفہ اور فلسفہ،عقلیت
اور اس کے مقاصد کو اسی تحکمانہ انداز سے راندہ درگاہ گردانتے ہیں،پھر بھی وہ ان
کے مقدمے کی سماعت کرنے کے بعد ایسا کرتے ہیں۔ وہ ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے
ہیں اور اس جائزے کی روشنی میں انہیں ناقص پاتے ہیں یعنی اس لحاظ سے ناقص کہ امام
غزالیؒ کے نزدیک نوع انسانی کی جو منزل مقصود ہونی چاہئے ان میں اسے حاصل کرنے کی
صلاحیت نہیں لیکن اس کے باوجود وہ فلاسفہ او رعلمائے معقولات کو مسلمانوں کا ہم
قبلہ ہونے کی حیثیت سے دائرہ اسلام میں داخل تسلیم کرتے ہیں۔ مقام تعجّب ہے کہ بعد
کی قرنوں کے اکابر صوفیہ شاذوباور امام غزالی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جلال الدین رومی
عطّار او رسنائی کو تو خراج عقیدت پیش کرتاہے۔لیکن غزالیؒ کے فلسفہ اوررائیت کے
بار احسان کا نام بھی نہیں لیتا۔کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ امام غزالیؒ نے جذباتی
اسلام میں جو حرکت پیدا کی اس کی قوت زندگی وموت کی اس جنگ میں زائل ہوگئی جو
مسلمانوں کو دوصدیوں تک صلیبی جنگجوؤں کے ساتھ لڑنی پڑی؟ تباہی بغداد کے بعد جو
تاریخی مدتوں تک عالم اسلام پر چھائی رہی وہ اوّلاً عیسائیوں کے مغربی ایشیاء پر
حملہ آور ہونے کا نتیجہ تھی اور ثانیا منگولوں کے اس بے پناہ سیلاب کاجس نے وسطی
ایشیاء کو غرقاب کرکے تہذیب وتمدّن کا نام و نشان تک مٹا دیا۔بعد ازقیاس نہیں کہ
امام غزالیؒ وفات کے فوراً بعد گلشن اسلام پر جو خزاں آئی اس نے امام غزالیؒ کے
قول و عمل کی مثال کو پھلنے پھولنے نہ دیا۔ پھر بھی تقربّ الہٰی پر ایمان،اپنے
تمام حوصلوں اور ولولوں کو لیے ہوئے،ان کے صاحب تب و تاب شاگردوں کے دلوں میں زندہ
رہا، اور جہاں فلاسفہ اور علمائے معقولات عقل کے ذریعے خدا کا علم حاصل کرتے تھے
وہاں عارفین نے مشاہدہ حق کا دعویٰ کیا۔ امام غزالیؒ کے متصوفانہ فلسفے کے جذباتی
حصے کو درویشوں کے تکیوں میں پناہ ملی۔ زاویے رباط۱؎ اور خانقاہیں ۲؎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
”رباط“ سے ”مربوط“ بنا ہے۔گیارھویں صدی عیسوی میں مُرابطہ نے مراکش او رہسپانیہ
میں ایک زبردست سلطنت قائم کی۔
۲؎میننکی
(Meninski) خانقاہ کی یوں تعریف کرتاہے: (باقی حاشیہ 665پرملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاروں طرف وجود میں
آگئیں۔جہاں کہیں اللہ والے لوگوں نے جو عقل سے ماورا ء ایک باطنی بصیرت کے مدّعی
تھے، ڈیرا ڈالا وہی مرید آکر ان کے گرد جمع ہوگئے۔ ان لوگوں نے سلسلے قائم کئے او
راپنے مریدوں کو تصوف کی رموز سے آشنا کیا۔ان میں بہت سے مخلص اور راست باز تھے
اوربہت سے پاکھنڈی۔ اوّل الذّکر کی مثال اور تعلیمات کا اثر جب تک قائم رہا مفید
ثابت ہوا۔ مؤخر الذکر کا اثر ان کے منافی اسلام رجحانات کی وجہ سے مخرب اخلاق
نکلا۔
امام غزالیؒ علم کلام
پربھروسہ نہ کرتے تھے او رانہوں نے اسے خلاف عقل کہہ کر اس کی مذّمت کی لیکن وہ
علوم قطعیہ یعنی حساب،ہندسہ اور ان کے فروعات کو مضبوط دلائل پرمبنی،ناقابل تکذیب
اور شک ونزاع سے ماورا تصور کرتے ہیں۔ نیشا پور میں انہوں نے اور کتابوں کے علاوہ
”مقاصد الفلاسفہ“ او رتہافتہ الفلاسفہ“ لکھیں۔ دونوں کتابیں فلسفہ اور فلاسفہ کی
مخالفت میں ہیں اور دونوں میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ فلسفیانہ
استدلال عبث ہے او رفلسفے کی تعلیمات تسلّی بخش نہیں۔
جب ماہ محرم 500ھ میں شیخ
الجبل حسن بن صبّاح کے ایک فدائی نے امام غزالیؒ کے سرپرست اور دوست فخرالملک ۱؎ علی کو قتل کردیا تو
امام صاحب کو بہت قلق ہوا او روہ اپنے آبائی شہر طوسی میں واپس چلے گئے، جہاں
انہوں نے اپنے شاگردوں کے لیے ایک مدرسہ اور اپنے مریدوں کے لیے ایک خانقاہ بنوائی
تھی۔ یہاں وہ درس بھی دیتے رہے او روہ کتابیں بھی لکھتے رہے جنہوں نے انہیں عالم
اسلام کی ایک برگزیدہ شخصیت بنادیا ہے۔ اس صوفی عظیم کی وفات چودہ جمادی الثانی
505ھ (18 دسمبر 1111ء) میں ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 664)۔ Domus propter
Deus Extructa in Usum Sophorum aut Religiosorum Clabiviun۔ رچرڈسن (Richardson) کہتا ہے کہ وہ ایک
راہب خانہ ہے یا ایک مذہبی عمارت جو مشرقی صوفیوں کے لیے بنائی گئی۔ یہ خانقاہیں
جنوبی ہند کے ہندو متھوں سے بڑی مشابہت رکھتی ہیں،دونوں میں مُرید یا چیلے مذہبی
تعلیم کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
۱؎
فخرالملک نے سنجر کی سلطنت کا انتظام جس دانشمندی اور رعایا پروری سے کیا اس کی
بدولت لوگ اس سے اتنی محبت او راس اتنی عزت کرتے تھے کہ تاریخ نے اسے ”جمال
الشہداء“ کالقب دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے صوفیانہ میلانات کے
باوجود ان میں ایک ایسی مردانہ وار ہمت و جرأت تھی جس اثر ان کی وفات کے مدّتوں
بعد تک قائم رہا۔ چونکہ امام شافعی کے پیرو تھے اس لیے وہ امام ابوحنیفہ کے سخت
مخالف تھے، جن کی قیاسی استدلال اور تمثیلی استنباط کی حوصلہ افزائی انہیں بہت
ناپسند تھی۱؎۔اس
صوفی منش امام نے ایک تو اپنے فلسفہ توکّل سے اُمت مسلمہ کی رگوں میں خون کی گردش
سست کردی اور ان کے قوائے نشو ونما میں اضمحلال ۲؎ پیدا کردیا، لیکن دوسری
طرف اس نے مسلک اشاعرہ کو وہ بلند خیالی عطا کی جو اس میں پہلے موجود نہ تھی۔
جس مذہب میں بھی اہل
کلیسا او رارباب فقہ نے اقتدار حاصل کیا ہے اس میں تقلید کو عائد کرنے اور بدعت کو
روکنے کی خواہش نے ایک لعنت کی صورت اختیار کرلی ہے۔ اسلام اس کلُیے سے مستثنیٰ
نہیں، اگرچہ اس نے کافروں پر اتنی سختی نہیں کی جتنی اہل بدع پر کی ہے۔ کیا مجذوب
لوگ یا ایسے لوگ جو نفس کشی اور ریاضت کی افراط کے باعث ہوش وحواس کھو بیٹھے تھے
اور کیا علمائے عقلی او رمصلحین،ان سب کو اذیتیں پہنچائی گئیں۔ تصوف کی تاریخ میں
سب سے دردناک داستان منصور حلّاج کی ہے۳؎۔ فریدالدّین عطّار فردوسی کی طرح دلدادہ
اہل بیت بھی تھا اور درجہ اوّل کا صوفی بھی۔”مظہر العجائب ۴؎“ میں وہ اپنی مصیبتوں
کی سرگزشت بیان کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
امام ابوحنیفہ کے تابعین کو اسی بنا پر ”اہل الّرائے والقیاس“ کہا جاتاتھا۔
۲؎
البیرونی کا ”انڈیکا“ (Indika) کامشہور و معروف مترجم ڈاکٹر شاشو (Dr
Sachau)
کہتا ہے: ”اگر عربوں میں اشعری اور غزالیؒ پیدا ہوئے ہوتے تو عرب قوم کا ہر فرد
گلیلیو (Galilleo) اور نیوٹن (Newton) ہوتا۔“
۳؎
”تذکرۃ الاولیاء“۔
۴؎
مظہر العجائب امیرالمومین حضرت علیؓ کالقب تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بتاتا ہے کہ کیونکر وہ
اپنی جائے ولادت سے شہر بدر کیا گیا کیونکر اس کا مال و متاع ضبط کرلیا گیا اور
پھر کیونکر وہ اس کے بعد مختلف بلادوا امصار میں پھرتا رہا۔متعدد صوفیہ ایسے تھے
جنہیں سزا ئے موت دی گئی متعدد ایسے تھے موت کے بعد سزاملی،یعنی ان کی تصنیفات نذر
آتش کردی گئیں او ر تو اور امام غزالیؒ کی ”احیا ء العلوم“ کو اسی طرح نواز ا گیا
او رکہاں؟۔۔ قرطبہ میں، جو کسی زمانے میں اسلامی ثقافت وشائستگی کا مرکز رہ چکا
تھا۱؎۔لیکن
یہ ظلم وستم تصوف کو پھیلنے سے نہ روک سکا۔ ہر مقدس شخص جس کے گرد چند مرید جمع
ہوگئے ولی بن گیا۔ اولیاء کو صاحب کشف وکرامت سمجھا گیا۔اگرچہ ابتدائی ایّام کے
ممتاز ترین صوفیہ مثلاً جنید بغدادی اور باایزبدبسطامی نے جنہیں اب اولیاء اللہ کی
صف اوّل میں شمار کیا جاتاہے۔ کرشمہ نمائی اور شعبدہ بازی کو مذموم قرار دیا،پھر
بھی ”تذکرۃ الاولیاء“اور ”نفحات الاًنس“ اور اولیاء کے بے شمار ایسے اعمال بیان
کئے گئے ہیں جو عام انسانی تجربے سے باہر ہیں۔ ان خارق عادت کاموں کو کرامات کہا
جاتاہے کیونکہ وہ خدا کی طرف سے ودیعت کی ہوئی خاص قّوتوں کے ذریعے ظہور میں آئے۔
آج کل ہم غالباً انہیں نفسیاتی اثر انگیز ی پر محمول کریں گے۔ہنپٹزم (Hypnotism) اور مسمریز (Mesmerism) جنہیں ”تاثیر
الانظار“ کا نام دیا تھا اور اشراق یا ابلاغ نفسی Telepathy مدتوں سے مشرق میں
معروف ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اولیاء کے بعض کرشمے غیر شعوری ہنپٹزم کا نتیجہ تھے۔
تصوف عراق اور ایران سے
شروع ہوکر بہت جلد ہندوستان پہنچا جہاں اسے سازگار فضا میّسر آئی۔ شمالی ہندوستان
میں بھی اور دکن میں بھی بہت سے صوفیاؤ اولیاء گزرے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی ہی
میں تقدس اور اعمال حسنہ کی بدولت بڑی شہرت پائی۔ ان کے مزار آج تک مسلمانوں
کی،بلکہ ملاحظہ طلب بات ہے کہ ہندوؤں کی بھی زیارت گاہیں ہیں ۲؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
یہ علی بن یوسف تاشقین (متوفی (1143ء) کے عہد حکومت کا واقعہ ہے۔
۲؎
لُطف اللہ اپنی کتاب ”قانون اسلام“ میں (باقی حاشیہ 668 پرملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اولیاء ان مریدوں او
رعقید تمندوں کو جو ان کے قائم کئے ہوئے مدرسوں اور خانقاہوں میں جمع ہوتے تھے
اسلامی معرفت اور صوفیا نہ طریقت کی تعلیم دیتے تھے۔اپنے جانشینوں کی طرح یہ سجادہ
نشین کہلاتے تھے اور حقیقت میں روحانی معلّم تھے۔ مغرب میں روحانی معلّم کو شیخ
کہتے ہیں اور ہندوستان میں پیر یا مرشد۔پیر کی وفات پر اس کے جانشین کو یہ حق حاصل
ہوجاتاہے کہ مریدوں کو درویشی اور تصوف کا محرم اسرار بنائے۔بیعت لینے اور روحانی
علم عطا کرنے کا یہ کام ان وظائف میں سے ہے جن کی ذمہ داری سجادہ نشین پر عائد
ہوتی ہے۔ وہ اپنے مورث کے مزار کا متولّی و مہتمم او راس کے روحانی سلسلے کی ایک
کڑی ہوتا ہے۔ ہندوستان میں جو درگاہیں جا بجا دکھائی دیتی ہیں وہ مشہور ومعروف
درویشوں کے مرقد میں جو اپنی زندگی ہی میں اولیاء اللہ تسلیم کئے گئے۔ ان میں سے
بعضوں نے خانقاہیں بنائی تھیں جہاں وہ رہتے بھی تھے اور صوفیانہ عقائد کی تعلیم
بھی دیتے تھے۔بہت سے ایسے تھے جن کے پاس کوئی خانقاہ نہ تھی لیکن ان کی وفات کے
بعد ان کے مرقد زیارت گاہیں بن گئے۔ان میں زیادہ ترصوفی تھے لیکن بعض بلاشک وشبہ
میاں روشن بایزید ۱؎
کے پیرو تھے ’جو اکبر کے عہد میں گزرا او رجس نے ایک اعلٰیحدہ باطنی سلسلہ قائم
کیا جس میں سربراہ کو ایک خاص طور پر ممتاز حیثیت حاصل تھی۔یہ لوگ اپنے آپ کو
درویش یا فقیر کہتے تھے، اس مفروضے کی بناء پرکہ وہ دنیا کو ترک کرچکے تھے او ر
خدا کے ادنیٰ خادم تھے۔ ان کے پیرو انہیں شاہ کے معزّز لقب سے پکارتے تھے۔ اگر چہ
فارسی کا لفظ ”درویش“ اپنے ماخذ ومعنی کے لحاظ سے اسلامی لفظ ہے،درویش ہمیشہ سے مغربی
ایشیا میں موجود رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 667) جس کا ترجمہ ہرکلٹ (Herklot) نے کیا ہے ان اولیا
میں سے بہت سوں کے حالات بیان کرتاہے او ران رسومات داوہام کابھی ذکر کرتاہے جو
ہندی صوفیہ میں رائج تھے۔
۲؎
یہ روشن بایز ید مشہور ومعروف یایزیدبسطامی (متوفی 661ھ مطابق 75۔774ء) سے مختلف
تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبرانیوں کے عام پیشوا
جنہیں نبی کے لقب سے ملقّب کیا جاتاہے،محض آج کل کے درویشوں کا نمونہ اصلی
تھے۔یوحنّا اصطباغی جس نے ہیرڈ (Herod) کی بیوی کے حضور
گستاخی کی وجہ سے اپنی جان گنوائی،اس نے بالکل وہی کیا جو اس کے بعد سینکڑوں
درویشوں نے کیا ہے ان سب سے بادشاہوں کو اپنے محلوں او ربھرے درباروں میں ٹوکا اور
للکارا۔ہندوستان کے صاحب ولایت درویشوں میں جو لوگ سب سے مشہور ہیں ان میں ایک شاہ
نظام الدین اولیاء ہیں، جو غزنی سے آئے اور جن کا مزار دہلی کے مضافات میں ہے، جہاں
انہوں نے سالوں قیام کیا۔ کہا جاتاہے کہ ان کی وفات۱؎۔1325 ء میں ہوئی۔خواجہ
معین الدین چشتی معلوم ہوتا ہے کہ نظام الدین اولیاء سے پہلے ہندوستان آئے انہوں
نے ستانوے سال کی عمر پائی اور 663ھ (1265ء) میں اجمیر کے مقام پر داعئی اجل کو
لبّیک کہا۔ ان کا مزار سارے ہندوستان کے مسلمانوں او رہندوؤں کی زیارت گاہ ہیں ۲؎۔
ایک اور ولی برہان الدین
کا مزار وسطی ہندوستان کیشہر برہان پور میں ہے جس کا نام ان کی نسبت سے رکھاگیا۔
شاہ کبیر درویش اٹھارہویں صدی عیسوی میں فرّخ سیر کے عہد حکومت میں ہوئے۔ وہ بہار
کے شہرساسرم میں مدفون ہیں۔ان کے اخلاف ان کے مزار کے سجادہ نشین ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
علاوالدین خلجی کے عہد حکومت میں۔علاوالدین ان کا مُرید تھا۔
۲؎
خواجہ معین الدین (جنہیں عموماً ہندوستان کے ارباب تصّوف میں مولانا حضرت سلطان
المشائخ کے نام ولقب سے یاد کیا جاتاہے) ابراہیم ادہم کے سلسلے سے تعلق رکھتے
تھے۔ابراہیم ادہم کی وساطت سے ان کا سلسلہ طریقت امام حسن بصری سے ان کے ذریعے
حضرت علیؓ او ران کے ذریعے سرور کائنات رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا
ہے۔خواجہ معین الدین چشتی سلسلہ چشتیہ کے بانی ہیں۔ تین سوسال بعد اسی سلسلے کے ایک
بزرگ شیخ سلیم چشتی اکبر اعظم کے مرشد بنے او راکبر نے اپنے بیٹے اور ولی عہد
جہانگیر کا نام انہیں کی نسبت سے سلیم رکھا۔اسی طرح مولانا جلاالدین رومی جنید
بغدادی کے ذریعے اپنا سلسلہ آٹھویں امام بیت النبی حضرت موسیٰ رضا سے،او ران کے
ذریعے حضرت علیؓ اور رسول خد ا صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہلی کے پٹھان بادشاہ
علاؤالدین خلجی کے درباری شاعر امیر خسرو کو بھی صوفی اولیاء میں شمار کیا جاتا ہے۱؎۔
مغرب میں بھی اسی طرح ہر
طرف درویشوں کے حلقے قائم ہوگئے۔ ان سب سے مشہور اور غالباً سب سے زیادہ صاحب نفوذ
سلسلہ قادریہ ہے جس کے بانی سنّی ولی شیخ محی الدین عبدالقادر گیلانی تھے۲؎۔ ایک اور سلسلہ کی بناء
مولانا جلاالدین رومی نے ڈالی۔ اس سلسلے کا نام مولویہ ہے اور اس کے پیرو زُہدودرع
میں ممتاز ہیں۔ ان کے علاوہ ایک اور سلسلہ نقشبندیہ ہے جس کے ہندوستان میں ہزاروں
تابعین ہیں۔
لیکن ولایت صرف معدود سے
چند لوگوں کے حصے میں آئی ہے اور ان سے بھی کم لوگوں کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے
کہ زُہد واتقا میں بھی منہمک ہیں او رآئے دن کی زندگی کے فرائض بھی اداکریں۔عامۃ
النّاس کے لیے دنیا کو ترک کرنے اورخدا کے ذکر وفکر میں ہمہ تن محورہنے کی دعوت
دماغی جمود وتعطّل کی ترغیب ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
ملاحظہ ہو ضمیمہ سوم
۲؎
شیخ عبدالقادر گیلانی حضرت علیؓ کی اولاد میں سے تھے اور ان کی طرف بہت سی کرامات
منسوب کی جاتی ہیں۔ وہ کُردوں کے محافظ ولی ہیں اور ہندوستان کے سُنی صوفیہ ان کا
حددرجہ احترام کرتے ہیں۔انہیں عموماً غوث اعظم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ Les
Confreries MM Dupont et Religieuses Musulmanes Cappolani, vol.i,p.393 کے مصنفین کے قول کے
مطابق سلسلسہ قادریہ مشرق میں بہت وسیع اثر ونفوذ رکھتا ہے او راس کے پیرو جاد ا
اور چین میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے زاویے مکّہ او رمدینہ میں بھی ہیں۔ Confrerles کے مصنفین لکھتے
ہیں: ”خدا خلق کی خاطر ترک نفس،وجدوحال جوبیہو شی کی حد تک پہنچ جاتاہے، اعلیٰ
درجے کی خدمت نوع بشر بلا امتیاز مذہب وملّت،انتہائی جود وسخا، زبردست پاکبازی،ہر
کام میں عجزوانکسار اور شفقت و احسان۔ان
خوبیوں نے شیخ عبدالقادر گیلانی کو اسلام کا سب سے محبوب ا ور ہر دلعزیز
ولی بنا دیا ہے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلم اقوام کے موجودہ
انحطاط کی ذمہ داری میں اشعری مسلک کی ظاہری پابندی شرع اور صو فیہ کی تعلیم توکّل
دونوں برابر کی شریک ہیں۔ جس قسم کی صوفیانہ تعلیم ذیل کے اشعار میں دی گئی ہے اس
کا نتیجہ ذہنی مفلوجیت کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۱؎۔
کجکول کو تاج خسردانی
سمجھے دنیائے دَنیا کو
محض فانی سمجھے
دریائے حقیقت کو وہی جاوے
پیر جو قصہ عمر کو کہانی سمجھے
اب ضروری ہے کہ امام
غزالیؒ کا صوفیانہ حُبِّ الہٰی او رصوفیانہ طریق زندگی کے بارے میں جو تصور تھا اس
کی طرف رجوع کیا جائے۔امام غزالیؒ کا یقینا یہ دعویٰ نہ تھا کہ رموز کائنات کا علم
انہی تک محدود ہے اور ان کے عقائد میں اتنی باطنیت و سّریت بھی نہ تھی جتنی بعد کے
صوفیہ کے مسلکوں میں پیدا ہوگئی۔انہوں نے علاّمہ سّراج کی طرح ایک لائحہ حیات
مرتّب کیا جسے وہ قرب الہٰی اور مشاہدہ حق کی سعادت حاصل کرنے کا صحیح طریقہ خیال
کرتے تھے لیکن چونکہ انہوں نے اس طریقے پر جو زور دیا اس کا دارومدار ان کے نظریہ
کائنات پر ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم مؤخرالذّکر کے بنیادی خصائص کے بارے میں کچھ
کہیں۔ انہوں نے جو یہ کہاکہ ساری فطرت اور ساری موجودات بلاواسطہ قادر مطلق کی
تخلیق ہے یہ قرآن کے ارشادات کی ایک صدائے بازگشت تھا۔ جب وہ من حیث الکُل کائنات
کے بارے میں اپنا تصّور پیش کرتے ہیں تو ان کے نظریے کا احاطہ وسیع تر ہوجاتا
ہے۔انہوں نے کائنات کو دو اصناف میں تقسیم کی یعنی مرئی اور غیر مرئی۔مرئی دنیا
(جسے وہ عالم الملک کے نام سے موسوم کرتے ہیں) مادّے کی دنیا ہے او ریہ دنیا ارتقا
ء اور تغّیر وتبدّل کے قانون کی تابع ہے۔یہاں وہ معتزلہ کے ہم نوا ہیں۔
غیر مرئی دنیا کو جس کا
ادراک انسانی حواس نہیں کرسکتے وہ دو ذیلی اصناف میں تقسیم کرتے ہیں: اوّل عالم
جبروت۲؎
جو مادّہ خالص اور روحِ خالص کے مابین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
ملاحظہ ہو ضمیمہ سوم۔
۲؎
فررہنگ میں ہے:”سالکین (یعنی طالبان حق) کے محاورے میں (باقی حاشیہ صفحہ 672پر
ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔
وہ کلّیۃً مادّہ بھی نہیں
او رکلّیۃً روح بھی نہیں بلکہ دونوں کے خواص کا حامل ہے۔قوائے فطری اس ذیلی صنف
میں داخل ہیں۔ اگر امام غزالیؒ آج کل زندہ ہوتے تو غالباً وہ جدید سائنس کے بعض
انکشافات مثلاً ریڈیم کے خواص کو عالم جبروت میں جگہ دیتے۔ان کے نظریے کا سب سے دلچسپ
حصہ ان کا خالص روح کی دنیا (یعنی عالم ملکوت) کے بارے میں تصور ہے۔ عالم ملکوت
عالم امثال (عالم معانی) ہے۔روح انسانی اس عالم کی رہنے والی ہے۔ وہ ایک شرارے کی
طرح اپنے مرزبوم سے آتی ہے او راپنے جسد ارضی سے جدا ہوتے ہی جہاں سے آئی تھی وہیں
واپس چلا جاتی ہے۱؎۔
یہ تقسیم امام غزالیؒ نے
قرآن سے اخذ کی۔ انہیں قیاسی استدلال سے جو نفرت تھی وہ انہیں دلائل وبراہین کے
ذریعے اس نتیجے پر پہنچنے میں مانع نہ ہوئی۔نہ ان کا نظریہ نیا تھا، نہ ان کی
تقسیم نئی تھی۔فارابی ”عیون المسائل“میں ان کی پیش قدمی کر چکا تھا۔ قرآن میں جو
میزان مذکور ہے جس میں اعمال انسانی تو لے جائیں گے،جو قلم مذکور ہے جس سے خدا کے
تقدیر ی احکام درج کئے جاتے ہیں اور جو لوح مذکورہے جس پر درج ہوتے ہیں، ان تینوں
کو معتزلہ تمثیلی اور مجازی کہتے تھے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے، امام اشعری
انہیں واقعی او رجسمانی اشیاء سمجھتے تھے۔ امام غزالیؒ ایک نئی روش اختیار کرتے
ہیں وہ انہیں عالم ملکوت (یعنی عالم امثال یا عالم معانی)کی چیزیں تصور کرتے ہیں۔
یہ تھا وہ اسلوب جس سے انہوں نے ظاہریت او رمقلدّت کواپنے نور باطن اور روح انسانی
کی خواہش صعود کے نظریے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔
بعض انتہا پسندصوفیوں کا
عقیدہ ہے کہ جب روح انسانی کو قرب الہٰی حاصل ہوجاتاہے تو وہ ذات باری میں جذب
ہوکر رہ جاتی ہے۔ اسے وہ کبھی حلول او رکبھی اتحاد کے نام سے موسوم کرتے ہیں لیکن
علّامہ سرّاج او رامام غزالیؒ دونوں نے اس وحدت الوجود ی تصور کی تردید کی،اگر چہ
دونوں کبھی کبھی ذات باری کے قریب کو واضح کرنے کے لئے وصال یا وصلت کا لفظ
استعمال کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 671) جبروت وہ اعلیٰ علیین ہے جو ملائکہ اور صفات
علاقی کا مسکن ہے۔“
۱؎
فرہنگ نے ملکوت کی یہ تعریف کی ہے:”سوفیہ کی اصطلاح میں یہ عالم معانی ہے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب صوفی فنانی اللہ کا
ذکر کرتے ہیں تو اس وقت بھی ان کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ روح انسانی روح کُل میں ضم
ہوکر رہ جاتی ہے۔اپنے عظیم پیش رو کی طرح امام غزالیؒ اس کے قائل ہیں کہ انفرادی
روح عالم ملکوت سے آتی ہے،جو ذات باری سے قریب ترین ہے اور اپنے جسد مادّی سے جدا
ہونے پر اپنے اصلی وطن کو لوٹ جاتی ہے۔ ان کے نزدیک قرآن کے اس اعلان کا کہ
”اِنَّاللہ و اِنَّا الَیہ راجعون“ یہی مفہوم ہے۔
جہاں تک لوازم دین کا
تعلق ہے‘ معتزلہ،اشعریہ او رامام غزالیؒ کے تابعین میں کوئی اختلاف نہیں۔ ان میں جو
اختلاف ہے وہ اس زاویہ نگاہ کا ہے جس سے وہ ایمانیات اسلام کو دیکھتے ہیں۔حامیان
عقل کہتے ہیں کہ خدا کا علم عقل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔وہ عقل سے اس لیئے استناد
کرتے ہیں کہ قرآن نے خدائے واحد کی عبادت کی جو دعوت دی وہ عقل پر مبنی ہے۔اشعریہ
کسی چیز پر ایمان لاتے ہیں تو اس لیے کہ انہیں اس کی تعلیم دی گئی اور صوفیہ اس
لیے ان کا نور باطن انہیں وہ چیز دکھاتا ہے۔صوفیہ کاعقیدہ ہے کہ طالب حق اپنے اندر
گم ہوکر اور خدا سے لو لگا کر درجہ بدرجہ ایک ایسے مقام پر پہنچ سکتاہے جہاں اسے
ذات باری کا دیدیر نصیب ہو جاتاہے۔ متبدی کے لیے پہلا قدم نیت ہے اور دوسرا قدم
توبہ۔ یہ مجاہد ے کا مرحلہ ہے۔ ایک طویل مدّت تک اس مرحلے میں رہنے کے بعد طالب حق
کی روح ذات باری کے حضور میں حاضر ہوتی ہے لیکن ابھی پردہ ہٹا نہیں ہوتا۔ حافظ ایک
بیخودانہ انداز سے ذیل کے شعر میں اس مرحلہ حضور ی کی طرف اشارہ کرتاہے جسے
اصطلاحاً مظاہرہ کہتے ہیں او رجس میں روح دنیا اور اس کی بے حقیقت چیزوں کو ترک
کرکے اپنے آپ کو کلّیتہً خدا کے سپرد کردیتی ہے:۔
حضور ی گرہمی خواہی
ازوغائب مشو حافظ متیٰ
ماتلق من تہویٰ دع الدّنیا واہملہا
اس کے بعد کا مرحلہ
مکاشفے کا ہے جس میں پردہ غیب اٹھ جاتاہے اور ذات باری کی تجلی طالب کے دل پر
آشکار ہوجاتی ہے۔آخری مشاہدہ ہے جس پر پہنچ کر عاشق صادق کی روح اپنے آپ کو عین
حضور حق میں پاتی ہے اور قریب سے اس کے نو رکا دیدار کرتی ہے۔
ابتدائی مرحلے میں بھی
اپنی تمام توجہ کو ایک خیال پر مرکوز کرنے کی نفسیاتی کوشش کے باعث مرید کو رویتیں
دکھائی دیتی ہیں اور ملائکہ و انبیاء کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جن سے وہ ہدایت
حاصل کرتاہے۔ عیسائیت میں بھی وجدوبیخودی کی بالکل اسی طرح کی نفسیاتی
کیفیتیں ہرزمانے میں معروف رہی ہیں۔ صوفیہ
کی اصطلاح میں انہیں حال کہتے ہیں۔ حال میں ایک سرخوشی اور ذوق وشوق کا عالم
ہوتاہے۔ حال آتے ہی طالب پرایک ازخود رفتگی سی طاری ہوجاتی ہے۔خانقاہوں میں درویش
اکثر سردھن دھن کر اپنے اوپر یہ کیفیت طاری کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں ۱؎۔
صو فیہ کا یہ دعویٰ ہے کہ
انہیں نور باطن کے ذریعے خدا کا عرفان حاصل ہوتاہے۔ مدعیان عقلیت کہتے ہیں کہ وہ
عقل کے ذریعے خداکو پہچانتے ہیں جو خود خدا کا ایک عطیہ ہے۔کیا قرآن انسان کی عقل
او رسمجھ بوجھ سے باربار تقاضا نہیں کرتا کہ وہ خدا کی کائنات اور فطرت کے اسرار
پر غور وفکر کرے؟۔اگر قرآن عقل سے کام لینے کو بُرا سمجھتا تو وہ اپنے مخاطبوں کو
بار بار یہ تلقین کیوں کرتا کہ وہ قدرت کے عجائبات پر نظر ڈالیں اور خود نتیجہ
نکالیں کہ آیا یہ حیرت انگیز دنیا اتفاقاً ظہور میں آگئی یا اسے ایک محیط کُل عقل
نے خلق کیا؟۔دین اور عقل لازم وملزوم کے رشتے میں مربوط ہیں۔ اگر ہمیں قرآن میں
کوئی ایسی بات دکھائی دے جو سطحی نظر میں فلسفے کے نتائج سے متصادم معلوم ہوتی ہو
تو ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ اس کے کوئی مکتوب معانی ہیں جن کا بے نقاب کرناعقل کا
کام ہے۔ ابن رُشد اپنی ”فصل المقال“ میں بڑی صراحت سے یہ دعویٰ کرتا ہے۔وہ کہتا ہے
کہ دین اور فلسفے میں کوئی اختلاف نہیں،دین وحی الہٰی کے ذریعے مکشوف ہوتاہے،فلسفہ
نفس انسانی کی تخلیق ہے۔ چنانچہ اس کے اور امام غزالیؒ کے انداز فکر میں کوئی
زیادہ تبائن نہیں۔ امام غزالیؒ یہ تسلیم نہیں کرتے تھے کہ زمین سپاٹ ہے محض اس وجہ
سے کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ ”خدا نے اسے ایک فرش کی طرح بچھا دیا ہے۔“وہ سائنس
کے تمام انکشافات کو اور ریاضی وہیئت کے تمام نتائج کو قبول کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
جس مجلس میں درویش جمع ہوکر اپنے اوپر حال طاری کرتے ہیں اسے مجلس ذکرکہا
جاتاہے۔ڈاکٹر ڈی۔بی میکڈانلڈ (Dr. D.B. Macdonald) نے اپنی کتاب Aspects
of Islam
میں ایک مجلس دکرکا جو ایک مصری زاویے میں منعقد ہوئی بڑا عمدہ نقشہ کھینچا ہے۔
ہندوستان میں ذکر کی محفلیں عموماً اولیاء کے عرسوں کے موقع پر منعقد ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستارے اور سیّارے
مقّدرقوانین کے مطابق گردش کرتے ہیں۔ فطرت خود اس قدرت،رحمت او رحکمت کا ثبوت مہیا
کرتی ہے جس نے اسے پیدا کیا۔ چنانچہ امام غزالیؒ ابن سینا،ابن رُشد اور من حیث
العموم علمائے عقلی سے کُلّیۃً متفق ہیں۔اگر بامعان نظر دیکھا جائے گا کہ امام
غزالیؒ جنہوں نے اشعریت کو ایک یخ بستہ ظاہریت بن کر رہ جانے سے بچا لیا او راسے
ایک مرتفع جذباتیت سے وابستہ کرکے اس میں نئے سرے سے جان ڈال دی،ان حکمائے کبار کے
ہم خیال وہ ہمنوا تھے۔
سنّو سی جماعت سلسلہ
قادریہ کی طرح ایک باقاعدہ سلسلہ نہیں،لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کی
ترقی تہذیب اور اصلاح کا جو کام وہ شمالی او ر مشرقی افریقہ میں کررہی ہے اس کے
ذریعے وہ اخوان الصفّان کی تعلیمات میں ایک صوفیا نہ معنویت پیدا کررہی ہے۔اس
جماعت کے مسائخ اپنے مقّلدوں اور مریدوں کو اس جدّوجہد اورترقی کی دنیا سے منقطع
کئے بغیر انہیں علم باطن کے سبق سکھاتے ہیں۔
وہ فکر بلند پرواز جو
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اماموں کے خطبات میں اور نورباطن
کے مفسروں کی تعلیمات میں چاہے وہ علمائے معقولات ہوں یا فلاسفہ یا صوفیہ،جیتی
جاگتی دکھائی دیتی ہے، اسلام کے اشرف ترین افراد کی زندگیوں کو ایک مثالی ڈھانچے
میں ڈھالتی رہی ہے اور ان کے کارناموں کا ایک الہامی محرّک رہی ہے۔ عماد الدین
زنگی جیسے شجاعوں اور صلاح الدین ایّوبی جیسے حکمرانوں نے اسے اپنا قطب تارا، اپنا
کوکبِ رہنما پایا ہے۔سنائی،عطّار او رجلاالدین رومی جیسے شعراء نے جوش وخروش اور
سوز وگداز کے ساتھ اس ہمہ گیر ملکوتی محبت کے گیت گائے ہیں جو اسفل ترین مخلوق سے
لے کر اعلیٰ ترین مخلوق تک ساری کائنات فطرت کو اپنے احاطے میں لئے ہوئے ہے او ران
کے کلام کاجو احترام ہزاروں مسلمان کرتے ہیں اس سے زیادہ احترام وہ قرآن کے سوا
کسی کا نہیں کرتے۔
لیکن جہاں تک تصوف کے
عملی اثرات کا تعلق ہے اس نے اسلامی دنیا میں بہت سے ایسے مُضمر نتائج پیداکئے ہیں
جیسے اس کے مدِّ مقابل نے عیسوی دنیا میں کئے۔کامل طور پر موزوں طبیعتوں میں تصوّف
ایک بلندی عینی وشالی فلسفے کی شکل اختیار کرلیتا ہے لیکن جب عوام النّاس ذات باری
کی رموز اور اس کے ساتھ اپنے تعلقات پر سوچ بچار کر نے میں مگن ہوجائیں تو ان کے
دماغ اکثر ماؤف ہوجاتے ہیں۔چنانچہ ہر جاہل او رنکّما شخص جس نے صحیح علم سے نفور
ہوکر حقیقی فلسفے کے میدان سے منہ موڑ لیااور تصوف کی اقلیم میں مداخلت بیجا کی
اپنے آپ کو اہل معرفت کے زمرے میں شمار کرنے لگا۔ یہ امر کہ امام غزالیؒ کے زمانے
میں فی الواقعہ ایسا ہوا ان کی اس تلخ کامانہ شکایت سے ظاہر ہے کہ اور تو او رکسان
بھی کھیتی باڑی چھوڑ کر رہبرانِ طریقت ہونے کے دعوے کررہے تھے۔درحقیقت عامیانہ
تصّوف پر چاہے وہ اسلام میں ہو یا عیسائیت میں سب سے بڑا اعتراض ہی یہ عائد ہوتاہے
کہ چونکہ وہ بجائے خود کو مذہب نہیں اس لیے جہاں کہیں بھی اس کا چرچا ہوتاہے وہاں
لوگوں کے دماغ مختل ہوجاتے ہیں،معاشرے کا شیرازہ بکھر جاتاہے اور انسان کی قوت عمل
مفلوج ہوجاتی ہے۔عامیانہ تصوف قدرتی طور پر انسان پرستی او رفطرت پرستانہ وحدت
الوجود کی صورت اختیار کرلیتاہے۔
اس کے باوجود عینی فلسفے
کی اشرف صورتوں نے انسانوں کو اتنے فائدے پہنچائے ہیں کہ انہیں نظر انداز نہیں کیا
جاسکتا۔مثلاً ابن رُشد کی عینیت نے یورپ میں آفاق گیر الوہیت کے تصور کو جنم دیا۔
عیسوی یورپ میں جو داخلی وحدت الوجود بہار پر آئی او رجس نے اسے ایک ضمیّاتی مذہب
کی شدید مادّیت سے نجات بخشی وہ اس امر کی مرہون منت تھی کہ نفس مغربی میں اسلامی
عینیت کا پیوند لگ گیا۔ وہ ابن رُشد کی تصنیفات کاہی اثر تھا جس نے عالم مادّہ اور
عالم نفس کے باہمی تعلقات کے مسئلہ عظیمہ کی طرف غور فکر کرنے والے لوگوں کی توجہ
مبذول کرائی اور ایک محیط کُل روح کے تصور کو دوبارہ زندہ کیا۔۔ یعنی ایک ایسی روح
جو ”پتھر وں کے اندر سوتی ہے، حیوانوں کے اندر خواب دیکھتی ہے او رانسانوں کے اندر
جاگتی ہے“ اور ”یہ عقیدہ کہ وہ پوشیدہ اصول حیات جو تنظیم کی متنوع صورتیں پیدا
کرتاہے اس ذات باری کے من کی ایک موج ہے جو ہر چیز میں موجود ہے۔“
جان عالم گویمش گوربط جاں
دانم بہ تن
دردلّ ہرذرّہ ہم پنہان
وہم پیدا ستی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Related Article:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism