سید امیر علی
(قسط 39)
23 جون 2021
گیارھواں باب ، اسلام کی
صوفیانہ اور مثالی روح
ھوالا ول والا خروالظا
ھوو الباطن وھوبکل وھو بکل شیئ علیم
وہ صوفیانہ فلسفہ جو جدید
فارسی کی روح ورواں ہے صریحاً اس مخفی معنویت کی پیداوار ہے جو مسلمانوں کاایک اہم
طبقہ قرآن کے الفاظ کی طرف منسوب کرتاہے۔اسلامی تصوف کا اصلی سرچشمہ نفوس قدسی کا
وہ سرشاد جذبہ ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے اکثر ٹپکتا تھا اور
وہ سوز و گداز اور ذوق وشوق سے بھری ہوئی وجد کی سی کیفیت جو آپ کی عبادت کی خاصیت
تھی۔آپ کی زندگی میں عملی فرائض کی انجام دہی کر دینی فکر و نظر پر ترجیح دی گئی۔
اس لیے اسلام کے مفکر انہ اور صوفیانہ عنصر کو مکمل نشو ونما کا موقع نہ ملا۔ یہ
مفکرانہ اور صو فیانہ عنصر ہر مذہب او رہر قوم میں پایا جاتاہے۔لیکن یہ افراد او
راقوام کے طبعی خصائص کے مطابق مختلف صورتیں اختیار کرتاہے او راس کا دارومدار بڑی
حد تک اس پر ہوتاہے کہ ان میں مجرّدات اور محسوسات کو باہم خلط کرنے کا رُجحان کہا
ں تک ہے۔ ہندومتناہی کے لامتناہی میں جذب ہوجانے کو سعادت اُخروی تصور کرتا ہے اور
اس منزل مقصود کو حاصل کرنے کی خاطر ایک ہی مقام پر ساکن رہتاہے او راپنے آپ کو
مکمل بے حسی کے سپرد کردیتاہے۔ لامتناہیت کا جو احساس اس پر مستولی ہے اس کے باعث
اس کے لیے یہ مشکل ہوجاتا ہے کہ پروہت اور دیوتا میں یا اپنے آپ میں اور دیوتا میں
تمیز کرسکے۔بالآخر وہ خدا کی ان مختلف صُورِ فطری سے خلط ملط کردیتاہے جن میں اس
کے عقیدے کے مطابق خدا اپنے آپ کو آشکار کرتاہے۔یہ سلسلہ خیال جیسا کہ بھگوت گیتا
سے ظاہر ہے اس نتیجے پر ختم ہوتاہے کہ خالق ومخلوق ہم ذات ہیں۔ اس سے ہمیں پتہ
چلتا ہے کہ ہمہ ادست کا عقیدہ کیسے عجیب طور پر اپنی انتہائی شکل میں مادّی چیزوں
کی پرستش بن جاتاہے جو الٰہیت کے ہر دوسرے تصور سے پہلے وجود میں آئی۔ اپنے عہد
طفلی میں نفس انسانی خالص خوف کے سوا کسی روحانی جذبے سے آشنا نہیں ہوتا۔ دنیا کے
اولین دور کا جنگل جسے انسان نے ابھی ہاتھ نہیں لگایا،اونچے اونچے پہاڑ جو بھیانک
دیووں کی طرح راستہ روکے کھڑے ہیں،رات کا اندھیرا جس میں ڈراؤنی اور انجانی شکلیں
منڈلاتی پھر رہی ہیں،درختوں کی پھننگوں میں چیخم دھاڑ مچائی ہوتی ہوا۔۔۔۔۔۔ یہ سب
چیزیں ابتدائی انسان کے طفلانہ دل پر خوف او رہیبت طاری کردیتی ہیں۔ چنانچہ جو
مادّی چیز بھی اسے اپنے یا اپنے قریبی ماحول سے زیادہ طاقتور اور خوفناک دکھائی
دیتی ہے وہ اسی کی پوجا کرنے لگتا ہے۔رفتہ رفتہ وہ مادّی چیزوں کو خیالی ہستیوں
میں تبدیل کرنا شروع کردیتاہے اور پھر ان خیالی ہستیوں کو اپنا معبود بنالیتا ہے۔
امتداد زمانہ کے ساتھ یہ مختلف خیالی ہستیاں ایک عالمگیر اور محیط کل خیال میں ضم
ہوجاتی ہیں۔بت پرستی سے اوپر کی طرف پہلا قدم مادّی وحدت الوجود ہے۔
افلاطونیت جدید ہ نے جو
خود مشرقی فکر کی پیداوار تھی عیسائیت کو متاثر کیا تھا اور غالباً عشائے ربانی کا
تصور اسی کا نتیجہ تھا۔ جو ہینیز سکوٹس (Johannes) (Scotus) اور ایکہارٹ (Eckhart) کے سوا قرون وسطیٰ کے تمام یورپی صوفیذ نے صرف اس مسئلے کے خلاف
جہاد کیا تھا۔ صحیح معنوں میں تصوف جو لامحدودیت کی ایک بلند ہمت آرزو ہے مسلمانوں
کے نظریہ ”نور باطن“ کی بدولت وجود میں آیا۔
عالم اسلام کے اشرف نفوس
کا جو یہ خیال تھا کہ قرآن کے الفاظ میں کوئی عمیق تر مطلب پنہاں ہے جو خیال قرآن
کے ظاہری متن کی سخت گیر ی سے فرار کی خواہش کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اس کا سرچشمہ یہ
صحیمی ایمان تھا کہ عام مفسرین عبارات قرآنی کا جو مفہوم بیان کرتے ہیں ان میں اس
سے کم نہیں بلکہ زیادہ معانی ہیں۔ ایک تو یہ ایمان اور دوسرے ذات باری کے ہر چیزیں
ساری ہونے کاگہرا احساس جو قرآن کی تعلیمات اور صاحب قرآن کی ہدایات سے پیدا ہوا
او ران سے پوری پوری مطابقت رکھتا تھا۔ ان دونوں نے مل کر مسلمانوں کے یہاں وہ استغراتی
اور عینی فلسفہ پیدا کیا جسے تصوف کا نام دیا گیا ہے او رجسے غالباً افلاطونیت
جدیدہ کے خیالات نے جو مسلمانوں میں رائج تھے پھیلنے میں مدد دی۔مشرق میں امام
غزالیؒ اور مغرب میں ابن طفیل اسلامی تصوف کے سب سے بڑے علم بردار تھے۔جیسا کہ ہم
دیکھ چکے ہیں، امام غزالیؒ نے ہر اس نظام فلسفہ کو جو علم کی بناء تجربے یا عقل
پررکھتا تھا ناقص پاکر تصوف کا دامن پکڑا تھا۔ان کے اثر نفوذ کی بدولت تصوف مشرقی
مسلمانوں میں پھیل گیا اور مشرق اسلامی کے سب سے بڑے ذہنوں نے فلسفے کو شوق سے
قبول کیا۔مولانا جلاالدین رومی۱؎،جن
کی مثنوی صوفیاء کی حرذجان ہے،سنائی جسے خود رومی نے اپنا استاد مانا ہے۲؎۔ فریدالدین عطار، شمش
الدین حافظ، خاقانی،سعدی،نظامی،یہ سب اسی دبستان کے رُکن ہیں۔
لیکن یہ خیال نہ کرنا
چاہئے کہ امام غزالیؒ مسلمانوں میں پہلے شخص ہیں جس نے ”نور باطن“کا تصور پیش کیا۔
عرفان الہٰی اسلام کے مایہ خمیر میں مضمر ہے۔قربت الہٰی کی نیّت حقیقی عبادت کا
ایک لازمی مقدمہ ہے۔ معراج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے معنی ہی تھے محدود کا
لامحدود سے کامل ربط۔صرف یہی نہیں کہ خدا ان لوگوں کے دلوں سے کلام کرتاہے جو خلوص
نیت سے اس کی مدد اور ہدایت کے طالب ہوں بلکہ ہر قسم کے علم کا مبنع عقل کُل
ہے۔انبیاء پر علم کا اتقاء وحی کے وسیلے سے ہوتاہے۔اور خدائے تعالیٰ اکثر اپنے خاص
الخاص بندوں کو فی سِرِّۃ قلبی، کسی متوسل کے بغیر علم بخشتا ہے۔اسلام کی اصطلاح
میں اسے علم لُدنّی کہتے ہیں۔ قرآن نے اس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیاہے: وَ
عَلّمنَا ہَ مِن لَدَنَّا عِلماً (کہف۔65)خدا سے رابط قریبی کا یہی تصور ایک مشہور
حدیث میں بیان کیا گیا ہے جس کے مطابق خدائے تعالیٰ فرماتا ہے:۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
رومی کا ایک اخلاقی قصہ جس کا موضوع خدمت بشر ہے، لی ہنٹ (Leigh
Hunt) نے اپنی ایک نظم میں بڑی عمدگی سے بیان کیا
ہے۔
۲؎
ضمیمہ سوم ملاحظہ کیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”میری زمین او رمیرے آسمان مجھ کو احاطہ نہیں
کرسکتے،لیکن میں اپنے مومن،متقی اور متّورع بندے کے دل میں سما جاتا ہوں ۱؎۔“
ماوُسعتی ارضی ولاسمائی
ولکن وسعتی قلب عبدی المومن التّقی التّقی الورع۔۔۔۔“ اور دل انسانی نشاط عبادت
میں اس خدائی وعدے کا جواب یوں دیتاہے:”سمع اللہ ملن حمیدہ ربنا ولک الحمد۔“
یہی ماورائیت دوسری
حدیثوں میں پائی جاتی ہے۔حضرت علیؓ اپنے مواعظ میں نور باطن پربحث کرتے ہیں ۲؎۔ حضرت فاطمہ الزّہرا
اپنے خطبات میں اس کا ذکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
ملاحظہ ہو ضمیمہ دوم۔ڈاکٹر رنیالڈ نکلسن (Dr. Renold
Nicholson) نے بھی اپنی کتاب ”صوفیائے اسلام“Studies
in Islamic Mysticism میں یہ روایت نقل کی ہے۔ یہ تصنیف،جو ایک
ایسے عالم کی لکھی ہوئی ہے جو صوفیانہ ادب سے واقفیت میں یورپ بھر میں کوئی ہمسر
نہیں رکھتا،انسانی تصوف کا ایک عمدہ خلاصہ پیش کرتی ہے۔
۲؎
”نہج البلاغتہ“۔۔۔ ”نہج البلاغتہ“ کی دوشرحیں ہیں، ایک ابن ابی الحدید کی اور
دوسری فارسی میں لطف اللہ کا شانی کی۔ ابن الحدید اپنی شرح کے دیباچے میں اپنا
پورا نام یوں دیتاہے:”ابوحامد عبدالحمید بن ہبتہ اللہ بن محمد بن محمد بن حسین بن
ابی الحدید۔“ وہ مدائن میں ذی الحج 586ھ (دسمبر 1190ء) میں پیدا ہوا۔ وہ معتزلی
بھی تھا اور شیعہ بھی اور دیباچے میں اس کا صریحاً تذکرہ کیا گیا ہے۔ وہ اوّل درجے
کا فقیہہ، عالم مستّجر،متکّلم اور شاعر تھا۔ خلفاء وناصر اور ظاہر کے تحت وہ ایوان
میں کسی عہدے پر مامور تھا۔ ابن خلکّان (ڈی سلین De-Slane،جلد سوم،صفحہ 543،سوانح ضیاء الدین ابن الاثیر) اس کا ذکر ان
الفاظ میں کرتاہے: ”فقیہہ عزّالدّین،ادیب“ لیکن وہ ابن الحدید کی عظیم تصنیف یعنی
شرحِ ”نہج البلاغۃ“ کا نام نہیں لیتا۔ وہ یہ بھی بتاتاکہ ابن ابی الحدید معتزلی
اور شیعہ تھا۔ ابن الحدید اپنی شرح کے آغاز میں، جہاں وہ کہتا ہے کہ خدا کا شکر
بجا لانا اور اس کی عبادت کرنا انسان کا فرض ہے،رویت الباری فی الآخرت یعنی روز
قیامت خدا کے جسمانی آنکھوں سے دیدار کے بارے میں اشاعرہ کے عقیدے کی تردید
کرتاہے۔ ابن الحدید نے 655ھ (1257ء) میں بغداد میں وفات پائی۔ یعنی منگولوں کی
تاخت بغداد سے ایک سال پیشتر (فارسی ایڈیشن،قیا ساً 1304ھ میں شائع ہوا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرتی ہیں ۱؎: اور سید الشُہدا ء
امام حسینؓ کی منا جاتیں تو اس کی تجلی سے لبریز ہیں ۲؎۔ لیکن ان ابتدائی
تحریروں میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی روحانی نے تلاش حق کی خاطر
کاروبار دنیا کو ترک کرنے اور دور رُہبانیت اختیار کرنے کی تلقین کی۔ اس کے برعکس
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سختی سے رُہبانیت کی مذّمت کی۳؎۔لیکن اس کے باوجود
اسلامی تصّوف اس جادہ ئ ممنوع پر گامزن ہوگیا۔ روحانی کمال۴؎ حاصل کرنے کی کوشش میں
بہت سے مسلمانوں نے یہ نکتہ فراموش کردیا ہے کہ انسانی زندگی کا دارومدار پیہم عمل
پر ہے۔ یہ کیونکر ظہور میں آیا اس کی رودار دلچسپی سے خالی نہیں۔
نہ عیسائیت میں نہ اسلام
میں تصوف کوئی نیا مسلک ہے۔یہ رومی دنیامیں بھی تھا اور یہودی بھی اس سے ناآشنا نہ
تھے۔ آریائی ہندوستان میں تو یہ حدود سے تجاوز کرگیا اور اس پر لاتعداد صورتوں میں
عمل ہوتاتھا۔ ہندوستان سے چل کر نہ مغربی اور وسطی ایشیا میں پہنچا، جہاں اس نے
عجیب وغریب روپ دھارے۔ جہاں کہیں اس نے رنگ جمایا وہاں اس نے لوگوں کو یہی سکھایا
کہ خارجی دنیا سے کوئی واسطہ نہ رکھیں، خاندانی رشتوں اور ذمہ داریوں کے بندھن توڑ
دیں اور ہر چیز سے منہ موڑ کر صرف ایک چیز سے لَو لگائیں۔ اس کا سارا نچوڑہی ترک
دنیا تھا۔ حضرت عیسیٰؑ کا پیغام صوفیوں کی صدیوں پرُانی تعلیم کی ایک صدائے بازگشت
تھا۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے برخلاف خدمت بشر کو وہ عبادت کہاے
جو خدا کے نزدیک سب سے زیادہ مقبول ہے۔آپ کا پیغام پرانے تصورات کی عین ضد تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
”لُمعۃ البیضا“
۲؎
صحیفہ کاملہ
۳؎
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور متقدمین صحابہؓ ”رات کا بیشتر حصہ عبادت میں اوردن
کا بیشتر حصہ لوگوں کے کاموں میں صرف کرتے تھے۔“ یہی حال پانچویں اُموی خلیفہ حضرت
عمر بن عبدالعزیز کا تھا جو بہت سے دوسرے لوگوں کی بہ نسبت ولی کے لقب کے زیادہ
مستحق ہیں۔
۴؎
یعنی صوفیہ کی اصطلاح میں ”انسان کا مل“ بننے کی کوشش میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدقسمتی سے حضرت علیؓ کی
شہادت۱؎
اور خلافت راشدہ کے ختم ہوجانے کے بعد عالم اسلام میں جو ہنگامے برپا ہوئے، مدینے
کی تباہی نے جو مصیبتیں مسلمانوں پر نازل کیں اور دمشق کے اُموی خلیفوں کے تحت
جوبے لگامیاں معاشرے میں عام ہوگئیں،ان سب اسباب نے سنجیدہ مزاج مسلمانوں کو اس
پرمجبور کیا کہ گوشہ اعتکاف میں بیٹھ کر یاد خدا میں مصروف رہیں۔ تقوے سے توکّل تک
صرف ایک قدم کا فاصلہ ہے۔چنانچہ اس کے بعد مسلک تصوف کی جو نشوونما ہوئی وہ ایک
قدرتی سلسلہ واقعات تھی۔ خرقہ درویشی کا توبہ او رترک دنیا کے امتیازی لباس کے طور
پر اختیار کرنا ایک پرانی رسم ہے جو قرون اولیٰ سے چلی آرہی ہے۲؎۔روحانی ترقی کے بارے
میں صوفیہ کا جو نظریہ ہے وہ مکمل ترک نفس اور ذکر وفکر الہٰی میں پورے پورے
انہماک پرمبنی ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اس انجذاب اور توجہ قلب سے ۳؎ وہ ذات باری کا قُرب
اورحق کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔
۱؎
ملاحظہ کیجئے صفحہ 453،452 نیز Short History of the
Saracens
۲؎
عیسائیت میں بھی ٹاٹ کے جامے یا بالوں پیراہن کا یہی مصرف تھا۔ خرقہ تکیئے کے غلاف
کی طرح کا ایک لمبا سا لبادہ ہے۔”صوف“ کے معنی ہیں اُون اور صوفیوں کو یہ نام اسی
لیے دیا گیا کہ وہ اُونی کپڑے پہنتے ہیں۔ لفظ ”صوفی“ اہل صُفّہ سے کوئی تعلق نہیں
رکھتا جو مسجد نبوی کے باہر پڑے رہا کرتے تھے اورانہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ
وسلم اپنے ہاتھ سے کھانا تقسیم کیا کرتے تھے۔ اخوان الصفا سے بھی اسے کوئی مناسبت
نہیں۔
۳؎
روایت ہے کہ ابوسعید بن ابوالخیر،جو زمرہ صوفیہ میں بلند مقام رکھتے ہیں،ہندو
یوگیوں کی طرح اپنے نفس کو اپنی ناف پر مرکوز رکھا کرتے تھے۔ ابوسعید بن ابی الخیر
کی ایک نہایت عمدہ سوائحصری ڈاکٹر نکلسن (Dr. Nicholson)۔ نے اپنی کتاب Studies in Islamic
Mysticism میں دی ہے۔پروفیسر ای جی براؤن Professor
E.C. Browne کی Literary History
of Persiaبھی ملاحظہ کیجئے۔ (باقی حاشیہ صفحہ
654پرملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس
عقیدے نے جہاں بہت سے پارسا اور خدا پرست لوگوں کو اس پرآمادہ کیاکہ وہ اپنی زندگی
دین کے لیے وقف کردیں،وہاں اس نے انوکھے اور بے ڈھنگے خیالات کا ایک طوفان بھی
برپا کردیا۔
خیال کیا جاتاہے کہ حضرت
علیؓ اور ائمہ بیت النبی کو اعلیٰ درجے کا علم باطن عطا ہوا تھا۔ ابونصر سرّاج
اپنی کتاب ”اللّمُعہ“۱؎
میں حضرت جُنید بغدادی۲؎
کے حوالے سے کہتاہے کہ اگر حضرت علیؓ جنگ وجدل میں مصروف نہ رہتے تو اللہ نے انہیں
علم لُدّنی کی جو دولت بے پایاں بخشی تھی اس سے وہ دنیا کو مالا مال کردیتے۳؎۔ خواجہ فریدالدین عطار۴؎ اپنے”تذکرۃ
الاولیاء“میں امام جعفر صادق کو اولیائے متصوف میں سب سے اونچا درجہ دیتے ہیں۔ یہ
بات قابل ملاحظہ ہے کہ تقریباً ہر صوفی ولی کا روحانی سلسلہ حضرت علیؓ سے اور ان
کی وساطت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے۔صرف چند ایک کا سلسلہ حضرت
ابوبکرؓ سے ملتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 653)کہتے ہیں کہ ابوسعید بن
ابی الخیر ابن سینا کے ہم عصر تھے۔ ان کی وفات 1049ء میں ہوئی۔
۱؎
اللّمعہ فی تصوف“ Studies in Islamic Mysticism کے فاضل مصنف نے حال ہی میں بڑی کا دس اور علمیت سے کام لے کر اس
کتاب کی تالیف کی ہے۔ نورالدین عبدالرحمن جامی(نفحات الانس ’کلکتہ ایڈیشن صفحہ
319) کے قول کے مطابق السّراج کو صوفی الیاء میں بڑا ونچا مقام حاصل ہے۔حامی کے
تذکرے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اعلیٰ پائے کا ریاضیات دان اور علوم مجّردہ کا عالم
متبّحر بھی تھا۔ السّراج کی وفات 378ھ (988ء) میں ہوئی،یعنی امام غزالیؒ کی وفات
سے ایک سو سال پہلے۔
۲؎
”اللّعہ“۔ صفحہ 129۔حضرت جُنید اسلام کے اوّلین صوفیاء میں تھے۔ ان کی وفات 297ھ
(910ء) میں ہوئی۔ انہوں نے فرمایا:”صوفیوں کا نظام عقائد دین کے ایمانیات اور قرآن
سے ایک راسخ رشتے میں مربوط ہے(ابن خلّکان)
۳؎
دبیر حضرت علیؓ کو ”رموز دان خدا“ کہتاہے۔
۴؎
ملاحظہ ہو صفحہ 578 خواجہ فریدالدین عطّار 545ھ (باقی حاشیہ صفحہ 655 پرملاحظہ
فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی دو اسلامی صدیوں میں
جو مقّدس لوگ تھے وہ اتنے صوفی نہ تھے جتنے ارباب توکّل تھے۔ انہوں نے دنیا ترک
کرکے زہدوتقویٰ اختیار کیا تھا۔ ان کے ممتاز نمائندے ہیں۔امام حسن بصری۱؎، ابراہیم بن ادہم۲؎، معروف کرخی۳؎، جنید۴؎، رابعہ ۵؎ (جن کا نام اسلام کی
مقدس خواتین کی فہرست میں ممتاز ہے)بایزید ابسطامی اور متعدد دوسرے صوفیہ۔ تیسری
صدی ہجری میں یعنی حضرت جنیدؓ کے زمانے میں تصوف فلسفہ اسلامی کی ایک مسلمہ شاخ بن
چکا تھا لیکن چونکہ اس میں فکری بے راہ روی کی بہت گنجائش تھی، اس لیے اس نے مختلف
لوگوں کے ذہنوں میں غیر اسلامی شکلیں اختیار کرنی شروع کردیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 654)(1150ء)میں پیدا ہوئے
اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ منگولوں کے ہاتھوں 627ھ (30۔1229ء) میں شہید ہوئے۔
۱؎
بانی اعتزال واصل بن عطا امام حسن بصری کا شاگرد تھا۔ امام صاحب کی وفات 110ھ
(727ء) میں ہوئی۔
۲؎
ابواسحٰق ابراہیم ابن ادہم ابن منصور کی بابت ”تذکرۃ الاولیاء“ میں لکھا ہے کہ وہ
بلخ کے شہزادے تھے۔ ان کے والد ایک رئیس التّجار تھے۔ انہوں نے ترک دنیا کرکے اپنی
ساری دولت غریبوں میں لُٹادی اور زُہدوریاضت کی زندگی بسر کی۔ کہا جاتاہے کہ وہ
امام ابوحنیفہ کے شاگرد تھے۔ انہوں نے 161ھ میں وفات پائی۔
۳؎
معروف کرخی کا باپ عیسائی تھا: وہ امام علی رضا ابن امام موسیٰ کے ہاتھ سے مشّرف
بہ اسلام ہوئے اور ان کے شاگرد تھے،امام صاحب ان سے پدر انہ شفقت کے ساتھ پیش آتے
تھے (”علی موسیٰ رضا ازدے رضا بود“) معروف کرخی امام صاحب کے مکان کے باہر ایک
بلوے میں مشہد میں جاں بحق ہوئے۔
۴؎
حضرت جنیدؓ کے وقت تک کیتھولک مذہب کے راہب خانے اور جماعت گاہیں بن چکی تھیں۔
۵؎
حضرت رابعہ بصری کی وفات 160 ھ میں ہوئی۔ انہیں صوفیائے اسلام (باقی حاشیہ 656پر
ملاحظہ فرمائیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرانے خیالات و تصّورات
کے گڈ مڈ ہوجانے سے جو ڈنواں ڈول رجحانات پیدا ہوئے ابونصر سّراج ان کی مذّمت
کرتاہے۔ مسلک تصّوف کے بعض راہ نوردوں نے تو یہ اعلان کردیا کہ کامل عرفان عارف کو
شرع کی تمام پابندیوں سے آزاد کردیتا ہے ۱؎۔
انو نصر سرّاج نے امام
غزالیؒ سے بھی پہلے صوفیانہ فلسفے کو منظم کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کی کوششوں کے
باوجود وتصوّف اپنی پُرانی عارفانہ اور قلندرانہ روشوں پر گامزن رہا۔بہر حال ان
پانچ صدیوں میں جو وفات نبوی اور امام غزالیؒ کے خروج کے درمیان گزریں ایسے متعدد
افراد منصہ شہود پر آئے جن کا احترام علم وفضل،زہد وتقویٰ اور اوصاف حمیدہ کی وجہ
سے کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک امام غزالیؒ کے استاد امام الحرمین تھے۔
مشرقی تصوف میں جو ربط
ونظم اور خوبصورتی ودلکشی ہے وہ بڑی حد تک امام غزالیؒ کی مرہون منت ہے۔وہ بہت
بروقت دنیا میں آئے، کیونکہ سنّی مذہب چند درچند وجوہ کی بناء پر جن سے میں آگے چل
کر بحث کروں گا تجدید کا محتاج تھا۔
امام اشعری نے 320ھ میں
وفات پائی۔ امام غزالیؒ اس کے 130 سال بعد یعنی پانچویں صدی ہجری کے وسط میں پیدا
ہوئے اور انہوں نے چالیس برس کی عمر میں احیائے دین کا کام شروع کیا۔چھٹی صدی ہجری
اسلام کی تاریخ کا نازک ترین وقت تھی۔ ایک طرف تو دین محمد ی صلی اللہ علیہ وسلم
عیسائیت سے ایک جان جو کھوں کی جنگ میں گتھم گتھا تھا اور دوسری طرف ایک اندرونی
دشمن اس کے چشمہ حیات کو مسموم کررہا تھا۔حسن بن صبّاح اپنے آپ کو فاطمی خلیفہ
نزاء کا، جسے اس کے پیروامام مجّسم سمجھتے تھے، نائب کہتاتھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ صفحہ 655) میں بڑا اونچا رتبہ
حاصل ہے۔ ان کے بعد اور خواتین بھی ولایت سے مشرف ہوتی رہیں جن کا سلسلہ پاک بی بی
پرختم ہوتاہے جنہوں نے گزشتہ صدی کے لگ بھگ لاہور میں وفات پائی۔
۱؎
یہ صوفی جو ہندوستان میں درویش کے نام سے موسوم کئے جاتے ہیں بے شرع کہلاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس بناء پر اپنے
پیروؤں سے بے چوں وچرااطاعت کا تقاضا کرتاتھا۔ وہ اپنے پیروؤں کو یہ تعلیم دیتاتھا
کہ اس کی ذات جادہ حق ہے۔ اس کے مرید حشیش کے نشے میں دُھت اس کے احکام سے
سرموانحراف کئے بغیر ان کی تعمیل کرتے تھے اور ہوش میں آنے پر انہیں بطور انعام ان
نعمتوں کا تھوڑا سا مزہ چکھا دیا جاتا تھا جن کا وعدہ وہ ان سے آئندہ کی زندگی میں
کرتا تھا۔ دنیا کے ہر گوشے سے جمع کی ہوئی حسین عورتیں اس کی وہ حوران بہشتی تھیں
جو اس کے مریدوں کو غلامی کاطوق پہناتی تھیں۔ اس کے کارکن وسطی او رمغربی ایشیا کے
ہر شہر، قصبے اورگاؤں میں موجود تھے او رمختلف مقاصد کے تحت،لیکن سب کے سب ایک
زبردست محرک کے زیراثر اس کے تفویض کئے ہوئے کاموں کو انجام دیتے تھے۔ کوئی گھر
ایسا نہ تھا جس میں اس ہلاکت پیشہ فرقے کا کوئی نہ کوئی رکن بھیس بدل کر مصروف
کارنہ تھا۔ نہ دین کا خدمت،نہ علمی فضیلت،نہ پارسائی،نہ نیک سیرتی کسی شخص کو ان
مخربین اسلام کے ہاتھوں سے بچانے کی کفیل تھی ۱؎۔ لاتعداد بہترین اور
افضل ترین مسلمان ان دشمنان انسانیت کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے۔ان کی تبلیغ صرف
مسلمانوں تک محدود نہ تھی۔یہودی، عیسائی، زرتشتی اور ہندو بھی ان کے دام تزویر میں
گرفتار ہوگئے۔کیا مرواور کیا عورتیں بلکہ بچے بھی آسمانی نعمتوں کے نوراً مل جانے
کے لالچ میں پڑ کر دین سے منحرف ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
حسن بن صبّاح کے فرقے کے تباہ کارانہ رجحانات کامقابلہ اٹھارھویں صدی کے عیسائی
الیومی ناتی (Illumnati)
سے کیجئے۔پروفیسر ای جی براؤن Proffessor E.G. Browneاپنی
(Literary History of Persia)
میں ممتاز لوگوں میں سے اسمٰعیلیوں کے خنجروں کا شکار ہوئے چند ایک نام گنواتا
ہے۔موسیو گوئیار (M. Guyard)
کی کتاب، Un grand Maitre Des an Temps de-Saladin
Assasins کا پہلا باب بھی ملاحظہ کیجئے۔نیز مولوی
عبدالحلیم شرر لکھنوی کی لکھی ہوئی حسن بن صبّاح کی سوانحعمری دیکھئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ان دشٹمنان اسلام کا
مقابلہ کرنے کی خاطر ضروری ہوگیا تھا کہ اسلام کا تحفظ کرنے والی قوتوں کو نئی
زندگی بخشی جانے مسلک اشاعرہ ایک جامد ظاہر یت اور پابندی مراسم بن کر رہ گیا تھا
چنانچہ اس کے خلاف ردّ عمل یوں ہوا تھا کہ عوام میں تصوف بے پناہ طور پر پھیل گیا
تھا جو کوئی فرائض دینی کو ایک بار گراں سمجھتا وہ تصوف کی طرف رجوع کرتا جس میں
تکالیف شرعی سے آزادی تھی۔لوگوں کے ذہنوں پر خارجی اور داخلی دشمنوں کا ایسا خوف
چھایا ہوا تھا کہ فلسفانہ استدلال سے ان کی ڈھارس نہ بندھ سکتی تھی۔اخلاقی ضابطے
ڈھیلے پڑ گئے تھے اور بلند خیالی کا فقدان تھا۔ اسلام کی زندگی کایہ نازک مرحلہ
تھا جس میں امام غزالیؒ نے مسلمانوں کی صوفیانہ طریقت اور خدا سے براہ راست لو لگا
کر معرفت حق حاصل کرنے کی دعوت دی۔ مضطرب اور پریشان دلوں نے اس پرلبیک کہا۔ اس
دعوت نے تمام کشمکش رفع کردی اور صحیح العقیدگی کو حسن صبّاح کے اسلام کُش مبلّغوں
کی تفرقہ انگیز تعلیمات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نیا حربہ عطا کردیا۱؎۔
مشیّت ایزدی کا یہ ایک
قاعدہ ہے کہ جب کبھی کوئی مذہب نری ظاہریت بن کر رہ جاتاہے تو روح انسانی کے اعماق
سے کوئی ایسی نئی لہر اٹھتی ہے جس سے اس مذہب میں ایک نئی روحانی قوت پیدا ہوجاتی
ہے۔ The Forerunners and Rivals of Christianity کا مصنف ایسے لوگوں کے نام گنواتا ہے جنہوں نے فلسطین کے قدیم
مذہب میں زندگی پیدا کرنے کی اپنی سی کوشش کی لیکن وہ بنیئ ناصری ہی تھا جس نے
اسرائیل کے قومی خدا کی جگہ روح کل کی پرستش کی دعوت دے کر یہودیت میں نئے سرے سے
جان ڈال دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
پروفیسر گولڈ زیہر (Goldziher)
نے اپنی کتاب Le Dogme et la loi de I, Islam میں ”رہبانیت و تصوف“ کے عنوان سے جو فاضلانہ باب لکھا ہے وہ میری
نظر سے اس وقت گزرا جب میری کتاب کا یہ باب مطبع میں جا چکا تھا۔امام غزالیؒ کے
ظہور کے جو اسباب میں نے بیان کئے ہیں میں دیکھتا ہوں کہ وہ اس مشہور محقّق کے
خیالات سے من حیث العموم مطابقت رکھتے ہیں۔ نیز ملاحظہ کیجئے پروفیسر ڈی بی
میکڈانلڈ (DB. Mcdonald)
کا فاضلانہ مضمون جو Journal of the American Ofiental
Society, vol.xx میں چھپا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام غزالیؒ سے پہلے ائمہ
بیت النبی کے علاوہ وجدانیت کے اور بھی معلّم گزرے ہیں مثلاً ان سے پیشتر سرّاج
اور قّشیری تھے۱؎۔
لیکن امام غزالیؒ نے ان کی شروع کی ہوئی عمارت کی تکمیل کی اور سنّی مذہب کو
اشعریت کی اذعانیت سے نجات دلائی۔
امام غزالیؒ نے اپنی جو
سرگزشت حیات بیان کی ہے وہ روحانی نشو و نما کی ایک دلچسپ روداد ہے۔ اس میں وہ
اپنے امتحانوں اور ابتلاؤں،اپنے شبہوں اور وسوسوں،اپنی اُمیدوں اور آروزوں او
ربالآخر اپنے تاریکی سے نکل کر روشنی میں آنے کا حال سناتے ہیں۔ ان کے سفر کی آخری
منزل توکّل تھی یعنی ایک قسم کا روحانی سکون واطمینان جس میں شک کے سمندر کے
تھپیڑے کھانے والے اکثر دلوں کو امام ملتی ہے۔
امام غزالی۲؎ؒ 450ھ (1058ء)میں طوس ۳؎میں پیدا ہوئے جو صوبہ
خراسان میں مشہد کے قریب ایک مقام ہے۔
انہیں یقینا ایک خاص طور
پر مردانہ اور آذادہ روطبیعت عطاہوئی ہوگی، کیونکہ جیسا کہ وہ ”منقذ“ میں بیان
کرتے ہیں، انہوں نے عنفوان شباب ہی میں تقلید ترک کردی تھی جو تمام مذاہب میں صحیح
العقیدگی کا معیار ہے۔ تقلید کو ترک کرنا اور دینی فکر کی اقلیم میں ذاتی رائے کے
ایک نئے راستے پرچل نکلنا ایک ایسا کام ہے جسے تمام زمانوں اورتمام مذہبوں میں تحکّم
پیشہ علمائے دین نے ایک گناہ ِ کبیرہ قرار دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
القشیری (ابولقاسم) نے 465ھ (1074ء) میں وفات پائی۔
۲؎
ابوحامد محمد الغزالیؒ مُلقّب بہ حُجّۃ الاسلام وزین الدّین
۳؎
طُوسی فارسی کے سب سے بڑے شاعر فردوسی کا بھی مقام ولادت تھا۔مشہد شیعوں کا ایک متّبرک
شہر ہے کیونکہ وہاں آٹھویں امام علی بن موسیٰ رضا کامر قد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنّی مذہب میں صحیح
العقیدگی کے معنی تھے فقہ کے ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کے اصولوں کی پیروی کرنا۔
امام غزالیؒ نے قابل تعریف جرأت سے کام لے کر ذاتی تحقیق کئے بغیر کسی تحکمی مسلک
کا اتباع کرنے سے انکار کردیا۱؎۔بہر
حال چونکہ انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو شافعی کہا اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں
کہ وہ شافعی مسلک کی کم وبیش پیروی کرتے تھے بلکہ ابن خلکّان تو انہیں مسلک شافعی
کے علماء میں شمار کرتاہے۔”ان کے آخر عمر میں مسلک شافعی میں ان کے پائے کا کوئی
عالم نہ تھا“۔اپنی عمر کے بیسویں سال میں امام غزالیؒ طُوسی سے نیشا پور چلے
گئے۔نیشا پور منگولوں کی تاخت و تاراج سے پہلے جو 1256ء میں واقع ہوئی، علم کا ایک
بڑا مرکز تھا۔ وہاں انہوں نے دارالعلوم نظامیہ میں داخل ہوکر،جو چند سال پیشتر
قائم ہوا تھا، امام الحرمین الجوینی کو شاگردی اختیار کی۔ جب تک امام الحرمین زندہ
رہے یعنی 478ھ (1084ء) تک امام غزالیؒ امام الحرمین کی شاگردی میں رہے۔ امام
الحرمین کی وفات کے وقت امام غزالیؒ اٹھائیس برس کے تھے اولوالعزم کوئی کارنمایاں
کرنے کے لئے بے تاب اور تمام علوم متداولہ پر حاوی۔چنانچہ وہ ملک شاہ سلجوقی کے
جلیل القدر وزیر نظام الملک ۲؎
کے دربار میں پہنچے۔نظام الملک نے علوم وفنون کی فیّاضانہ سرپرستی کی بدولت علماء
وحکماء کا ایک درخشاں حلقہ اپنے گرد جمع کرلیا تھا۔ اس نے امام غزالیؒ کی قدردانی
کی اور کچھ عرصے تک اپنے مقّربین میں رکھنے کے بعد انہیں بغداد کے ایک مدرسے میں
معلّم مقّرر کر دیا۔ سلجوقی اپنے عرو ج کے زمانے میں جس وسیع سلطنت پر حکمران تھے
اس میں جس طرح سرکاری منصب دار جن میں مدّرس اور معلّم میں شامل تھے، ایک جگہ سے
دوسری جگہ بھیجے جاتے تھے وہ دنیائے اسلام کے ذہنی اتحاد اور اس کے مختلف حصوں کے
باہمی ارتباط کاایک بیّن ثبوت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
یہ حال ہی کی بات ہے کہ ہندی مسلمانوں میں ایک فرقہ پیدا ہوا ہے جو فخریہ طور پر
اپنے آپ کو غیرمقلّد کہتاہے۔
۲؎
ابواعلی الحن۔و ہ بھی طُوسی کا باشندہ تھا اور ”سیاست نامہ“ کامصنّف ہے۔موسیلوشارل
شیفر (M.Ch.Schefer)
نے اس کتاب کا فارسی متن اور اس کا فرانسیسی ترجمہ شائع کیاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بغداد میں امام غزالیؒ چھ
سال تک فرائض معلّمی انجام دیتے رہے۔ انہوں نے اتنی شہرت پائی کہ مملکت کے گوشے
گوشے سے ہر طبقے کے طلباء دینیات،الہّیات اور منطق پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
خطبے سننے کے لئے آنے لگے۔484ھ کے اخیر میں وہ درس وتدریس سے دل برداشتہ ہوکر
بغداد سے چلے گئے۔ جن مضامین کا وہ درس دیتے تھے ان کے غائر مطالعے نے ان کے دل
میں مدرسی علماء کی تعلیمات کے بارے میں شکوک راسخ کردیئے۔ امام اشعری نے صرف
پندرہ دنوں تک گوشہ عزلت میں بیٹھ کر عقلیت او رمقلّدیت کے محاسن کا موازنہ کیا
تھا اور اس کے بعد وہ صریح نتائج پر پہنچ گئے تھے۔ امام غزالیؒ نے اپنی روح کے لئے
ایک جائے قرار ڈھونڈ نے میں دس سال صرف کئے۔ وہ جائے قرار انہیں ارشادات نبوی میں
ملی جن کی صحیح تفسیر کا ملکہ ان کے قول کے مطابق صانع کائنات نے طالب حق کے دل
میں ودیعت کیا ہے۔ اپنی طویل سیاحت کے دوران وہ ہر مرکز علم میں گئے اور ہر ایسی
درسگاہ اور خانقاہ کی زیارت کی جس میں علما و اصفیاء دینی یادنیوی علوم کی تحصیل
میں مصروف تھے۔یروشلم پر صلیبی محاربوں کا طوفان ٹوٹنے سے ایک سال پہلے امام
غزالیؒ اس مقّدس شہر میں تھے۱؎۔
ان کا طویل ترین قیام دمشق میں تھا جہاں وہ دریاکے مغربی کنارے پر کی ایک مسجد میں
درس دیتے رہے۔مسجد میں ان کا جو حجرہ تھا وہ آج زاویہ امام غزالیؒ کے نام سے موسوم
ہے۔جب وہ اپنی جہاں گروی ختم کرکے نیشا پور لوٹے تو ان کی عمر کا اڑتالیسواں سال
تھا۔ وہ بہت کچھ گرم وسرد زمانہ سہ چکے تھے،لیکن جس چیز کی تلاش میں وہ سرگرداں
رہے تھے وہ انہیں مل گئی تھی، یعنی خدا کا علم اور روح کا سکون جن دنوں وہ بغداد
میں مدّرسی کررہے تھے انہی دنوں،یعنی 488ھ (1092ء) میں ان کا جلیل القدر اور نّیاس
مربّی نظام الملک حسن بن صبّاح کے ایک فدائی کے ہاتھوں جاں بحق ہوگیا تھا۔ملک شاہ
بھی اپنے وفادار خادم اور اپنی سلطنت کے رُکن رکین کی وفات کے چھ مہینے بعد اس
دارفانی سے رخصت ہوچکا تھا۔ ملک شاہ کا بیٹا سلطان سنجر طُغرل اور الپ ارسلان کی
سمٹی ہوئی سلطنت پر حکمران تھا اور نظام الملک کا بیٹا فخرالملک اس کاوزیر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
کہا جاتاہے کہ انہوں نے اسکندریہ کی سیاحت بھی کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فخرالملک اپنے برگزیدہ
باپ کی طرح علم پرور تھا۔ اس نے فوراً امام غزالیؒ کو نیشا پور کے دارالعلوم
میمونیہ نظامیہ میں ایک اعلیٰ منصب مدُرّسی پرمامور کردیا۱؎۔ یہاں تک جیّد اور کثیر
التخّلیق دماغ کی وہ حیرت انگیز سرگرمیاں شروع ہوئیں جو اسلام کے جذباتی اور
صوفیانہ پہلو پر اپنا نقش ہمیشہ کے لیے ثبت کر گئی ہیں۔
”منقذمن الضّلال۲؎“ بدیہی طور پر اسی
زمانے میں لکھی گئی۔ اس کتاب میں جو محض ایک مقالہ ہے،امام غزالیؒ نے طالبان حق کو
تین اصناف میں تقسیم کیاہے۔ پہلا گروہ اشعری متکلّمین کاہے۔ ان لوگوں کے تصّورات
رائے اور قیاس پر مبنی ہیں۔ امام غزالیؒ نے ان پر جچی تُلی تنقید کرکے ان کے
تحکّمانہ نظریات کو ردّ کیاہے۔دوسرا گروہ باطنیہ اور اسمٰعیلیہ کا ہے جن کا یہ
دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک امام معصوم سے سینہ بسینہ تعلیم پائی ہے۔ فلسفیوں کے
خیالات کا جائزہ لینے کے بعد جن میں وہ اخوان الصّفا کر بھی شامل کرتے ہیں امام
غزالیؒ نے تعلیمیہ (یعنی اسمٰعیلیہ) کی دھجیاں اُڑائی ہیں اور انہیں منافی اسلام ثابت
کیا ہے۔ ان کا جو یہ دعویٰ ہے کہ وہ ایک زندہ امام کے پیرو ہیں اس کا جواب امام
غزالیؒ یوں دیتے ہیں:۔ ”جب پیغمبر خدا موجود ہیں تو ہم کسی او ررہنما کی پیروی
کیوں کریں ۳؎؟“پھر
وہ کہتے ہیں کہ اگر ان زندیقوں کے مخالف (یعنی علمائے منقولات) براہین ودلائل میں
اتنے بودے نہ ہوتے تو انہیں اتنی کامیابی حاصل نہ ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
معلوم ہوتا ہے کہ فخر الملک نے پُرانے دارالعلوم نظامیہ کو وسعت دے کر اس نئے نام
سے موسوم کیا۔
۲؎
”المنقذمن الضّلال“ Schemoiderکے
Essai
sur les Ecoles Philosophiqueschez les Arabs.
کے ساتھ شامل کرکے چھاپی گئی ہے۔ انڈیا آفس کا نسخہ۔
۳؎
یہ وہی بات ہے جو سنائی نے اپنے مشہور شعر میں کہی ہے:۔
احمد مُرسل نشتہ کے
رواداروخرد کے اسیر سیرت بوجہل کا فرواشتن؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوتھا گروہ صوفیوں پر
مشتمل ہے،یعنی اہل وجدان اور ارباب مکاشفہ ومشاہدہ۔جہاں دوسرے لوگ ذات باری کا
استنباط عقلی استدلال سے کرتے ہیں،وہاں یہ لوگ جلوہ حق کے عینی مشاہدے کا دعویٰ
کرتے ہیں۔ابن الاثیر مورّخ جس نے اپنی عظیم تصنیف امام غزالیؒ کی وفات کے کچھ عرصہ
بعد موصل میں لکھی،کہتاہے کہ ”احیاء العلوم۱؎“امام غزالیؒ نے نیشا پور لوٹنے سے بہت
پہلے لکھی۔ اس بارے میں کچھ اختلاف آراء ہے لیکن اس پرتمام اہل الّرائے کا اجماع
ہے کہ یہ امام غزالیؒ کی تصنیفات میں سب سے اہم ہے۔ یہ کتاب ایک قاموس العلوم ہے
جس میں تصّوف کے فلسفے اور اخلاقیات کا کوئی پہلو نظر انداز نہیں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎
احیاء علوم الدین: قاہرہ کا ایڈیشن۔انڈیا آفس کا نسخہ جن موضوعوں سے یہ کتاب بحث
کرتی ہے ان کے ایک اجمال خاکے ہی سے واضح ہوجائے گا کہ اس کا دائرہ بحث کتنا و سیع
ہے اور اس کے مصنف نے کتنی محنت سے کام لیا او راس کی دماغی استعداد کس پائے کی
تھی۔ کتاب کی پہلی جلد علم کی فضیلت پر ایک مقالے سے شروع ہوتی ہے جسے شواہد عقلیہ
ونقلیہ سے ثابت کیا گیا ہے۔ پھر عقل کے شرف اور نفس اور عقل، اسلام اور ایمان کے
فرق پر ایک بحث ہے۔جو لوگ ایک ہی قبیلے کی طرح سربسجود ہوتے ہیں۔ان سب سے رواداری
کی تلقین کی گئی ہے۔دوسری جلد کے مباحث ہیں انسانوں کے ایک دوسرے کے بارے میں
فرائض اور والدین اور اولاد کی ایک دوسرے کے بارے میں ذمہ داریاں نفس اور روح،قلب
او رعقل کی تعریف او رالہام وتعلّم میں جو فرق ہے اس کی توضیح کی گئی ہے۔ اس جلد
میں انہوں نے تصّوف کے سارے فلسفے سے سیر حاصل بحث کی ہے۔ او راس بحث کا عنوان
انہوں نے یہ قائم کیا ہے:۔”طریق الصّوفیہ فی استکشاف الحق وطریق النظّائر“ تیسری
او رچوتھی جلد کا تعلق زیادہ تر اخلاقیات اسلام سے ہے۔ امام غزالیؒ غرور،
غصّہ،انتقام،لالچ او رکنجوسی کی مذمت کرتے ہیں او رمروّت،علم،عفو، رحم،سخا اور
مہربانی کہ سراہتے ہیں۔ اہل تشیع کے یہاں بھی ”احیاء العلوم“کا بہت احترام کیاجاتا
ہے۔چنانچہ بحارالانواز میں عقل اور علم پر جو مقالہ ہے اس میں ”احیاء العلوم“ سے
سند پیش کی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Related Article:
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism