New Age Islam
Sun Oct 06 2024, 07:44 AM

Books and Documents ( 17 Jun 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 9, The Rational and Philosophical Spirit of Islam - Part 38 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، دسواں باب، اسلام کی عقلیاتی اور فلسفیانہ روح

سید امیر علی

(قسط  38)

17 جون 2021

لیکن ارسطو کا فلسفہ جو مشاہدے اور تجربے پر مبنی تھا، اخلاق سے بڑھ کر عربوں کے قطعیت پسند مزاج سے موافقت رکھتا تھا۔چنانچہ قدرتی طور پر ارسطوی منطق اور مابعد الطبّیعیات نے عرب سائنسدانوں اور عالموں کے تصّورات پر بڑا اثر کیا۔افلاطونیت جدیدہ نے جو وجدان وذوق او رایک مبہم سے صوفیانہ استفراق پر مبنی تھی، اس وقت تک ان میں نفوذ نہ کیا جب تک شیخ شہاب الدین سہردروی نے اسے مقبولیت نہ بخشی۔

لہٰذا سبب اوّل کا جو تصور ارسطو نے پیش کیا تھا وہ اس زمانے کی زیادہ تر فلسفیانہ اور مابعد الطبیعیاتی تصانیف میں رچا ہوا دیکھا ئی دیتاہے اور یہ ارسطو کے اثرات کا ہی نتیجہ تھاکہ قدامت مادّہ کے عقیدے کی طرف عرب مفکرین کے ایک گروہ کا میلان تھا۔ ان لوگوں کو دہریہ کا لقب دیا گیا (دہر بمعنی فطرت)کریمر (Kremer) کے قول کے مطابق ”ان فلسفوں کا بنیادی خیال وہی تھا جو آج کل طبیعی سائنس کے پھیل جانے کی وجہ سے مقبول ہے“لیکن وہ خد ا سے منکر (Atheists)نہ تھے،جیسا کہ ان کے دشمنوں نے ان کے بارے میں کہاہے۔خدائی سے انکار کے معنی ہیں مرئی اور مادّی کائنات سے باہر اور ماوراء کسی قوّت یا علّت کے وجود کو تسلیم نہ کرنا۔ یہ لوگ ان معنوں میں منکرین خدا نہ تھے۔ ان کاکہنا صرف یہ تھا کہ سبّب الاسباب پر نہ کسی قسم کی صفات محمول کی جاسکتی ہیں نہ یہ بتایا جاسکتا ہے کہ کائنات پر اس کافعل کس طریقے سے واقع ہوتاہے۔ حقیقت میں یہ لوگ تعلیل یا لاادریت (Agnosticism) کے نظریے کے پیش کرنے والے تھے۔

ان واقعات سے صاف طور پرظاہر ہے کہ اسلام محمدی میں کوئی بات ایسی نہیں جو ترقی یا عقل انسانی کی نشوونما کے منافی ہو۔پھر ایسا کیونکر ہواکہ بارھویں صدی عیسوی کے بعد مسلمانوں کے یہاں فلسفہ تقریباً کُلّی طورپر ختم ہوگیا او رایک عقلیت سوزقدماء پرستی نے ان پرغلبہ پالیا؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ مسئلہ قضاء وقدر،اگرچہ وہ قرآنی تعلیمات کا صرف ایک پہلو تھا،مسلمانوں کی اکثریت کا بنیادی عقیدہ بن گیاہے؟ جہاں تک فلسفے کے مسلمانوں کے یہاں محو ہوجانے کاتعلق ہے،ایران میں شاہان صفوی کے تحت ابن سینا کے مسلک کا جو احیاء ہواوہ غالباً یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ عقلیت اور آزادی فکر مسلمانوں کے یہاں بالکل مردہ نہیں ہوگئی۔ لیکن میں نے جو سوال اٹھائے ہیں ان کا اطلاق مامۃ المسلمین پر ہوتا ہے او رمیں یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ جس صورت حال سے یہ سوال متعلق ہیں وہ کیونکر پید ا ہوئی۔

عباسی خلیفہ متوکّل کی تخت نشینی سے پہلے اسلام کا وہی حال تھا جو سترھویں اور اٹھارہویں صدیوں میں عیسائیت کا تھا۔ اسلام اس وقت دو بڑے بڑے مخالف فرقوں میں بٹا ہوا تھا، ایک نقل کادوسرا عقل کا۔ ارباب نقل اس کے قائل تھے کہ فطری اور مافوق الفطرت دونوں قسم کے امور میں انسان کو مقدّم نظائر سے ہدایت حاصل کرنی چاہئے ارباب عقل کا عقیدہ یہ تھا کہ اسے اپنی ذاتی رائے پر اعتماد کرناچاہئے۔ البتہ جس حد تک نظائرقابل عمل ہوں اس حد تک ان سے بھی ہدایت حاصل کرنی چاہئے۔ ان دوفرقوں کے اختلافات اتنے شدید تھے کہ ان میں موافقت پیداکرنا ناممکن تھا۔ارباب عقل زیادہ تر اہل فقہ تھے۔ وہ یہ طبقہ ہے جسے ہر زمانے او رہر ملک میں بجا طور پرتنگ خیال، خودرائے اور اپنے مفادات کے بارے میں متقشّف سمجھا گیا ہے۔ جمہور امام اس طبقے کے حامی اور تابع تھے۔”بشپ کا جو مذہب ہوتاہے وہی بنیے کا بھی ہوتا ہے۔لیکن بنیے کا فلسفہ کسی طرح پروفیسر کا فلسفہ نہیں ہوتا۔ اس لیے بشپ کی تو عزّت کی جاتی ہے لیکن پروفیسر کو سنگسار کیا جاتاہے۔ عقل وہ چیز ہے جس کی خصوصی ملکیت کا انسان دعویدار ہے۔ یہ وہ واحد امتیاز ہے جو حدود عائد کرتاہے۔ چنانچہ عوام النّان حسب ونسب یا دولت کی بزرگی کو تو نجوشی تسلیم کرتے ہیں لیکن عقل کی بزرگی کو تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں ۱؎۔“

جیساکہ میں پہلے کے ایک باب میں ذکر کرچکا ہوں،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قانونی احکا م یا فیصلے صادر کئے وہ ایک نیم متّمدن اورپرانی وضع کے معاشرے کی ضروریات پر مبنی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علیؓ نے دین اسلام کے حقائق کی توضیح کی۔قرآن میں تشریحی احکام بہت کم تھے اور جتنے تھے وہ بھی ایسے تھے کہ ان کی تعمیل حالات کے مطابق کی جاسکتی تھی خلافت راشدہ کے زمانے میں ان کی توضیح وتشریح زیادہ تو حضرت علیؓ او ران کے شاگرد حضرت عباس نے کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ Lewes, History of Philospht, vol,ii,p. 50

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباسؓ کی وفات کے بعد ان لوگوں نے جو ان کے خطبوں سے فیض یا ب ہوئے تھے اپنے طور پر فقہ کی درس گاہیں کھول لیں۔ چنانچہ ارباب فقبہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہ لوگ دینی اور شرعی مسائل پر بحث کرتے تھے تاویلوں کے بارے میں اظہار رائے کرتے تھے او رمذہبی آداب ورسوم اور زندگی کے روزانہ معاملوں پر روشنی ڈالتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ لوگ عوام کے ضمیر کے محافظ وامین بن گئے۔ ہرمسلمان کو قدرتی طور پر یہ دریافت کرنے کا شوق تھا کہ شارعِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات میں کیا یا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ روائتوں کا انبار لگ گیا۔ لیکن دبستان مدینہ کے سوا کہیں بھی کوئی مقررہ قاعدہ نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی جانشین ایک معیّن اصول پر کاربند تھے۔ وہ یہ کہ اگر انہیں عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا خلافت علوی کی کوئی نظیر مل جاتی جس کی توثیق اہل بیت نے کی تھی اورجس کا اطلاق زیر غور حالات پر ہوسکتا تھا،تو وہ اسے اپنے فیصلے کی بنیاد بناتے۔ اگر ایسی کوئی نظیر نہ ملتی تو وہ اپنے ذاتی اجتہاد پر اعتماد کرتے۔قانون ان کے نزدیک استقرائی اور تجربی تھا۔ چنانچہ وہ ہر صورت حال کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق حکم لگاتے تھے۔ ابتدائی خلفائے بنی اُمیّہ کے زمانے میں کوئی مقررّہ قاعدہ نہ تھا۔ صوبوں کے عمّال اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرتے تھے اور بزروشمشیر انہیں منواتے تھے۔ انفرادی اور فقیہوں کو بڑا اقتدار حاصل ہوگیا، خاص کر اس وجہ سے کہ عوام میں ان کا بول بالا تھا۔ جب عبّاسی مسند نشین ہوئے تو اس وقت امام جعفر صادق کی درسگاہ میں دو ایسے شخص تحصیل علم کررہے تھے جن کا شمار بعد میں سنّی مذہب کے ائمۃ مجتہدین میں ہوا، یعنی امام ابوحنیفہ اور امام مالک بن انس۔ابوحنیفہ عراق کے باشندے تھے اور مالک مدینے کے۔ دونوں نہایت متّقی وپرہیزگار اور کریم النفس تھے اور دونوں کے دل میں دین کی بنیادوں کو وسیع تر بنانے کا ولولہ تھا۔دونوں اہل بیت کے شیدائی تھے اور ا س وجہ سے دونوں نے تکلیفیں اٹھائیں۔امام ابوحنیفہ نے کوفہ واپس آکر ایک درسگاہ کھولی جس کی بناء پر حنفی مذہب کی عظیم عمارت کھڑی ہوئی۔ انہوں نے بیشتر روایات کو غیر صحیح قرار دے کر ردّ کردیا اور صرف قرآن پر اعتماد کیا۱؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ اس میں شبہ نہیں کہ حضرات حنیفہ کے ہاں احادیث کے اخذورو کے سلسلہ میں اپنے ہی اصول اور پیمانے ہیں لیکن اس کے معنی نہیں کہ فقہ حنفی کی اساس (بقیہ حاشیہ صفحہ 627پرملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظائر واشیاہ سے کام لے کر انہوں نے سیدھے سادے احکام کو ہر طرح کے حالات پر اطلاق کے قابل بنا دیا۔ابوحنیفہ دنیا دار آدمی نہ تھے اورانہوں نے مدینہ وبغداد کے سوا کوئی شہر نہ دیکھا تھا۔ نتیحۃً وہ ایک قیاسی مقنّن تھے۔بہر حال ان کے خیالات کو ان کے دوشاگردوں نے منضبط کیا،یعنی ابویوسف نے جو بعد میں بغداد کے قاضی القضاۃ بنے اور محمد الشّیبانی نے۔امام مالکؒ کا طریق کار جُدا تھا۔ انہوں نے ہر طرح کے استنباط او راستخراج کو ردّ کردیا۔ اس کے بجائے انہوں نے مدینے میں جہاں رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر حقیقی یا قیاسی واقعے کے بارے میں معلومات جمع کیں اور انہیں اپنے نظریوں کی اساس بنایا۔ ان کامسلک ”جادہئ پامال۱؎“ کی راہ نوردی تھا۔سیدھے سادے عربوں اور افریقی قبائلیوں کے لیے امام مالکؒ کے صریح احکام جو ان کے قدیم الرضع معاشروں کے حسب حال تھے۔ ائمہ فاطمیہ کی مدلّل آراء او رامام ابوحنیفہ کے قیاسی نظریوں کی بہ نسبت زیادہ قابل قبول تھے۔امام مالکؒ کے کچھ عرصہ بعد امام شافعیؒ آئے۔ وہ امام ابوحنیفہ اور امام مالکؒ کی بہ نسبت دنیا کے معاملات سے زیادہ واقفیت بھی رکھتے تھے او رابویوسف اور محمد الشیبانی کی بہ نسبت منطقی موشگافیوں کے کم دلدادہ بھی تھے۔ انہوں نے وہ مواد لے کر جو امام جعفر صادق،امام ابوحنیفہ او رامام مالکؒ نے فراہم کیا تھا ایک اخّاذ مسلک کی بنیاد رکھی جسے متّوسط طبقے کے لوگوں میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کا مسلک اصلی حنفی مسلک کی یہ نسبت ایک روز بروز بڑھتی ہوئی او رملی جلی آبادی کی بدلتی ہوئی ضررتوں سے تطبیق کی تو کم صلاحیت رکھتا تھا،پھر بھی اس میں اصلاح پذیر ی کا اتنا مادّہ تھا کہ اگر قرونِ مابعد کی ظاہر پرستی اس کی عملی افادیت کوتباہ نہ کردیتی تو وہ بہت منفعت ثابت ہوتا۲؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 626) صرف قرآنن ہے۔امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے فقہ حنفی کی عمارت کو تین واضح بنیادوں پر استوار کیا ہے۔قرآ ن،سنت مشہورہ،اور قیاس۔(م ح ن)

۱؎ ان کی کتاب فقہ موطاً ک یہی معنی ہیں۔

۲؎ شافعی مذہب ہندوستان کے تعلیم یافتہ حنفی طبقوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہر حال اس طرح عقید ہ وقانون کے چارمختلف مذاہب جو ایک دوسرے سے بڑی حد تک ممتاز تھے دنیائے اسلام میں رائج ہوگئے۔ فاطمی مذہب زیادہ ترشیعوں میں رائج تھا جو اسلامی مملکت کے ہر حصّے میں پھیلے ہوئے تھے، مالکی مذہب جزیرہ نمائے عرب کے بہت سے عربوں میں،بربروں میں اور ہسپانوی مسلمانوں میں مقبول تھا۔ شافعی مذہب متمول طبقوں میں متدادل تھا اور حنفی مذہب کے پیروایشیائے کو چک،شام اور مصر کے معزّز طبقے تھے۔ حنفی مذہب کو خلافت کے زمانے میں جو حیثیت حاصل تھی وہ اس حیثیت سے مشابہہ تھی جو فریسیت۱؎ کو یہودیوں میں حاصل رہی تھی اسے دربار کی سرپرستی نصیب تھی اس لیے وہ واحد مذہب تھا جس میں اتنی وسعت تھی کہ ایک مخلوط آبادی کی ضرورتیں پوری کرسکے۔فاطمی مسلک کے قبول کرنے میں یہ خدشہ تھا کہ جانشینان بنی کو بہت وقعت مل جاتی۔مالکی او رشافعی مسالک ایک وسیع المشرب مملکت کے تقاضوں کے لیے موزوں نہ تھے او راگر انہیں اختیار کیا جاتا تو مملکت کے مفادات خطرے میں پڑجاتے۔ چنانچہ یہ ہوا کہ جامعوں او رمدرسوں میں تو عقلیت کا طوطی بولتا تھا،لیکن منبروں پر اور عدالتوں میں حنفّیت کی جلوہ گری تھی۔ الہٰیاتی مسائل میں حنفیت مسلک صفاتیہ کی طرف مائل تھی، لیکن وہ بادشاہِ وقت کے خیالات کے مطابق اپنی آراء میں ردّوبدل کرلیتی تھی۔ اس زمانے میں اس کی یہ ایک امتیازی صفت تھی۔ یہ حالات تھے جن میں امام احمد بن حنبل (جو عموماً امام حنبل کے نام سے مشہور ہیں)منظر عام پر آئے۔ وہ انتہائی درجے کے متّشرع تھے اورکسی قسم کے اختلاف رائے کے متحمل نہ ہوتے تھے۔ انہیں نہ حنفی مسلک کی فریسپانہ آزاد منشی پسند آئی نہ مالکی مسلک کی تنگ خیالی،نہ شافعی مسلک کی پیش پا اُفتادہ روش۔چنانچہ انہوں نے ساری مملکت اسلامیہ کے لیے ایک نیا مسلک ایجاد کیا جو تمام وکمال حدیث پر مبنی تھا۔ امام ابوحنیفہ نے بیشتر متدادل حدیثوں کو مسترد کردیا تھا۔ امام ابن حنبل نے اپنے نظام فقہ میں بہت سی متناقص مستبعد اورعقل کو خیرہ کردینے والی روائتیں شامل کیں جو انمل بے جوڑ تھیں اور بدیہی طور پر گھڑی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ Pharisaism

۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت سے ترقی پسندی اور رجعت پسندی کے طرفدار وں میں ایک شدید چیقلپش شروع ہوگئی۔ابن حنبل نے صفاتیہ کے انتہا پسندانہ خیالات کو قبول کیا۔ان کا دعویٰ تھا کہ ذات باری کو آنکھوں سے دیکھنا ممکن ہے، اس کی صفات اس کی ذات سے علیحدہ ہیں یاہ بیان کہ خدا عرش بریں پر متمکّن ہے لغوی معنوں میں صحیح ہے،انسان کسی لحاظ سے مختار نہیں، ہر فعل انسانی بلاواسطہ فعل الہٰی ہے، وعلیٰ ہذاالقیاس۔انہوں نے علوم عقلی،تجربی کو مذموم قرار دیا۱؎ اور عقلیت کے برخلاف اعلان جہاد کیا۔ عامۃ النّاس نے ان کی وضاحت وبلاغت اور جوش وخروش سے مرعوب ہوکر ان باتوں پر آمنّا وصدقنّا کہا۔ حنفی فقیہوں نے بھی جن کا اقتدار جاہل عوام میں ہر دلعزیز ہونے پر موقوف تھا اور جو اس قدر ومنزلت پر رشک کرتے تھے جو سائنسدانوں او رفلسفیوں کو ہارون ومامون کے دربار میں حاصل تھی، اس نئے مصلح کی ہاں میں ہاں ملائی۔چنانچہ منبروں پر سے عقلیت کے حامیوں او رفلسفہ وسائنس کے خادموں پر آتش جہنم کے شعلے برسنے لگے اوربغداد کے کوچہ وبازار میں آئے دن خونریز جھڑپیں ہونے لگیں۔بالآخر متعصم اور واثق نے سختی سے ان مذہبی دیوانوں کے تشدد کی روک تھام کی۔امام ابن حنبل کو قید خانے میں ڈال دیا گیا، جہاں ان کی وفات ہوئی۔ ان کے جنازے میں ایک لاکھ چالیس ہزار مردو عورتیں شریک ہوئے۲؎۔ حنبلی مذہب کو پیروکار وں کی کوئی کثیر تعداد تو نصیب نہ ہوئی، لیکن اس نے حنفی مذہب سے مل کر اسے ایک نئی شکل دے دی۔ چنانچہ اس کے بعد سے حنفی مذہب امام ابوحنیفہ او رامام ابن حنبل کی تعلیمات کا ایک مخلوط مجوعہ بن گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ علاّمہ ابن تیمیہ نے حضرت الامام کی تصریحات کی روشنی میں اس حقیقت کی وضاحت فرمادی ہے کہ آپ نے صرف اس علم الکلام اور فلسفہ کی تردید کی ہے جو غلط،گمراہ کن اور غیر واضح تھا۔ مطقاً علوم عقلیہ یا علوم تحربیہ کی نہیں۔ (م ح ن)

۲؎ ضمیمہ دوم ملاحظہ کیجئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متوکل کے تخت نشین ہونے کے وقت مختلف فرقو ں کی صورت حال حسب ذیل تھی:۔ علمائے معقولات امور مملکت کے ناظم ومہتمم تھے۔ وہ اختیار واعتبار والے تمام عہدوں پر مامور تھے و ہ کالجوں کے پروفیسر تھے، شفاخانوں کے نگراں تھے، رصد گاہوں کے منتظم تھے تجارتی کاروبار کے سربراہ تھے،غرض انہیں مملکت کے علم و دانش اور مال ودولت دونوں کی نمائندگی نصیب تھی۔ عقلیت تعلیم یافتہ لوگوں، ارباب دانش اور ذی اثر طبقے کا مسلک غالب تھی۔ مسلک صفاتیہ معاشرے کے نچلے طبقوں میں مقبول تھا، چنانچہ بیشتر قاضی،مدّرس اور وکیل کے پیروتھے۔متوکّل نے جو ایک جفاپیشہ حکمران او ررندِ میخوار تھا اور جس پر وقتاً فوقتاً دیوانگی کے دورے بھی پڑاکرتے تھے،مصلحت اس میں دیکھی کہ موخرالذکر طبقے کے ساتھ اتحاد کرے۔اس سے اسے عوام کا ہر دلعزیز خلیفہ بھی اور کٹ ملّاؤں کا ممدوح بھی بننے کی اُمید تھی۔ چنانچہ اس نے ترقی پسندوں کو تمام سرکاری عہدوں سے خارج کرنے کا فرمان جاری کیا۔کالج او ریونیورسٹیاں بند کردی گئیں۔ ادب، سائنس اور فلسفہ کو ممنوع قرار دے دیا گیا اور علمائے معقولات کو بغداد سے شہر بدر کردیا گیا۔ متوکل نے اسی پر قناعت نہ کی بلکہ حضرت علیؓ او ران کے فرزندوں کے مقبرے بھی مسمار کرادیئے متعصب فقہاء جواب اسلام کے موبداور مرُبّی بن گئے تھے،امور سلطنت کے مختار کار ہوگئے۔متوکّل کی موت اور منصور کی مسند نشینی نے ایک بار پھر ترقی پسندوں کو غلبہ بخشا۔لیکن ان کی ظفر مندی مختصر المیعاد ثابت ہوئی۔ بے رحم اور خونخوار معتضد باللہ کے تحت ملائیت اور قدامت پرستی نے ازسرنو اقتدار پر مکمل قبضہ کرلیا۔ اس نے علمائے معقول کو برُی طرح ستایا۔ان کی تعلیم یہ تھی کہ عدل اعمال انسانی کی روح رواں ہے۔ خداخود عدل کے ذریعے کائنات پر حکمران ہے بلکہ عدل اس کی ذات او راس کا جوہر ہے۔ خیر وشر کا معیار انفرادی ارادہ نہیں بلکہ نوع بشر کی صلاح وفلاح ہے۔ یہ نظریے بلا کے انقلاب انگیز تھے کیونکہ ان کا ہدف خلیفہ کا حق غلط کاری تھا۔ اس سے بدتر باتیں تو ٹام پین۱؎۔ بھی نہ کہہ سکتاتھا۔ اس کے برعکس ملّاؤں کی تعلیم یہ تھی کہ ”خدا بادشاہ ہے،چونکہ بادشاہ سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوسکتی“۔ اس بارے میں کیا شک ہوسکتا ہے کہ ان مخالف نظریوں میں سے کون سا سچا تھا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ Tom Paine

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہر حال اب عباسیوں کے تحت عقلیت کا دور ختم ہو چکا تھا۔ بغداد سے شہر بدر ہوکر اس نے قاہرہ میں پناہ لی۔ وہاں اسے پناہ تو کیا ملتی، اس کی حالت او ربھی بُری ہوگئی۔عبّاسیوں کو قاہرہ اور قاہرہ کی ہرچیز سے انتہائی نفرت تھی او ربغداد کے مسلم پاپاؤں کو عقلیت کے نام سے بھی چڑ تھی۔ چنانچہ فقہ کا ایک دارالعلوم قائم کیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ جو سائنسدان او رفلسفی ابھی تک ملّائیت کے حلقہ اثر کے اندر رہتے تھے ان کی تصنیفات کی چھان بین کی جائے اور یہ دریافت کیا جائے کہ ان تصنیفات میں کفر والحاد اور بدعت کاعنصر کہا ں تک موجود ہے۔ جن جن تصنیفات میں عقلیت کا شائبہ بھی پایا گیا وہ جلاکر راکھ کردی گئیں۔اور ان کے مصنّفین کو سزائیں دی گئیں بلکہ بعض کوقتل کردیا گیا۔اب عالم اسلام کی ہئیت کذائی وہی ہوگئی جو قدامت پرست عیسائیت کی تھی۔ اس سے پہلے ایک وقت تھا جب ملکی طاقت کی مخالفت کے باوجود عقلیت کے لیے یہ ممکن تھا کہ عوام کے دلوں میں سکّہ بٹھا لیتی۔ ملّاؤں نے جب کبھی علمائے عقلی سے مناظرہ کیا شکست کھائی اور اگرچہ ایسے موقعوں پر وہ اکثر تلوار اور سنگ وخشت کے دلائل سے بھی کام لیتے تھے،پھر بھی مناظرے میں ان کی ہار کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ان کے پیروؤں پر پڑتا تھا۔ایسے میں رجعت پسندوں کو ایک غیر متوقع معاون مل گیا۔ اب تک ان کے اسلحہ خانے میں صرف روایت کے ہتھیار تھے۔ اس معاون نے انہیں ایک نیا حربہ مہیا کیا۔ امام ابوالحسن الاشعری۱؎ ان مشہور ابوموسیٰ الاشعری کی اولاد سے تھے جن سے عمر وبن العاص نے حضرت علیؓ کی برطرفی کا اعلان کرایا تھا ان کی تعلیم معتزلہ کے طریقے میں ہوئی اور انہوں نے بصرے کی جامع مسجد میں ایک بڑے مجمع کے سامنے معتزلہ کے عقائد ترک کرنے اور صفاتیہ کے عقائد اختیار کرنے کا اعلان کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ امام اشعری 260ھ (مطابق 874ء) میں بصرے میں پیدا ہوئے لیکن انہوں نے اپنی زندگی کابیشتر حصے بغداد میں گزارا۔چالیس سال کی عمر تک وہ معتزلہ کے پیرو تھے۔اعتزال سے انحراف کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ رمضان کے مہینے میں ایک رات رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خواب میں باس کی ہدایت کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کے مؤثر اور بلیغ طرز کلام سے لوگ مرعوب ہوگئے او ر جو لوگ ڈانواں ڈول تھے وہ فوراً ان کے پیچھے ہولئے۔بہت جلد علمائے خلافت میں انہیں چوٹی کادرجہ حاصل ہوگیا۔ فقہاء ان کی ہر بات مانتے تھے،عوام ان کے گرویدہ تھے اور خلیفہ ان کی عزّت کرتاتھا۔ امام اشعری نے ملاّئیت کو وہ چیز عطا کردی جس کی حاجت اسے مدتّوں سے محسوس ہورہی تھی،یعنی معتزلہ،فلاسفہ او رائمہ فاطمیہ کے عقلی نظریوں کے ردّ وابطال اور قدامت پسندانہ دینیات کے اثبات کے لیے ایک منطقی نظام یا کم از کم ایک ایسا طریق استدلال جسے منطق کہا جاسکتا تھا۔

ہم امام اشعری کے عقائد کا ایک خلاصہ پیش کرتے ہیں جو شہرستانی سے ملخّص ہے اور جس سے عام مسلمانوں کے موجودہ ذہنی جمود کے اسباب کا پتہ چلتاہے۔”ان کا اعتقاد تھا کہ خدا کی صفات ازلی او راس کی ذات میں موجود ہیں لیکن وہ محض اس کی ذات نہیں،بلکہ اس پرایک اضافہ ہیں۔۔۔۔ وہ ایک قدیم کلام کے ذریعے بولتاہے او رایک قدیم ارادے کے ذریعے چاہتا ہے،کیونکہ خدا بداہتہً ایک بادشاہ ہے اور ایک باشاہ کی حیثیت سے امرونہی کااختیار رکھتاہے اس لیے وہ امرونہی صادر کرتاہے۔۔۔۔ خدا کا حکم قدیم ہے،اس کے اندر موجود ہے اور اس کی ایک صفت ہے۔ خدا کا ارادہ غیر منقسم ازلی وابدی اور تمام ایسی چیزوں کو محیط ہے جو ارادے کی تابع ہیں،چاہے وہ خود اس کے اعمال ہوں یا اس کے بندوں کے افعال،موخر الذکر اس صورت میں کہ وہ خدا کے خلق کئے ہوئے افعال ہوں نہ کہ بندوں کے مکتسب افعال۔خدا ہر چیز کا اخلاقاً ارادہ کرتاہے،خواہ وہ نیک ہو یا بد،نافع ہو یامُضر۔خدا چونکہ علم بھی رکھتا ہے اور ارادہ بھی لہٰذا وہ بندوں کے ایسے افعالک کا ارادہ کرتاہے جن کا اسے علم ہوتاہے اورجو لوحِ محفوظ میں مندرج ہیں۔ یہ مقدم علم ہی اس کا حکم  ہے اس کا فیصلہ ہے اور اس کی مشّیت ہے۔ اس میں کوئی ردّوبدل ممکن نہیں۔ایک مکتسب فعل وہ فعل ہے جس کا قابلیت مخلوقہ (یعنی توفیق) کے ذریعے ہونا مقدر ہے او رجو قابلیت مخلوقہ کی شرائط کے تحت واقع ہوتا ہے۔“ سیدھے سادے الفاظ میں امام اشعری کی تعلیم یہ تھی کہ ہر فعل یا توخدا کی طرف سے صادر ہوتاہے یا اس کا کوئی شخص سے ارتکاب خدا کی طرف سے مقّدر ہوتاہے۔ یہ شخص چونکہ اکتساب کی قابلیت رکھتاہے اس لیے وہ اس فعل کا مرتکب ہوتاہے۔مؤخر الذکر قسم کا فعل اولاً خدا کا فعل ہوتاہے اور ثانیاً بندے کا۔مثلاً اگر کوئی شخص ایک خط لکھنے بیٹھے تو اس کا خط لکھنے کی خواہش کرنااس حکم ازلی کا نتیجہ ہوتاہے کہ وہ فلاں وقت ایک خط لکھے پھر جب وہ قلم ہاتھ میں لیتاہے تو یہ بھی ایک حکم ازلی کانتیجہ ہوتاہے،وعلیٰ القیاس جب وہ خط لکھ چکتا ہے تو یہ ایک ایسا عمل ہوتاہے جو اس کے اکتساب کی بدولت ظہور میں آیا۔شہرستانی اس تبصرہ کرتے ہوئے ایک پتے کی بات کہتا ہے۔ وہ یہ ایک ابوالحسن کے قول کے مطابق قابلیت مخلوقہ میں ایجاد عمل پر اثر انداز ہونے کی کوئی طاقت شامل نہیں۔امام اشعری کے مزید عقاید حسب ذیل تھے:۔

”خدا اپنے بندوں پر ایک بادشاہ کی طرح حکومت کرتاہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتاہے او رجو حکم چاہتاہے دیتاہے۔ اگر وہ سارے بندوں کو دوزخ میں ڈال دے تو اس میں کوئی خطا نہ ہوگی۔ اسی طرح اگر وہ سارے بندوں کو داخل جنت کردے تو اس میں کوئی ناانصافی نہ ہوگی، کیونکہ ناانصافی ایسی چیزوں کے بارے میں حکم دینے کوکہتے ہیں جو حکم دینے والے کے قبضہ اختیار میں نہیں ہیں‘ یا چیز وں کے مقّرروہ علائق میں خلل پیدا کرنے کو کہتے ہیں۔خدا حاکم مطلق ہے جس پر کوئی ناانصافی محمول نہیں ہوسکتی او رجس کی طرف کوئی غلطی منسوب نہیں کی جاسکتی۔۔۔۔۔ عقل کی رو سے کوئی چیز خدا پر واجب نہیں۔۔۔ نہ نافع عمل، نہ مفیدِ خلائق کام، نہ کریمانہ اعانت۔۔۔ کسی کام کا بندوں پر فرض ہونااسے خدا پرواجب نہیں بنا دیتا۔“

امام اشعری کے عقائد بیان کرنے کے بعد شہرستانی ان کے سب سے سربرآور دہ شاگرد ابو محمد بن کرّام کے عقائد بیان کرتا ہے جس کی تعلیمات کی کثیر التعداد لوگوں نے متابعت کی۔ شہرستانی ابو محمد کو صفاتیہ میں شمار کرتاہے۔ ابو محمد کا عقیدہ یہ تھا کہ خداکی صفات اس کی ذات سے جدا ہیں،خدا آنکھوں سے دیکھا جاسکتاہے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق بندوں کے افعال کو وقتاً فوقتاً خلق کرتاہے۔

اگر ہم ابن عساکر ۱؎ کی تصنیفات کا ذکر نہ کریں تو امام اشعری کی تعلیمات کا بیان نا مکمل وہ جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ابی القاسم علی بن الحسن بن ہبتہ اللہ بن عبداللہ بن الحسن (باقی حاشیہ صفحہ 634  پرملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہرستانی نے اشاعرہ کے عقائد کاجو خلاصہ پیش کیا اس میں اس کا طرز بیان فلسفیانہ اور منصفانہ ہے۔ اس کے برخلاف ابن عساکر مختلف مسالک میں توازن قائم رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا۔امام اشعری کی طرح وہ بھی عقل علماء کے نظریوں کو کُفر محض تصّور کرتاہے اور ان کی تعلیمات کی شدّت سے مذّمت کرتاہے۔ بہر حال اس نے امام اشعری کے اس تاکیدی حکم کی جو تصریح کی کہ دین کے ایمانیات کوبلاحیل وحجت تسلیم کرنا لازمی ہے اس کی مدد سے ہمیں یہ سمجھنے میں آسمانی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو ذہنی نشو ونما کے ایک ابتدائی مرحلے میں کیا رجحان بروئے کار آئے او رانہوں نے کس طرح بالآخر مسلمانوں کی ترقی کو روک دیا اور صدیوں کے لیے ان کے قوائے عقلی کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ دین کے مسائل کے بارے میں کسی قسم کا سوال فقدان ایمان اور ایک ناقابل معافی گناہ سمجھا جاتا تھا اور تحقیق کو تو ایک شیطانی کارروائی تصور کیا جاتاتھا۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ:”خدا ہر چیز کو دیکھتاہے“۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ خدا کی آنکھیں ہیں اور مومن پر لازم ہے کہ وہ اس پر چون وچرا کے بغیر ایمان لائے۔ یہ تھا امام اشعری کا طریق استدلال اور یہی آج تک ان کے مسلک کے تابعین کاطریق استدلال ہے۔

امام اشعری اور ان کے ممتاز شارح اور مفسر ابن عساکر کے درمیان اڑھائی صدیوں کا فصل تھا۔ اس مدّت کے دوران اسلام میں بڑی تبدیلیاں ہوئیں۔ جب تک امام اشعری نے اپنا نیا مسلک ایجاد کیا اس وقت تک اقتدار کے لئے جو کش مکش تھی وہ دومسالک کے درمیان تھی، یعنی عقلیت او رملائیت کے درمیان۔امام اشعری نے ملائیت کو ایک ایسے حربے سے مسلح کیا جو اسے پہلے میسّر نہ آیاتھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 633) علی شافعی المعروف بہ ابن عساکر جو اپنی جیّد تاریخ ومشق کی وجہ سے مشہور ہے۔400ھ میں پیدا ہوا اور اس کی وفات 571ھ میں ہوئی۔وہ ایک کٹّر شافعی تھا اور امام اشعری کو اسلام کا بہت بڑا مجتہد اورمؤید خیال کرتا تھا۔ اس کی کتاب کا نام ہے ”بتین کذب المفتری فیما نسب الی الامام ابی حسن الاشعری“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جیسا کہ ابن عساکر نے کہا ہے: ”امام اشعری سے پہلے متکلّم باللّسان تھے جنہوں نے ارباب عقل اور دوسرے بدعت پسندوں کا عقابد خود ان کے منطقی اصولوں کے مطابق دلائل وبراہین سے کیا“۔ان کے نظریے چونکہ ملائیت اور عقلیت تقلید اور بدعت کے درمیان تطبیق کی ایک کوشش تھی اس لئے انہیں انتہا پسند علمائے دین کی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان لوگوں نے دیکھا کہ عقلیت کو مامون اوراس کے دو جانشینوں کے دور میں جو جاہ واقتدار حاصل ہوگیا تھا اسے ختم کرنے کا یہ ایک نہایت مفید وسیلہ ہے۔ آل بویہ کے ابتدائی حکمرانوں نے بھی عقلیت کی حمایت کی تھی اور ان کے زیر سرپرستی اس کا اثر ونفوذ وسطی ایشیا میں پھیل گیا تھا۔ ابن عساکر کا قول ہے۔”فنا خسرو1؎ (عضدالدولہ) کے زمانے تک معتزلہ کو عراق میں بہت اقتدار حاصل تھا“۔ عضد الدولہ کے عہد حکومت میں اشعریت کو دربار میں رسائی حاصل ہوئی اور وہاں سے وہ عام میں پھیل گئی۔پانچویں صدی ہجری تک اکثر اشاعرہ کو معتزلہ کی ایک شاخ سمجھا گیا، کیونکہ امام اشعری ابتدا میں معتزلہ کے پیروتھے۔ اس اشتباہ کی وجہ سے بارہا ایسا بھی ہوا کہ قدامت پسندوں کے ہاتھوں امام اشعری کے تابعین کو تکلیفیں اٹھانی پڑیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ الملک فنا خسرو نے قصر خلافت کے ناظم کی حیثیت سے 367ھ سے 372ھ تک بغداد پر حکومت کی۔ابن عساکر سے روایت ہے کہ ایک موقع پرجب وہ قاضی القضاۃ کے مکان پرعلماء کے ایک جلسے میں شریک ہوا تو اس نے دیکھا کہ مسلک اشاعرہ کا ایک عالم بھی جلسے میں موجود نہیں۔ اس نے سبب پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ بغداد میں اشعریہ کے فرقے کا کوئی عالم نہیں۔ اس نے قاضی القضاۃ کو تاکیدکی کہ کوئی عالم باہر سے بلوایا جائے۔ چنانچہ اس کے حکم پر امام اشعری کے ایک ممتاز شاگرد ابن الباقلانی کوبغداد بلایا گیا۔ فناخسرو نے اپنے لڑکوں کو تعلیم اس کے سپرد کی۔ خواہ یہ روایت صحیح ہو یا غلط، حقیقت یہ ہے کہ اشعریوں کا ستارہ عضد الدّولہ کے عہد میں بلندی پر آیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سلجوقی خاندان کے بانی سلطان طغرل کے عہد حکومت میں امام اشعری کے تابعین پر الحاد وبدعت کا شبہ ہوا اور انہیں زبان بندی اور جلاوطنی کی سزائیں دی گئیں۔سلطان خود اپنے ابوحنیفہ مسلک پر سختی سے کار بند تھا۔ اس نے مسجدوں میں جو خطبے دیئے ان میں اس نے ملحدوں پر تبّرا بھیجنے کا حکم دیا۔ ابن عساکر کی روایت کے مطابق سلطان طغرل کے وزیر۱؎ نے،جو معتزلہ کا معتقد تھا، ان تبّروں میں اشاعرہ کو بھی شامل کیا اور امام اشعری کے سربراور دہ تابعین کو تکلیفیں پہنچائیں۔

طغرل بیگ کی وفات پر اشاعرہ کے دن بدلے او رالپ ارسلان کے تخت نشین ہوتے ہی اور نظام الملک کے عروج میں آتے ہی اشعریت کو از سر نو غلبہ حاصل ہوگیا۔نظام الملک اہل سنت کا حامی تھا۔“ اس نے جلاوطن علماء کو واپس بلوایا،ان کی عزّت وتکریم کی اور ان کے ناموں پر دارالعلوم او رمدرسے کھولے۔“چنانچہ یوں ایک ایسا شخص جو مسلمانوں میں علوم وفنون کی فیّاضانہ سرپرستی کے لئے سربر آوردہ تھا غیر شعوری طور پر ایک ایسے رُجحان کا معاون بن گیا جو تمام دوسرے اسباب سے بڑھ کر مسلمانوں کے قوائے عقلی کوعقیم بنانے کا ذمّہ دار ہے۔

ابن عساکر نے اشعری مسلک کی ترقی کی جو رُوئدا د بیان کی ہے وہ جوش وخروش سے مملو ہے۔ عراق سے وہ ایوبیوں ۲؎ کے تحت شام میں اور مملوکوں کے تحت مصر میں پھیلا عراق ہی سے اسے ابن تو مرت۳؎ مغربی افریقہ لے گیا اور وہ مغرب (مراکش) میں جو پکڑ گیا۔”ابن حنبل کے چند مقلّدین او رابو حنیفہ کے مٹھی بھر تابعین کے سوا اسلام میں کوئی فرقہ ایسانہ رہ گیا جو اشعری کے پیروؤں کا مقابلہ کرسکتا۔“ ابن عساکر کا قول ہے:”اپنے مذہبی خیالات میں ابن حنبل اور الاشعری کا ملاً متفق تھے۔ نہ کسی فرعی معاملے میں، نہ اراکین عقیدہ میں اور نہ روایات کے قبول کرنے کے بارے میں ان میں کوئی اختلاف تھا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ حنبلیوں نے ہمیشہ بدعتی لوگوں کے مقابلے میں اشعریوں پر اعتماد کیاہے۔ صحیح العقیدہ لوگوں میں صرف اشاعرہ متکلّمین تھے۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ابونصر منصور۔ملقّب بہ عمیدالملک۔

۲؎ صلاح الدین اور اس کے جانشین

۳؎ شمال مغربی افریقہ میں موحد خاندان کا بانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام اشعری کی تعلیمات کے بڑے بڑے اصولوں کو واضح کرنے کی خاطر ابن عساکر مختلف فرقوں کے عقائد کا مقابلہ کرتاہے۔

چند دوسرے فرقوں کا ذکرکرنے کے بعد وہ امام اشعری کے الفاظ میں معتزلہ عقائد کو بیان کرتاہے(”جن میں وہ راہ حق سے گمراہ ہوگئے“)وہ ہمیں یہ بتاتاہے کہ معتزلہ اس خیال کی تردید کرتے تھے کہ خدا کو جسمانی آنکھوں سے دیکھا جاسکتاہے یا یہ کہ یوم حساب کو حشر ا جساد ہوگا۔“ وہ عذاب قبر کے مسئلے کا بھی البطال کرتے ہیں۔“ وہ اس پر بھی اعتقاد نہیں رکھتے کہ رسول خدا اپنی اُمّت کی شفاعت کریں گے۔ ان کا خیال ہے کہ بندوں کے گناہوں کی معافی یا تخفیف صرف خدا کی رحمت سے ہوسکتی ہے اور نہ خدا کے رحم نہ اس کے عدل پر بشری شفاعت کاکوئی اثر ہوسکتا ہے۔ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن مخلوق ہے اور نبی پر مشکوف ہوا، او رشریعت کے قوانین انسانی ضروریات کے مطابق وضع کئے گئے۔“

معتزلی عقائد کو بیان کرنے کے بعد ابن عساکر اشاعرہ کے عقائد کو بالتفصیل بیان کرتاہے۔ ان کی تعداد چوبیس ہے۔لیکن امام اشعری کے دینیاتی عندلیے کو اور عقلی اسلام سے انہیں زبردست اختلاف تھا اس کو واضح کرنے کیلئے ان میں سے چند ایک کا مجمل ذکر کافی ہے، توحید الہٰی اور نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان کا اقرار کرنے کے بعد جن پر تمام مسلمان متفّق ہیں،مسلک اشاعرہ اپنے عقائدکو یوں بیان کرتا ہے:۔

”ہم اقرار کرتے ہیں کہ جنت اور جہنم حق ہیں،یوم حساب کا آنا یقینی ہے،لاریب خدا مُردوں کو قبروں سے اٹھا ئے گا اور انسانوں کو آنکھوں کو اپنا جلوہ دکھائے گا۱؎۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ یہ عقیدہ یوں ہے کہ تدفین کے تیسرے دن دو فرشتے جن کے نام مُنکر اور نکیر ہیں‘ قبر میں آتے ہیں اور اپنے عصاؤں کی ضربوں سے مرُد ے کو اٹھا دیتے ہیں۔پھر وہ اس کی گزری ہوئی زندگی کے بارے میں اس سے سوال کرتے ہیں اور ایک نامہ اعمال میں اس کے جواب درج (باقی حاشیہ 638پرملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم اقرار کرتے ہیں کہ کلام اللہ (یعنی قرآن) اور اس کا ہرلفظ غیر مخلوق ہے دنیا کا کوئی واقعہ چاہے وہ اچھا ہویا بڑُا،خدا کے ارادے کے بغیر ظہور میں نہیں آتا، اس کی مرضی کے بغیر کوئی چیز وجود میں نہیں آتی۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ قادر مطلق اپنے بندوں کے افعال اور ان کے نتائج وعواقب سے واقف ہے۔ وہ ان افعال سے بھی واقف ہے جو وجود میں نہیں آتے۔ ہمارا ایمان ہے کہ تمام اعمال انسانی کا موجد خدا ہے اور اس نے انہیں اوّل روز ہی سے مقدر کردیا ہے۔ انسان میں یہ استطاعت نہیں کہ خود (یعنی خدا کی مدد کے بغیر) کوئی چیز ایجاد یا خلق کرسکے، وہ اس کی قابلیت نہیں رکھتا کہ مشّیت الہٰی کے بغیر کوئی ایسا کام کرسکے جو اس کی روح کے حق میں نفع بخش ہے یاکسی ایسے کام سے بچ سکے جو اس کے لے مُضر ہے۔“

”ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ خدا ان مومنوں کو جن سے گناہ سرزد ہوئے ہیں عذاب نار سے نجات بخشے گا۔“ ”ہم یوم حشر پر ایمان رکھتے ہیں،ہمارا عقیدہ ہے کہ دجّال کا ظہور نبی کے معتقد ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کے تمام بُرے خیالات شیطان کے پیدا کئے ہوئے وسوسے ہوتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ امام برحق کے خلاف بغاوت کرنا گناہ ہے۲؎۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 637) کرتے جاتے ہیں۔ وہ گویا مقّدمے سے پہلے واقعات کی تفتیش کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ جو بداہتہً مصری خیالات سے ماخوذ ہے،اشاعت اسلام سے پہلے عربوں کی لوک کہانیوں میں رچا ہوا تھا۔

۱؎ معراج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتقاد مسلمانوں میں عام ہے۔ اشاعرہ اور قدامت پسندوں کا عقیدہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی طور پر زمین سے آسمان پر گئے تھے۔ لیکن عقلی علماء کا خیال یہ ہے کہ معراج روحانی تھا، یعنی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو مرحلہ بہ مرحلہ ایسا صعود بخشا گیا کہ بالآخر اسے روح کُل سے ربط مطلق حاصل ہوگیا۔

۲؎ مُقلدّسُنیوں کا جو یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ کی بیعت کرنے کے بعد اس سے سرکشی کرناگناہ ہے،یہ اسی کانتیجہ تھا کہ تمام مسلم حکمرانوں نے خلیفہ کے ہاتھوں اپنی تخت نشینی (باقی حاشیہ صفحہ 639 پرملاحظہ فرمائیں)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسلمانوں کی ترقی کے بارے میں امام اشعری کا جو نقطہ نگاہ تھا اسے اوپر کا خلاصہ شہرستانی کے فلسفیانہ تجزیے کی بہ نسبت زیادہ واضح کرتاہے۔

معتزلہ کا مقابلہ خود ان کے حربے سے کرنے کی خاطر امام اشعری نے اس کی ٹکّر کاایک علم کلام ایجاد کیا۔ یہ مسلمانوں کاحقیقی مدرسی علم دین ہے۔ اگرچہ اسے معتزلہ کے ایجاد کئے ہوئے علم کلام کی ایک شاخ تصّور کیا جاتاہے لیکن یہبہت سی بنیادی باتوں میں اس سے مختلف ہے۔ مثلاً بیشتر معتزلی تصّور ی۱؎ تھے۔ اس کے برخلاف اشعری متکلّمین یا تو وجودی۲؎ تھے یا ایک قسم کے اسمی۳؎۔ جہاں اشاعرہ کا عقیدہ تھا کہ جہالت کی طرح کی ایک منفی صفت ایک وجود واقعی ہے وہاں معتزلہ یہ کہتے تھے کہ وہ محض ایک صفت کی نفی ہے، یعنی تعلیم کا عدم۔ اشعری متکلّمین کا عقیدہ تھا کہ قرآن غیر مخلوق اور قدیم ہے۔ اس کے مقابلے میں معتزلہ کا دعویٰ تھا کہ قرآن خدا کا وہ کلام ہے جو وقتاً فوقتاً حسب ضرورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرالقاء ہوا۔ ورنہ فاسخ ومنسوخ بے معنی ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ مانی ہوئی بات ہے کہ بعد کی بعض آیتوں نے پہلے کی بعض آیتوں کو منسوخ کردیا تھا۔

اس طرح اشعریت مشرق پر چھا گئی۔ جب روشن خیال بوید قصر خلافت کے منصرم بنے تو عقلیت کا بغداد میں پھر چرچا ہوا۔لیکن اشعریت نے عوام کے دلوں پر جو تسلّط جما لیا تھا وہ اس کے قبضے ہی میں رہا اور اعتزال کو اپنا پُرا نا اقتدار پھر کبھی نصیب نہ ہوا۔ بُوید عقلیت پسند تھے،لیکن سلجوقی علم دفن کی تربیت کرنے کے باوجود مسلک اشعریہ کے معتقد تھے۔ ریناں ۴؎

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(بقیہ حاشیہ صفحہ 639) کرانے کی درخواست کی، چاہے خلیفہ خود کتنا ہی کمزور کیوں نہ تھا۔ اس میں فائدہ یہ تھا کہ ان کی رعایا کے لیے ان کے خلاف بغاوت یا ان کی حکم عددلی شرعاً ممنوع ہوگئی۔

۱؎Conceptualists

۲؎Realists

۳؎Nominalists

۴؎Averroismet Everrosm

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہتا ہے کہ چونکہ اسلام تاریخ کے ایک اتفّاق کی بدولت ہسپانیوں،بربروں اور ایرانیوں جیسی مذہب پرست قوموں کی ملکیّت بن گیا اس لیے اس نے ان سے ایک شدید قسم کی اذعانیت کا رنگ پکڑ لیا۔“ کیتھولک مذہب پر ہسپانیہ میں جو افتاد پڑی وہی اسلام پر پڑی اور اگر وہ مذہبی احیاء جو سولھویں صدی کے اختتام اور سترھویں صدی کے آغاز میں ہوا قومی ترقی کو روک دیتا تو یورپ پر بھی وہی اُفتاد پڑتی۔“ یہ قول بالکل صحیح ہے۔ ایرانی ہمیشہ اپنے بادشاہوں کو خدا تصو ر کرتے تھے۔ترک،منگول اور بربر اپنے سر داروں کو خدا کے جانشین سمجھتے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ان قوموں کے یہ تصوّرات نہ بدلے۔ ہسپانیوں کے دلوں میں جو تعصب عیسائی پادریوں نے کوٹ کوٹ کر بھردیا تھا عرب صدیوں تک اسے دور کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام رہے۔وزیر منصور نے اپنی ہوس اقتدار پوری کرنے کے لیے عقلیت کے خلاف آواز بلند کی توجس ہجوم نے بعد میں ہنسی خوشی عیسائی بدعتیوں کو سرعام نذر آتش کیا، اسی نے قرطبہ کے بازاروں میں مسلم فلاسفہ کی تصنیفات کو جلاکر راکھ کا ڈھیر کردیا۔ صلاح الدین کی فوج ظفر موج اشعریت کواپنے ساتھ مصرلے گئی۔ ادھر عقلیت اپنے پرُانے دشمن کے ہاتھوں اپنے آخری مورچوں سے ہٹائی جارہی تھی،ادھرامام غزالیؒ۱؎ نے،جن کی تصنیفات کا سب سے بڑا ہدف فلسفے کا مطالعہ تھا، قدامت پرستی کوکمک پہنچائی۔امام ابوحامد محمد ابن محمد الغزالی بلا شک وشبہ اعلیٰ درجے کی قابلیت او ربے داغ سیرت کے مالک تھے۔ انہوں نے دشت فلسفہ کی سیّاحی بھی کی تھی اور سائنس کے سمندر کی غوّاصی بھی، بلکہ فکر آزاد کا شوق بھی پورا کیا تھا۔ یکایک ان کے دل میں یہ ولولہ پیدا ہوا کہ کوئی ایسی مضبوط چٹان ڈھونڈ نکالیں جو ان کی تھپیڑے کھاکھا کر تھکی ہوئی روح کے لیے جائے قرار بنے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ 1058ء میں فردوسی کی جائے ولادت ملُوس میں پیدا ہوئے اور 1111 ء میں وفات پائی ان کی مشہور تصانیف یہ ہیں: ”احیاء العلوم“۔”المنقذمن الضلال ”۔ ”تہافتہ الفلاسفہً۔ ابن رُشد نے ”تہافتہ التہافتہ“ الفلاسفہ”کے نام سے موخرالذ کر کا ر دلکھا۔ملا خطبہ ہو گیارہواں باب۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ وہی ولولہ تھا جو ان کے بعد آنے والے طالبان حق کے سینوں میں بھی پیدا ہوا۔ اس ولولے نے انہیں فلسفی سے صوفی بنا دیا۔ ”المنقذمن الضلال“ میں جو یا تو ان کے زبانی خطبات کا مجموعہ ہے یا برادران ملّت کو مخاطب کرکے لکھی گئی، وہ قدرے ساوہ لوحی سے بیان کرتے ہیں کہ انہیں علم کا کتنا شوق تھا اور اس کے تلاش میں انہوں نے کیونکر جگہ جگہ کی خاک چھانی،ہر دریا میں غوطے لگائے اور ہر مضمون سے واقفیت بہم پہنچائی او ربالآخر کیونکر ان خیالات سے توبہ کی جو ابتدائے عمر ہی سے ان کے دل میں جاگزیں ہوگئے تھے۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا حوالہ دیتے ہیں کہ ہربچہ فطری حقیقت کا علم لے کر پیدا ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ ان کے دل میں اس حقیقت کو دریافت کرنے کی آرزو تھی۔پھر وہ بتاتے ہیں کہ کیونکر تشکک نے ان پر قبضہ کرلیا او رکیونکر انہوں نے دین وایمان کی بلندیوں پر یعنی صوفیانہ ذکر وفکر اور مجاہدہ دریافت میں پناہ لے کراس سے چھٹکارا پایا۔ ان خطبوں میں امام صاحب نے فلاسفہ پر زبردست حملہ کیا ہے۔ وہ انہیں تین گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں:۔

1۔ وہریہ،جو مادّے کو قدیم تصور کرتے ہیں اور صانع عالم یعنی خدا کے وجود سے منکر ہیں۔

2۔ طبیعیوں،جو ایک خالق کائنات کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اس بات کے بھی قائل ہیں کہ جب روح انسانی جسم کے علیحدہ ہوجائے تو معدم ہوجاتی ہے اور اس لیے نہ کوئی یوم حساب ہے اورنہ انسانی اعمال کی جزاوسزا۔یہ دونوں گروہ امام صاحب کے نزدیک کافر ہیں۔

3۔الہٰیون (افلاطون وسقراط) ”انہوں نے پہلے دوونوں گروہوں کا کلّیۃً تردید کی ہے اور اس طرح خدانے سچّے مومنوں کو اس مجادلے سے بچا یا ہے۔“

باریں ہمہ افلاطون وسقراط کی تکفیر واجب ہے اور اسی طرح ان مسلم فلاسفہ کی جنہوں نے ان کی پیروی ہے، بالخصوص ابن سینا اور فارابی کی،کیونکہ ان سب کا فلسفہ اس قدر الجھا ہوا ہے کہ اس میں حق کو باطل سے جدا نہیں کیا جاسکتا تاکہ باطل کی تردید کی جائے۔ ان لوگوں کی جو تصنیفات ہمیں ملی ہیں ان کی بناء پر علم کو تین شاخوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک شاخ کے عالموں کو کافر اور دوسرے شاخ کے عالموں کواہل بدع کہنا لازم ہے۔ تیسری شاخ کے عالموں کی بابت کچھ کہنا ضروری نہیں۔“ لیکن اس سادگی کے باوجود امام غزالیؒ کی تحریروں میں بہت سی عملی فراست ہے۔ وہ دانشمندی کو اعتقاد محض پر فوقیت دیتے ہیں اور اس متعصّبانہ اذعانیت کی مخالفت کرتے ہیں جو ہر قسم کی عقلی تحقیق او رعلم کو ردّ کردیتی ہے،کیونکہ یہ اذعانیت ان فلاسفہ الہٰییّن میں پائی جاتی تھی جن سے انہیں چڑتھی۔ وہ اس اذعانیت کو اسلام کی دوستی ناداں کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے شخصی آزادی ضبط اخلاقی،تزکیہ نفس،عملی احسان و مرّوت اور نوجوانوں کی تعلیم کے بارے میں جو باتیں کہیں اور اپنے وقت کے ملّاؤں کی اخلاق صوز او ربے مصرف زندگیوں کی جس طر ح مذّمت کی، یہ سب چیزیں ان کی نیک سیرتی کی گواہی دیتی ہیں ۱؎۔

اس وقت سے عقلیت اور مقلدیت میں ایک پیہم آویزش شروع ہوگئی۔ ابن سینا کی جو تصنیفات اور اخوان الصفّا کے جو رسالے سرکاری یا نجی کُتب خانوں میں تھے وہ سب کے سب 1150ء میں حکیم الرکّن عبدالسّلام پر دہریت کا الزام لگایا گیا اور اس کی کتابیں عوام او رملاّؤں نے مل کر سربازار جلائیں۔جس ملاًنے اس تقریب کی صدارت کی اس نے ایک کرسی پر کھڑے ہوکر فلسفے کے خلاف ایک دھواں دھار وعظ دیا۔ لوگ کتابیں اٹھا اٹھا کر اسے دیتے جاتے تھے اور وہ ان کے کفر کے بارے میں چند کلمات کہہ کر انہیں آگ میں پھینکتا جاتا تھا۔ ابن میمون کا ایک شاگرد اس عجیب وغریب منظر کے تماشائیوں میں تھا۔ اس کے رو دار پڑھنے کے قابل ہے:۔

”میں نے اس عالم کے ہاتھ میں ابن الہشیم کی ہئیت پر تصنیف دیکھی۔لوگوں کو وہ دائرہ دکھا کر جس سے مصنف نے کرہئ سمادی کو ظاہر کیا تھا، عالم نے بڑے غیظ وغضب سے کہا ”ہیہات! ہیہات! غضب! غضب!“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ملاحظہ ہوگیا رھواں باب۔

۔۔۔۔۔

او ریہ کلمات کہہ کر کتاب کو آگ میں جھونک دیا۔ ”بہر حال نہ امام غزالیؒ کی شخصیت نہ بادشان وقت کی تقلید پروری (اگر چہ ان میں سے بعض درپردہ عقلیت پسند تھے) عقلیت کو بالآخر جامد تقلید پر غالب آنے سے روک سکتی،اگر اس اثناء میں منگول آکر تقلید کا پلّہ بھاری نہ کردیتے۔”ایک خان،ایک خدا۔ جس طرح خان کا فرمان اٹل ہے اسی طرح خدا کا حکم بھی اٹل ہے۔“ جب اس نظریے کی پشت پر لاکھوں تلواریں تھیں تو کیا اس سے بہتر کوئی برہان قاطع ہوسکتی تھی؟۔ عقلیت،فلسفہ، سائنس،علوم وفنون سب بربریت کے اس سیلاب میں بہہ گئے او رہمیشہ کے لیے بہ گئے۔ روشنی کی وہ شعاعیں جو ہم نے ہلاکو کے جانشینوں کے تحت مغربی ایشیا میں چمکتی دیکھی ہیں وہ ڈوبتے ہوئے سورج کی آخری شعاعیں تھیں۔ ملکی تدبیر نے انتہائی تعصّب سے کام لے کر عالم اسلام میں عقلیت او رفلسفے کو عود کر آنے سے روک دیا۔ فقیہہ اور مقنّن نہ صرف خود صاحب اقتدار تھے،بلکہ امریت وجابریت کی پشت پناہ بھی تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، ملائیت اور تقلید پرستی نے بیشتر مسلمانوں کے دلوں میں قبضہ کر لیا اور رفتہ رفتہ ان کی فطرت ثانیہ بن گئی ہے۔ وہ ملائیت کی عینک لگائے بغیر کوئی چیز نہیں دیکھ سکتے۔ ہادیئ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عقل سے کام لینے کی تلقین کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین نے اس سے کام لینے کو گناہ قرار دے دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان پرستی اور انسانوں سے غلو آمیز عقیدت کی ممانعت کی۔اہل سنّت نے سُلف او راپنے ائمہ اربعہ کو اور اخباری شیعوں نے اپنے مجتہدین کوولایت کا درجہ دے دیاہے۔ دونوں نے ان بزرگوں کی تعلیمات سے کسی قسم کے انحراف کو گناہ قرار دے رکھا ہے چاہے وہ انحراف ہادیئ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تعلیمات سے اور عقل کے تقاضوں سے کتنی ہی مطابقت کیوں نہ رکھتا ہو۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ ”بھوت پریت اور اس قسم کی چیزیں اسلام سے کوئی واسطہ نہیں رکھتیں“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروان چیزوں پرراسخ ایمان رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کافر وں کے ملکوں میں جاکر علم کی تلاش کرنے کی تاکید کی تھی لیکن انہیں اپنے ملک میں بھی علم دیا جائے تو وہ اسے وہاں بھی قبول نہیں کرتے۔

صفویوں کے عہد میں عقلیت اور فلسفے نے دوبارہ زندگی پائی۔ اوّلین عبّاسیوں کے عہد کی سی توانائی کے ساتھ تو نہ سہی۔بارھویں صدی عیسوی سے لے کر پندرھویں صدی تک ایران پر بہت بُرا وقت گزرا تھا اور اس تاریک دور میں شیعہ ملّاؤں نے سنّی فقیہوں سے بھی بڑھ کر وہی اقتدار حاصل کرلیاتھا جو عیسائیت میں پادریوں کو حاصل تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اُئمہ فاطمیہ کے جانشینوں کی حیثیت سے وہ قوانین شریعت کی تشریح کے واحد او رمطلق مختار تھے۔ ملاّ صدرہ نے (جن کا تذکرہ میں اصول عقائد کی،یعنی دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اوّلین جانشینوں نے اسے سمجھا او رقبول کیا، تجدیدکے سلسلے میں کر آیا ہوں) اپنے ہم وطنوں میں فلسفہ اور سائنس کے مطالعے کو دوبارہ رواج دینے کی کوشش کی۔ یہ ایک آسان کام نہ تھا، لیکن انہوں نے نہایت خوش اسلوبی اور فراست سے انہیں بنٹایا۔ابن سینا کا فلسفہ پھر سے زندہ ہوگیا اور ایران کے سیاسی تغیّرات،افغانوں کے دور اقتدار کے کُشت و خون اور قاچاریوں کے تخت نشین ہونے کے باوجود اس کا تسلّط شائستہ طبقوں پر ابھی تک قائم ہے۔سینا ئی فلسفے کی ایک بہترین کتاب عبدالرزّاق بن علی بن الحسین لاہیجی نے شاہ عباس ثانی۱؎ کے عہد حکومت میں ”گوہر مراد“ کے نام سے لکھی۔ اس کتاب میں اس نے ابن سینا کے خیالات کا خلاصہ پیش کیا ہے اور حضرت علیؓ،ان کے جانشینوں او رامام فخرالدین رازی،نصیرالدین طوسی،امام تفتازانی اور دوسرے حکماء او رطبیعیات دانوں کی آراء کے حوالے سے ان کی تشریح بھی کی ہے۔

عبدالرزّاق کی بعض رائیں بڑی دلچسپ ہیں۔ مثلاً معتزلہ اور اشاعرہ سے بحث کے ضمن میں وہ کہتا ہے۔”معتزلہ نے علم کلام اس مقصد سے ایجاد کیا کہ دین کے احکام اور معاشرے کی تقاضوں میں ہم آہنگی پیدا کریں او رعقلی اصولوں سے قرآن کی آیات کی اورایسی روایات کی جو بظاہر غیر معقول معلوم ہوتی ہیں تفسیر و توضیح کریں۔ ان کا مخالف فرقہ کسی حد تک تعصب اورکسی حد تک مصلحت کی بناء پر قرآنی آیات اور احادیث کو لغواً قبول کرنے کا قائل تھا اور اس نے ہر قسم کی تاویل کو ممنوع قرار دیا،معتزلہ کی تاویلوں او ران کی تمام رایوں کو بدعت کہا، معتزلہ کو مستبد عین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ اس بادشاہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے عظیم پیش ردشاہ عبّاس اوّل کی طرح مذاہب سے رواداری برتتا تھا۔ اس معاملے میں اپنے اصول عمل کو وہ اکثر ذیل کے الفاظ میں بیان کیا کرتا تھا: ”لوگوں کے دلوں کا محاسبہ میرا کام نہیں بلکہ خدا کا کام ہے۔ خالق کائنات اور مالک کُل کی عدالت کے معاملوں میں میں کبھی دخل نہیں دو ں گا۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کا لقب دیا اور اپنے آپ کو معتزلہ کے مقابلے میں اہل سنت و الجماعت کے نام سے موسوم کیا۔ ان میں سے بہت سے خدا کو ایک وجود جسمانی سمجھنے کے گناہ میں مبتلا ہوگئے ہیں اور سب کے سب تشبیہ کی معصیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔۔۔ یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ انہوں نے تاویل کا دروازہ بند کردیا ہے اور خدا کے تخت نشین ہونے سے متعلق آیتوں اور روئت الہٰی کے بارے میں روائتوں کی تفسیر لُغوی معنوں میں کرتے ہیں،یہاں تک کہ وہ ان سے تجسیم اور تشبیہ استنباط کرتے ہیں۔ان لوگوں کے پاس شروع شروع میں منطقی دلائل پیش کرنے کا کوئی طریقہ نہ تھا، وہ صرف قرآن اور احادیث کے لُغوی الفاظ پر اعتماد کرتے تھے انہیں یہ طریقہ ابوالحسن الاشعری نے سکھایا جو معتزلہ کے کبائر ائمہ میں سے ایک یعنی ابوعلی جبّائی کا ایک ممتاز شاگرد تھا۔ ابوالحسن نے منطق اور استدلال میں بڑی مہارت حاصل کی تھی۔ اس نے مذہب اعتزال کو ترک کرکے اہل سنّت والجماعت کا مسلک اختیار کیا اور اس فرقے کو جو اس کے ز مانے تک کوئی اثر ونفوذ نہ رکھتا تھا۔ ترقی دینے کی سعی بلیغ کی۔ اس وقت سے یہ فرقہ اسی کے نام سے موسوم ہوگیا۔ اس نے اہل اعتزال کے نمونے پر قواعد وضوابط مرتب کئے۔۔۔۔ جابر خلفا ء نے اس مذہب کے قواعد کو اپنی مصلحتو ں کے موافق پاکر اس کی حمایت کی۔ چنانچہ اس طرح اشعریت اہل اسلام میں پھیل گئی۔لیکن چونکہ اعتزال کے قواعد اصول عقلیہ پرمبنی تھے، اس لیے وہ بہت سے طالبان حق کے دلوں میں جاگزیں ہوگئے اور چونکہ معتزلہ نے فلسفہ اور سائنس کی تصنیفات کا خائر مطالعہ کیا تھا لہٰذا الطبیعیاتی اور الہٰیّاتی مسائل پر بحث کرتے وقت ان سے دلائل پیش کرتے تھے۔جب اشاعرہ کو اس کا علم ہوا تو چونکہ وہ ہر ایسی چیز کو جو صدر اسلام میں معمول نہ تھی بدعت سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے فوراً کتب حکمت کے مطالعے کو خلاف شرع اور مضردین قرار دے دیا۔ یہ اسی فرقے کی کوششوں کانتیجہ تھا کہ فلسفہ اہل اسلام میں اس قدر غیر مقبول ہوگیا کہ علمائے معتزلہ نے بھی اس سے اجتناب شروع کردیا۔لیکن فلسفے کیے اس مخالفت کے اصلی موسس اشاعرہ ہی تھے کیونکہ فی الحقیقت فلسفہ کسی صورت بھی دین اور اسرار قرآن واحادیث کے منافی نہیں انبیاء اور ان کے اولیاء نے حکمت کے حقائق کی تصریح کی ہے اور یہ حقائق تمثیلاً قُدسی ہیں“۔۔۔۔۔”انسان کے مختار عمل ہونے کے بارے میں تین مذاہب ہیں۔ پہلا نظریہ جبرکا ہے او ریہ اشاعرہ کامذہب ہے: ان کا عقیدہ ہے کہ انسانی اعمال بلاواسطہ خدا کے خلق کردہ ہیں اور ان میں انسانی ارادے کو کوئی دخل نہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص آگ جلائے تو وہ آگ کو بھی خدا کی جلائی ہوئی کہتے ہیں۔“ پھر اس نظرے کی اخلاقی مضرت کو بے نقاب کرنے کے بعد عبدالرزّاق کہتاہے:”دوسرا مذہب یعنی تفویض کا نظریہ بعض اہل اعتزال نے اختیار کیا،جو اس کے قائل ہیں کہ انسان نیک و بد میں تمیز کرنے کی قابلیت اور ان میں سے ایک پر عمل کرنے کی پوری پوری قوت رکھتا ہے۔تیسرا مذہب ائمہ فاطمیہ کا اور فلاسفہ وعلمائے عقلی کی اکثریت کا ہے۔ان کا عقیدہ ہے کہ انسانی افعال بلاواسطہ خدا کے خلق کردہ ہوتے ہیں لیکن خدا بتاتاہے کہ کونسا کام نیک ہے او رکون سا بد۔۔۔۔“

عیسائیت میں جو کلیسا صحیح العقیدہ ہونے کا مدّعی ہے اس کی جوموجود ہ حالت ہے ہمارا دل بے اختیار چاہتاہے کہ اس کامقابلہ اس فرقے کی موجودہ حالت سے کریں جواسلام میں اسی طرح کی حیثیت کا مدعی ہے۔ چوتھی صدی سے لے کر یعنی جب سے اس کی بنیاد رکھی گئی،لوتھر کی بغاوت تک کیتھولک مذہب نے اپنے آپ کو سائنس،فلسفہ اور علم وتعلیم کا جانی دشمن ثابت کیا۔ اس نے بدعت کے الزام پرلاکھوں انسانوں کو نذر آتش کیا۔جنوبی فرانس میں فکر آزاد کی پہلی تتلاہٹوں کا گھلا گھونٹ دیا اور عقلی دینیات کی تمام درسگاہیں جبراً بند کردیں لیکن لُوتھر او رکیلون کے رخنہ عظیم کے بعد کیتھولک مذہب پر یہ منکشف ہوا کہ نہ سائنس کی تربیت نہ فلسفے کا مطالعہ اہل ایمان کو کافر بنا دیتا ہے۔چنانچہ اس نے اپنی بنیادوں کو وسیع کیا اور اب اس کے دائرے میں بڑے بڑے عالی ظرف اور وسیع الخیال لوگ ہیں۔ سائنس دان بھی،ادیب بھی عالم بھی۔ باہر کے کسی آدمی کو وہ اصلاح یافتہ عیسائی کلیساؤں سے بھی زیادہ آزاد خیال دکھائی دیتا ہے۔ اسلام نے پانچ صدیوں تک نوع انسانی کی آزاد انہ نشو ونما کی اعانت کی،لیکن اس کے بعد اس میں ایک رجعت پسندانہ تحریک شروع ہوگئی اور انسانی فکر کے دھارے کا رُخ یکایک بدل گیا۔ سائنس اور فلسفے سے شغف رکھنے والے لوگ دائرہ اسلام سے خارج قرار دیئے گئے۔ کیا سُنی مذہب کے لیے کلیسا ئے روم سے سبق لینا ممکن ہے؟کیا اس کے لیے یہ محال ہے کہ کلیسائے روم سے عبرت پکڑ کر اپنے آپ کو زیادہ وسیع اور اکثیر الاطراف بنائے؟ تعلیمات محمدی میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اس کو مانع ہو اسلام کا پروٹسٹنٹ مسلک اپنے ایک مرحلے میں یعنی اعتزال کے دور میں اس کی راہ پہلے ہی سے ہموار کرچکا ہے۔اہل سنّت کا عظیم مذہب اپنے پرانے طوق وسلاسل کو کاٹ کرکیوں نہیں پھینک دیتا اور آزاد ہوکر ایک نئی زندگی کا آغاز کیوں نہیں کرتا؟۔

-----------------

Related Article:

The Spirit of Islam Authored by Sayed Ameer Ali: An Introduction- Part 1 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: ایک تعارف

The Spirit Of Islam Authored By Sayed Ameer Ali: Preface – Pre Islamic Social And Religious Conditions Of The World- Part 2 سید امیر علی کی تصنیف ،روح اسلام: مقدمہ ، اسلام سے پہلے اقوام عالم کے مذہبی اور معاشرتی حالات

The Spirit Of Islam: Preface- Social And Religious Conditions Of the Aryans- Part 3 روح اسلام: بعثت اسلام کے وقت آریہ قوم کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Sayed Ammer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions Of Iran Before Islam- Part 4 روح اسلام: اسلام سے قبل ایران کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 5 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Social And Religious Conditions of the World Before Islam- Part 6 روح اسلام: اسلام سے قبل دنیا کے مذہبی ومعاشرتی حالات

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی حالت

 Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Christian World-Part 8 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 9 روح اسلام: اسلام سے قبل عیسائی دنیا کی مذہبی اور سماجی حالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Preface- Pre-Islamic Conditions of the Arabs-Part 10 روح اسلام: ماقبل اسلام عرب کی مذہبی اور سماجی حالت 

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Messenger of Allah -Part 11 روح اسلام: پہلا باب پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Prophet’s Life and Prophet-hood -Part 12 روح اسلام: رسول اللہ کی زندگی اور رسالت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit of Islam’: Chapter 1- The Revelation of the Quran and Declaration of Prophethood -Part 13 روح اسلام:نزول وحی کی ابتدا اور اعلان نبوت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 14 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 1- The Life of The Prophet and His Companions In Early Days of Islam -Part 15 روح اسلام: مکی دور میں رسول اللہ اور صحابہ کی زندگی

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 2- The Prophet’s Migration Towards Madina Part 16 روح اسلام : دوسرا باب: مدینہ کی طرف رسول اللہ کی ہجرت

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 3- The Prophet’s Life in Madina Part 17 روح اسلام : تیسرا باب: رسول اللہ کی زندگی مدینہ میں

Syed Ameer Ali Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 4- Enmity Between Quraish and Jews-Part 18 روح اسلام : چوتھا باب ،قریش اور یہود کی دشمنی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 19 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 5- The Attack of Quraish on Madina-Part 20 روح اسلام : پانچواں باب ، قریش کا مدینے پر حملہ

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 6- Mercifulness and Kindness of the Prophet Muhammad pbuh-Part 21 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام : چھٹاباب، آنحضرتؐ کی رحم دلی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 7, The Spread of Islam - Part 22 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، ساتواں باب ، اشاعت اسلام

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 8, The year of delegates - Part 23 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، آٹھواں باب ، عام الوفود

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Chapter 9, The Perfection of Muhammad’s Prophethood - Part 24 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، نواں باب ، رسالت محمدیؐ کی تکمیل

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 1, Final Chapter 10, The Subject of Caliphate - Part 25 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دسواں باب، مسئلہ خلافت

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 1, The ideal goal of Islam - Part 26 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، پہلا باب، اسلام کامثالی نصب العین

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 2, The religious spirit of Islam - Part 27 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، دوسرا باب، اسلام کی مذہبی روح

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 3, The concept of life after death in Islam - Part 28 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، تیسرا باب، اسلام میں حیات بعد الممات کاتصور

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 4, The Preaching jihad of Islam- Part 29 سید امیرعلی کی کتاب روح اسلام، دوسرا حصہ،چوتھا باب، اسلام کا تبلیغی جہاد

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 5, The status of women in Islam - Part 30 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، پانچوا ں باب ،اسلام میں عورتوں کی حیثیت

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 6, The slavery - Part 31 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، چھٹا باب، غلامی

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 7, The Political Spirit of Islam - Part 32 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، ساتواں باب، اسلام کی سیاسی روح

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 8, The Political sectarianism - Part 33 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، آٹھوا باب، سیاسی فرقہ بندیاں

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 8, The Political sectarianism - Part 34 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، آٹھوا باب، سیاسی فرقہ بندیاں

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 9, The Literary and Scientific Spirit of Islam - Part 35 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، نواں باب ،اسلام کی ادبی وسائنسی روح

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 9, The Literary and Scientific Spirit of Islam - Part 36 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، نواں باب ،اسلام کی ادبی وسائنسی روح

Syed Ameer Ali’s Book ‘The Spirit Of Islam’: Vol. 2, Chapter 9, The Rational and Philosophical Spirit of Islam - Part 37 سید امیر علی کی کتاب روح اسلام ، دوسرا حصہ، دسواں باب، اسلام کی عقلیاتی اور فلسفیانہ روح

URL: https://www.newageislam.com/books-documents/syed-ameer-ali-spirit-islam-part-38/d/124981

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..