غلام احمد پرویز
دوسری قسط
درنگاہش آدمی آب وگِل است
کاروان زندگی بے منزل است
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
باب اوّل
میکانکی تصوّر حیات
اس وقت قلم میرے ہاتھ میں
ہے ۔ اس سے میں کاغذ پر لکھ رہا ہوں۔ کاغذ میزپر رکھا ہے۔ میز کمرے میں ہے ۔کمرہ میرے
مکان کا ایک حصہ ہے مکان کھلی فضامیں تعمیر کیا گیا ہے۔
قلم ،کاغذ، میز، کمرہ،مکان،
فضا، سب مادی اشیاء ہیں ۔ اس میں کسی کو کلام نہیں ،مادّہ (Matter) کسے کہتے ہیں ،اس کی
اصل بنیاد کیا ہے؟ ان توجیہات میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ان اختلافات کے باوجود یہ
سب کو تسلیم ہے کہ مذکورہ بالا اشیاء مادی ہیں ۔کمرے کی دیوارکا پتھر ہو یا فضا کی
لطیف ہوا ،ہم ان اشیا ء کو محسوس (Perceive) کرتے ہیں۔ ہم انہیں
دیکھتے ہیں (بصارت) ’ سنتے ہیں (سماعت)’ چھوتے ہیں (لمس) ’ چکھتے ہیں (ذائقہ) سونگھتے
ہیں (شامہ) یہی ہمارے حواس (Senses) ہیں انہی حواس کے ذریعے
ہمیں مادی اشیاء کاعلم حاصل ہوتا ہے اسے حسّی علم (Perceptul
Knowledge ) کہتے
ہیں ۔
میں قلم سے لکھ رہا ہوں ۔
اس کامطلب کیا ہے؟ میں کیا کررہا ہوں ! ظاہر ہے کہ میں اپنے خیالات کااظہار کررہا ہوں۔‘‘
خیالات’’ کسے کہتے ہیں؟ جو کچھ میرے ‘‘ دل ’’ میں آتا ہے وہ میرے خیالات ہیں لیکن یہ
‘‘دل’’ کیا ہے جس سے خیالات کاتمام سلسلہ اُمنڈے چلاآرہا ہے؟ ظاہر ہے کہ ‘‘دل’’ سے
مراد گوشت کاوہ ٹکڑا (Heart) نہیں جو میرے سینے میں دھڑک رہا ہے اور سارے جسم میں خون دوڑا رہا(پمپ
کررہا) ہے‘‘ دل’’ وہ ہے جسے فلسفہ کی زبان میں (Mind) کہاجاتا ہے ۔جسے ہم
آئندہ اوراق میں ‘‘نفس’’ کی اصطلاح سے تعبیر کریں گے۔ یہ (Mind) یا نفس کیا ہے؟ یہ ہے
وہ سوال جہاں سے اس نہج فکر (فلسفہ) کی ابتداء ہوتی ہے جسے مادیّت(Materialism) کہتے ہیں۔
فلسفہ مادّیت: فلسفہ مادّیت
کی جامع تعریف (Definition) مشکل ہے اور مختصر الفاظ میں یہ بتانابھی ناممکن کہ اس تصوّر کے اجزائے
ترکیبی کیا ہیں۔ اس لئے کہ یونانی فلاسفر دیمقریطس(Born
470 B.C)(Democritus) سے لے کر اس وقت تک اس مکتب خیال کے ائمہ فکر نے اس باب میں اس قدر
متنوع تصّورات پیش کئے ہیں کہ جب تک ان سب کوسامنے نہ لایا جائے یہ سمجھا (یا سمجھایا)
نہیں جاسکتا کہ فلسفہ مادّیت کا جامع طور پر مفہوم کیا ہے ۔چونکہ اس قسم کا فلسفیانہ
استقضاء اس کتاب کا مقصود نہیں’ اس لئے ہمیں ان تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ، ہم
مختصر الفا ظ میں صرف اسی قدربیان کریں گے جس قدر موضوع کے لئے ضروری ہے۔
مادیئین کاابوالآباء دیمقر
یطس کو قرار دیا جاتا ہے اور اس کے مکتب فکر کا نام نظریہ جوہریت (Atomism) رکھا گیا ہے۔اس لئے
کہ اس کا خیال تھا کہ تمام کائنات ان اجزا (Atoms) سے بنی ہے جن کی مزید
تقسیم ناممکن ہے۔ اسی اعتبار سے ایٹم کو جزولایتجزیٰ( Indivisible
Unit) کہتے
ہیں اس نظریہ کی رو سے یہ تسلیم کیا جاتا تھا کہ :
(1) یہ تمام لایتجزیٰ اجزاء (Atoms) مادّی ہیں
(2) ہر شے انہی ذرّات سے مرکّب ہے۔
(3) جب یہ باہم مل کر کسی شے کو ترتیب دیتے ہیں تو ان کے درمیان خلا(Empty
Space) رہ
جاتی ہے۔
(4) یہ ذرّات ناقابل فنا( Indestructible) ہیں
(5) یہ ہمیشہ سے حرکت میں ہیں اور ہمیشہ حرکت میں رہیں گے
(6) نفس انسانی بھی انہی اجزاء سے مرکّب ہے اور انسانی فکر (Thought) ان اجزاء کی طبعی ترتیب
سے ظہور میں آتا ہے۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ؔ
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے (HISTORY OF WESTERN PHIL
OSOPHY BY RUSSEL)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونان ہی کا ایک دوسرا مفکّر
ہر قلیطس (Heraclitus) ہے جو کائنات کے مادّی تصوّر میں سب سے آگے ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ زیادہ
(Time) ہی سب کچھ پیدا کرتاہے اور وہی فنا کرتاہے۔۔۔۔ جو چیزیں ہم حواس کے
ذریعے محسوس کرسکتے ہیں انہی کی کچھ قیمت ہے۔۔۔۔ یہ دنیا جو سب کے لئے یکساں ہے نہ
کسی آدمی کی بنائی ہوئی ہے نہ دیوتاؤں کی ۔ یہ ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی۔( Mysticism
and Logic)(By Russell:pp-9-10)یعنی دنیا صرف عالم محسوسات کانام ہے۔ جو کچھ ہمارے حواس کی زد میں
نہ آسکے اس کی کوئی قیمت ہی نہیں ۔دنیا ہمیشہ سے چلی آرہی ہے۔زمانہ کے حوادث اشیاء
کو فنا کردیتے ہیں اور زمانہ ہی اشیاء کا خالق ہے۔ یہ خالصتاً وہ نظریہ ہے جسے دہریت
کہا جاتا ہے ۔یہاں تک تو طبیعیات (Physics) کا دائرہ تھا۔ اس کے
بعد اس طبیعیاتی بنیاد پر ایک فلسفہ کی عمار ت قائم کی گئی۔ اس فلسفہ کو سمجھنے کے
لئے چندتمہیدی الفاظ ضروری ہے۔
فلسفہ غایات: میں پانی پیتا
ہوں تاکہ میری پیاس بجھے ۔زید دولت جمع کر تا ہے تاکہ وہ اس کی ہے کسی مقصد (Purpose) کے حصول کے لئے کرتاہے
۔ یعنی انسانی عمل کا جذبہ محرّکہ وہ مقصد ہوتا ہے جسے انسان حاصل کرناچاہتا ہے ۔ فلسفہ
کی زبان میں اسے (Teleology) یا ‘‘فلسفہ غایات’’ کہتے ہیں ۔یعنی ہر عمل کا جذبہ اس غایت (آخری
مقصد) کا حصول ہوتا ہے جس کے لئے وہ عمل ظہور میں آتا ہے۔ اسی نظریہ کی رُو سے یہ ماناجاتا
ہے کہ کائنات کی وہ تمام عظیم الشان محیّر العقول مشینری ایک مقصد کے حصول کے لئے سرگرم
عمل ہے اور وہ مقصد (یا منزل) اس کے لئے متعیّن کردی گئی ہے۔ کائنات میں (Purpose) ہے اور(Purpose) کا موجود ہونا اس حقیقت
کی دلیل ہے کہ اس غایت (Purpose) کی متعیّن کرنے والی ہستی سلسلہ کائنات کوکسی عظیم حکمت کے ماتحت
وجود میں لائی ہے۔
اب دوسری مثال لیجئے ۔ میں
کسی مشین کے مینڈل کو گھماتا ہوں اورمشین کے پرُزے حرکت میں آجاتے ہیں۔یعنی ان پرزوں
کی حرکت کا سبب (Cause) وہ قوّت ہے جو پیچھے سے مینڈل گھمارہی ہے وہ قوّت اس حرکت کی علّت
(Cause) ہے ۔ اور ان پرُزوں کی جنبش اس علّت ( Cause) کی معلول(Effect) ہے۔ نہ پرُزوں کو معلوم
ہے کہ ہم کیوں گردش کرتے ہیں او رنہ مشین کو اس کا علم کہ میری حرکت یا وجود کامقصد
کیا ہے۔ان کا کام ہینڈل کی حرکت سے گھومتے جانا ہے ۔ اس نظریہ کو میکانکی (Mechanistic)کہتے ہیں ۔ اس فلسفہ
کی رو سے سمجھا یہ جاتا ہے کہ کائنات کا تمام سلسلہ علّت اور معلول (Cause
and Effect) کی
میکانکی حرکت سے سرگرم عمل ہے۔ کائنات کسی نہ کسی طرح یونہی وجود میں آگئی ہے اور اب
میکانکی طور پر حرکت میں ہے۔ نہ اس کے پیچھے کوئی باشعور ہستی کار فرما ہے، نہ اس کے
سامنے کوئی مقصد یا منزل ہے ۔یہ نظریہ غایت (Purpose)کی نفی کرتاہے۔
ویمقریطس اور اس کے مکتب فکر
کے دیگر ارباب نظر میکانکی نظریہ کائنات کے حامل تھے۔ وہ کہتے تھے کہ جس طرح ایک مشین
متعیّن قواعد کے ماتحت نقل و حرکت کرتی جاتی ہے اسی طرح یہ تمام کائنات قوانین فطرت
(Natural Laws) کے ماتحت سرگرم عمل ہے ۔ اس سلسلہ نقل و حرکت میں ہر عمل پیچھے سبب
(Cause) کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جس طرح ہم دیا سلائی کی سینک کومسالہ پر رگڑنے
سے پہلے یہ بتا سکتے ہیں کہ اس رگڑ کا نتیجہ ہوگا، اس طرح ہم کائنات کے (Causes) سے یہ بتاسکتے ہیں کہ
ان کے نتائج (Effects) کیا ہوں گے۔
جبریہ: ہمارا حساب اگر درست
ہے تو ہم ہزار سال پہلے بتا سکتے ہیں کہ فلاں دن ،فلاں وقت سورج گہن میں آجائے گا
۔ اس لئے کہ یہ سب کچھ میکانکی طور پر (Mechanically) ہورہاہے ۔ اس اعتبار
سے ان ماہرین سائنس اورفلاسفہ کو جبریہ(Determinists)کہا جاتاہے۔
ویمقریطس کے بعد آج تک اس
میکانکی تصوّر حیات میں کیا کیا تبدیلیاں ہوئیں اور اس کے متعلق کس کس نوعیت سے بحثیں
کی گئیں۔ یہ تفصیلات ہمارے موضوع سے خارج ہیں ۔ہمارے لئے اس قدرسمجھ لینا کافی ہوگاکہ
مادئیین اس تصوّر کو محض کائنات کی تخلیق ( Creation) تک ہی محدود نہیں رکھتے
بلکہ کائنات اورانسان سے متعلق تمام مسائل کا حل اسی نقطہ نگاہ سے دریافت کرتے ہیں۔
(Ernst Haeckel) لکھتا ہے کہ کائنات سات معمّوں میں سمٹ کرآجاتی ہے۔
ہیکل کے سات معمّے: (1)ماہیت
مادہ اورتوانائی (2) مبداء حرکت (3) مبداء حیات (4) ربط اشیائے فطرت (5) مبداء شعور
(6)مبداء فکر ولِسان اور (7) انسانی اختیار کامسئلہ ،ہیکل کے نزدیک پہلے چھ معمّّے
دو بنیادی اصولوں کے ماتحت حل ہوجاتے ہیں۔ اوّل یہ کہ‘‘مادہ اور توانائی غیر متبدّل
ہیں’’۔ اور دوم یہ کہ ‘‘ کائنات میں عمل ارتقاء جاری ہے جس سے مفہوم یہ ہے کہ غیر شعور
اور غیر ذی حیات مادہ سے ارتقائی طور پر زندگی اور شعور پیدا ہوجاتے ہیں’’ باقی رہاساتواں
معمّہ( انسانی اختیار و ارارہ کامسئلہ)تو ‘‘ یہ سوال ایسا ہے ہی نہیں کہ اسے کسی سائنٹیفک
تحقیق کا موضوع بنایا جائے کیونکہ اس کی بنیاد ایک عقیدہ پر ہے جو وہم کا پیدا کردہ
ہے۔ اس کا حقیقی وجود ہی نہیں’’۔
(The Riddle of the Universe:pp 12-13)ہیکل کی اس تحقیق کی
رو سے شین گے الفاظ میں’بات یوں ہوئی کہ زندگی ۔(Protoplasm) کی توانائی کا نام ہے۔
نفس غیر شعوری (Psycholasm) کی توانائی کا نام ہے۔اور شعور انسانی دماغ کے مراکز (Associative
Centres of Brain)
کی قوّت کا نام ہے۔ یعنی انسانی نفس (Mind) ،توانائی کے سوا اور
کچھ نہیں، (Philosophy of Religion: p.59)شعور (Consciousness)کے متعلق ہیکل نے واضح
طور پر لکھ دیا ہے کہ یہ انسانی دماغ کے طبعی افعال کا نیتجہ ہے(49)اور اس نتیجہ پر
صرف ہیکل ہی نہیں پہنچا بلکہ سائنٹیفک مادیت کے تمام علمبردار اس باب میں متفق۱ ۔ اسی طرح اس باب میں بھی
کہ مادہ قدیم ہے اور ناقابل فنا۔ (Sheen: p.53) مادیت کے متعلق (Chapman
Cohen) نے
ایک مختصر لیکن بڑی جامع لکھی ہے (Materialism Restated) اس کتاب میں اس نے مادّیت
کے متنوع گوشوں کی تفاصیل بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اگر اس تفصیل بحث کوسمٹا یا
جائے توکم از کم تین خصائص ایسے ہیں جو مادیت کے لئے لازمی ہیں اوروہ تین خصائص حسب
ذیل ہیں۔
فلسفہ مادیّت کا ماحصل:
(1) سلبی اعتبار سے مادیّت کی تعریف یہ ہے کہ وہ کسی مافوق الفطرت قوّت کو تسلیم نہیں
کرتی ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ظہور پذیر ہوتا ہے وہ کسی آزاد روحانی یا
نفسی قوت کے ارادہ کے ماتحت وقوع پذیر نہیں ہوتا بلکہ قوائے فطرت کے امتزاج کانتیجہ
ہوتا ہے ۔
(2) دوسری طرف مادیت ایجابی طور پر یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ اس طریق
کے متعلق سب کچھ جانتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
دیکھئے ( GUIDE TO PHILOSOPHY BY.C EM JOAD)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس سے حوادث کا ظہور ہوتا
ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ نظریہ مادیت کی رو سے کسی ایک معین وقت پر کائنات کی جو کیفیت
ہوتی ہے وہ اس کیفیت سے پہلے کی قوتوں کے امتزاج اورتقسیم کالازمی نیتجہ ہوتی ہے۔ اس
سے یہ عقیدہ بھی لازم آتاہے کہ کائنات میں نہ کوئی نیا عنصر یا نئی قوت وجود میں آتی
ہے( اورنہ ہی ایسا ہوسکتا ہے) اورنہ ہی اس قسم کاکوئی عنصر یا قوت خارج سے کائنات میں
داخل ہوتی ہے۔ اس لئے ہم جس چیز کا نام ایک ‘‘نیاعنصر ’’ رکھتے ہیں وہ موجود ہ قوتوں
کی ایک نئی ترتیب کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ مادّیت کے اِدّعا کو جبریت (Determinism) یامیکانکیت (Mechanism) یا میکانکی جبریت (Mechanistic
Det erminism) کہتے
ہیں۔
(3) تیسرے یہ کہ کائنات میں جو کچھ موجود ہے وہ اپنی اصل کے اعتبار
سے مادہ ہی ہے۔ اس کے ماورا اور کچھ نہیں۔
مادیت کے ان امتیازات ثلاثہ
کو بنگاہِ تعمق دیکھنے سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس تصور کائنات کی رو سے (i ) نفس انسانی (Mind) کا کوئی مستقل وجود
نہیں۔ یہ صرف دماغ کے مادّی خلیات ہی کی کرشمہ زائیاں ہیں۔(ii) کائنات میں تخلیق (Creation ) کاعمل جاری ہے۔ کچھ
توانائی (Energy)کسی طرح سے ظہور میں آگئی ہے۔ اب وہی توانائی اپنی ترتیب بدلتی رہتی
ہے او راسی تبدیلی ترتیب کانام ‘‘حوادث یاتغیّرات ’’ ہیں ۔ اورتیسرے یہ کہ سب کچھ اس
طرح ہورہا ہے جیسے کسی نے ایک گھڑی کو کوک دیا ہو اور اس کے بعد وہ اپنے زورِ دروں
اور پرزوں کی میکانکی حرکت سے خود بخود چلتی ہے۔
اس بحث کو اورزیادہ سمٹا یا
جائے تو مادّیت سے مفہوم یہ رہ جاتاہے کہ کائنات کی ہر شے اپنی اصل کے اعتبار سے مادی
ہے۔مادہ ہی جوہر حقیقی (Real Substance) ہے۔ اس کے سوا حقیقت (Reality) کا تصور کچھ نہیں ۔
حتیٰ کہ نفس انسانی بھی مادہ ہی کے اثر کانتیجہ ہے۔۱
اور جب انسانی نفس بھی مادہ
ہی کے ترتیبی اثر کا پیدا کردہ ہے تو ظاہر ہے کہ اس نظریہ کی رو سے بقائے روح یا حیات
بعد المحات کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ان کے نزدیک۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
(PHILOSOPHY OF RELIGION BY BRIGHTMAN: p.38)
۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کیا ہے؟ عناصر میں ظہور
ترتیب
موت کیا ہے؟ انہی اجزاء کا
پریشاں ہونا
فرائڈ کے الفاظ میں زندگی
کا منتہیٰ موت ہے
(QUOTED BY HARRY SLOCHOWER IN''NOVOICES IS
WHOLLY LOST'')
چنانچہ ہیکل لکھتا ہے کہ روح
(SOUL) کا تصور سراب سے بڑھ کر کچھ نہیں اورجب اس کا تصور ہی فریب نفس ہے
تو اس کی بقا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جسم انسانی کی مشین دماغ اور اس سے متعلقہ
اعصاب کے عمل سے حرکت میں رہتی ہے او ردماغ کے عمل کے خاتمہ پر یہ حرکت بھی ختم ہوجاتی
ہے ۔عناصر کی ترتیب (INTERGRATION) کا نام زندگی ’ شعور’نفس’ روح سب کچھ ہے اور ان کے انتشار (DISINTEGRATION) کا نام فنا۔ اس سے زیادہ
سب کچھ افسانہ ہے اور ذہن انسانی کے تراشیدہ توّہمات (دیکھئے ہیکل باب ‘‘بقائے روح’’)
آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ‘ جیسا
کہ ہم نے شروع میں لکھا ہے ،مادیت کا اصل سوال سمٹ سمٹاکر اس نقطہ پر آجاتا ہے کہ کیا
نفس انسانی (HUMAN MIND) اپنا خارجی ،مستقل ،آزاد وجود رکھتا ہے یا یہ محض طبعی جسم(PHYSICAL
BODY) ہی
کے عمل کانتیجہ ہے۔ اگر یہ طبعی جسم کے عمل کا نتیجہ ہے تو پھر جسم کے طبعی افعال کے
خاتمہ پر نفس انسانی کا بھی خاتمہ ہوجانا چاہئے۔
نفس انسانی کامسئلہ: جب مشین
چلنے سے رک جاتی ہے تو اس کا ہر ایک پرزہ ساکن ہوجاتا ہے اور اس کے بعد وہ مشین وہ
کچھ پیدا ہی نہیں کرسکتی جو اس کے چلنے سے پیدا ہوتا تھا بجلی پیدا کرنے والی مشین
(GENERATOR) کو بند کردیجئے ،بجلی کی لہریں ختم ہوجائیں گی۔لہٰذانظریہ مادیت کی
روسے نفس انسانی کا مسئلہ بآسانی طے ہوجاناچاہئے ۱ ۔ اس لئے اس نظریہ کے حاملین
کو ذرازیادہ سوچنا پڑا ہے۔
کسی عام آدمی سے پوچھئے ۔وہ
نہایت سادگی (لیکن پورے جسم ویقین) سے کہہ دے گا کہ انسانی جسم کے اندر ایک اور شے
ہے جسے روح کہتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
واضح رہے کہ اس باب میں ہم صرف نظریہ مادیت کوبیان (STATE)کررہے ہیں اس پر کوئی
تنقید نہیں کررہے ہیں ۔تنقید آیندہ ابواب میں چل کر ہوگی اس وقت صرف دیکھئے کہ نظریہ
مادیت ’ خود مادیئین کے الفاظ میں ہے کیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو کچھ انسان کرتا ہے یہ سب
روح کے کرشمے ہیں۔ مرنے کے بعد انسان کاجسم گل سز جاتاہے ( اسلئے کہ یہ اس شخص کا روز
مرہ کا مشاہدہ ہے) لیکن اس کی روح جسم سے نکل کرکہیں اور چلی جاتی ہے ۔ یہ روح کیا
ہے؟ کہاں سے آتی ہے؟ مرنے کے بعد کہاں چلی جاتی ہے ؟ ان سوالات کی گہرائیوں سے اسے
کچھ واسطہ نہیں ہوگا۔ وہ ان کا جواب ان عقائد کے مطابق دے گا جو اس نے اپنے مذہب کی
رو سے قائم کر رکھے ہیں ۔ ایک مادہ پرست (MATERIALIST)اس پر ہنس دے گا۔لیکن
اس ضمن میں کچھ سوالات ایسے بھی سامنے آئیں گے جس کا تسلّی بخش جواب دینااس کے لئے
بھی مشکل ہوجائے گا۔ مثلاً میں یہاں بیٹھا سوچ رہا ہوں۔ میرا دل مختلف خیالات کا ایک
بحر بیکراں ہے۔ کبھی اس میں امیدوں کی حسین جنبش پیدا ہوتی ہے،کبھی یہ نا امیدیوں کا
ماتم کدہ بن جاتاہے۔ کبھی یہ ایسے عزم فلک پیماکا گہوارہ بنتاہے جس میں اسے جبرئیل
بھی صیدِزبوں دیکھائی دیتا ہے اور کبھی یہ ایسی پست حوصلگیوں کا مدفن بن جاتاہے کہ
خود اپنی ذات بھی اس کے قبضہ واختیار میں نہیں رہتی۔کبھی اس میں انتقام اورعداوت کی
تلاطم خیزیاں برپا ہوتی ہیں اور کبھی یہ عفوومحبت کی جوئے نغمہ بار بن جاتا ہے۔یہ سب
کچھ اسی ننھے سے دل کی حدو دفراموش کائنات میں ہوتارہتا ہے جسے نہ کسی دوسرے انسان
کی آنکھ دیکھ سکتی ہے ، نہ کان سن سکتے ہیں،نہ اس کا شیر ینیوں کو کوئی زبان چکھ سکتی
ہے ،نہ اس کی ‘‘حورات فی الخیام’’ کو کوئی ہاتھ چھوسکتا ہے۔ اس کی دنیا ‘‘کمند حواس
’’ (SENSES) کی زد سے باہر ہے۔ او رچونکہ (جیسا ہم پہلے دیکھ چکے ہیں) مادّہ کہتے
ہی اسے ہیں جس کا احاطہ انسانی حواس کو کرسکیں ۔ اس لئے دل کی دنیا کو مادی دنیا نہیں
کہا جاسکتا ۔
لیکن یہ دل کی دنیا نہ تو
مادی دنیا سے بے تعلق ہے او رنہ ہی مادی دنیا اس سے غیر متاثر رہتی ہے جب آپ کے دل
میں امیدو ں کی رنگین فضائیں جلوہ بار ہوں تو ان سے پیدا شدہ‘‘ قوسِ قزح’’ اپناعکس
آپ کے چہرے پر ڈالتی ہے اور اس انداز سے ڈالتی ہے کہ ہر دیکھنے والا پہچان لیتا ہے
کہ اس وقت آپ کے دل کی کیفیت کیا ہے۔ اس کے برعکس جب آپ کادل مایوسیوں کا ماتم کدہ
بن جاتا ہے تو آپ کے چہرے کی اُڑی اُڑی سی رنگت اورڈوب ڈوب کراُبھرنے والی نبض اس داستان
غم کا ایک ایک لفظ پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے۔ جوش انتقام میں آپ کاچہرہ تمتمااٹھتا ہے۔
دوران خون تیز ہوجاتاہے۔جسم کی حرارت کا پارہ ایک آدھ ڈگری اوپر چڑھ جاتاہے ۔جذبات
کی متلاطم موجوں کے چھینٹے پسینہ بن کر ساحل جبیں تک آجاتے ہیں اورجب کبھی آپ کسی خاص
خیال میں منہمک ہوں توخود آپ کی اپنی آنکھ دیکھناچھوڑ دیتی ہے، آپ کے کان سننابند کردیتے
ہیں ۔کوئی سامنے سے گزر جائے آپ کو علم نہیں ہوتا ۔کوئی آپ کو پکارے توآپ اس کی آواز
سنتے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا رابطہ (Connection) اس باہر کی دنیا سے
غیر منقطع (Cut off) ہوگیا ہے ۔ادھر کا(Switch Off) ہے اورادھر کا (Switch
On)غرض
یہ کہ آپ کامادی جسم آپ کے دل کی کیفیتوں سے لمحہ بہ لمحہ متاثر ہوتا رہتا ہے۔ دوسری
طرف دیکھئے تو آپ کے جسم کی طبعی کیفیت آپ کے دل پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ مثلاً گرم
مسالوں کا کھانا آپ کے دل میں جذبات تہوّر پیدا کردیتا ہے ۔خشک اشیاء کا استعمال آپ
کو سریع الغضب بنا دیتا ہے ۔سوءِ ہضمی (DYSPEPSIA) آپ کے مزاج میں چڑچڑاپن
پیدا کردیتا ہے ۔قلت الدّم (Anaemia)آپ کے حوصلوں کوپست اورقوت
فیصلہ کو مفلوج کردیتا ہے یعنی ان مادّی اشیاء اور جسم کے طبعی افعال سے آپ کا دل اثر
پذیر ہوتا رہتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر
جسم اورنفس انسانی (Body and Mind) ایک ہی ہیں توپھر ان کی یہ دنیا میں مختلف کیوں ہیں۔ اور اس اختلاف
کے باوجودیہ ایک دوسرے پر کس طرح اثر انداز ہوتے رہتے ہیں؟یہ ہے وہ سوال جو مادئیین
کے لئے مشکل پیدا کر دیتا ہے ۔ وہ جسم انسانی کا تجزیہ کرکے دکھائی دیتے ہیں کہ اس
میں سب کچھ مادّی(Material) ہے ۔گوشت ،پوست، ہڈیاں ، خون ،حتیٰ کہ دماغ کے خلیات (Cells) سب کا تجزیہ کردیا جاتا
ہے ۔کیمیا وی تجزیہ (Chemical Analysis) سے ان اشیاء کو مفردات
ومرکّبات (Elements and Compounds) میں تقسیم کردیا جاتا
ہے اور طبعی تجزیہ (Physical Analysis) سے انہیں ذرّات(Atoms) اوربرقیات (Electrons) تک لے جایا جاتا ہے۔
لیکن یہ مادی اشیاء دل کی کیفیات سے کس طرح اثرپذیر ہوتی ہیں۔ اور دل کی کیفیات کس
طرح ان مادی اشیاء سے متاثر ہوتی رہتی ہیں۔ یہ سوال ذرا مشکل ہے اور اس کے حل کرنے
کے لئے مادیئیں کو بڑی کاوش کرنی پڑتی ہے ۔ اس مسئلہ کو سب سے پہلے ڈیکارٹ (Descarties-1590-1650) نے فلسفیانہ حیثیت دی
۔ اس نے پہلے ہرشے کو شک کی نگاہ سے دیکھناشروع کیا اور ایک ایک چیز پر غور کر کے اس
نتیجہ پر پہنچتا گیا کہ ہمیں ان میں کسی کے متعلق بھی یقینی طور پر کچھ معلوم نہیں
ہوسکتا۔البتہ اس کائنات میں ایک شے ایسی ہے جس کاعلم یقینی ہے اوروہ شے ہے ‘‘ میں،خود’’
(I--Myself) اورانا (1) کی ہستی کاثبوت یہ ہے کہ ‘‘میں’’ صاحب شعور ہے۔ ڈیکارٹ
کے اس نتیجہ فکر نے اس کے مکتب خیال میں ایک اصول اساسی کی حیثیت اختیار کرلی اور
(I Think, Therefore I am) کو بطور ایک مسلمہ تسلیم کرلیا گیا۔ اسی سے یہ نتیجہ مرتّب ہوا کہ
خدا نے مادہ اورنفس انسانی کو الگ الگ پیدا کیا ہے۔
جسم اور نفسِ انسانی:دونوں
کی دنیا ئیں الگ ہیں ۔ دونوں کی روشیں الگ، لیکن یہ دونوں روشیں ایک دوسرے کے متوازی
چلتی ہیں۔ جب میں لیٹنے کاارادہ کرتا ہوں تویہ میرے نفس کافعل ہوتا ہے۔ لیکن اس کے
ساتھ ہی میرا جسم چار پائی پر دراز ہو جاتا ہے۔ یہ مادی جسم کا فعل ہے اس لئے نفس اور
مادی جسم کے یہ افعال متوازی خطوط پر چلتے ہیں ۔ اس متوازیت کا نام شروع میں (Occasionalism) تھا ۔ لیکن انیسویں
صدی میں اسے‘‘طبعی ’ نفسیاتی متوازیت’’( Psycho. Physical
Parallelism) سے
تعبیر کیا گیا۔ اس نظریہ متوازیت میں سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ نفس انسانی یا جسم انسانی
(بایوں کہئے کہ غیر مادی نفس اور مادی اشیاء) میں متوازیت (یعنی ایک کے عمل سے دوسرے
میں متوازی عمل کا پیدا ہوجانا) کس طرح رونماہوتی ہے؟ ڈیکارٹ نے اس کے جواب میں کہ
ان دونوں میں یہ رابطہ خدا کی قوت سے پیدا ہوتا ہے اورخدا کی یہ قوت بلا دلیل مانی
جاتی ہے۔ اس کے متعلق ہماراعلم قیاسی یا استخراجی(A
Priori) ہے
لیکن ڈیکارٹ کی یہ توجیہہ اکثر قلوب کو مطمئن نہ کرسکی۔ انہوں نے کہا کہ فلسفہ یا طبعیات
میں منطق (Logic) یا علّت ومعلول(Cause and Effect) سے ماوراء کوئی دلیل
قابل قبول نہیں ہوسکتی، اس لئے ڈیکارٹ کا نظریہ بطور مسلّمہ نہیں مانا جاسکتا ۔ چنانچہ
اس کے بعد انہوں نے ان خطوط پر سوچناشروع کیا کہ اگر جسم اورنفس (Body
and Mind) دومختلف
چیزیں نہیں توپھر (1) یا تو نفس انسانی خود جسم ہی کی پیداوار ہے اور یا (2) جسم انسانی
نفس ہی کی کرشمہ زائی ہے۔ مادیئین نے اوّل الذکر مسلک اختیار کرلیا اور ثانی الذّکر
مکتب فکر، تصوریت(Idealism) کے نام سے متعارف کرلیا۔
فلسفہ تصوریت: مزید غور وفکر
کے بعد مادئیین میں ایک اور گروہ پیدا ہوگیا جس نے ایک جہت سے متشدّد میکانکی نظریہ
سے ذرا الگ ہٹ کر ایک نئی روش اختیار کی۔ اس گروہ کا خیال ہے کہ انسانی نفس (یعنی مبداء
فکر وشعور) انسانی دماغ ہی کی پیدا وار ہے لیکن یہ غیر مادّی حیثیت رکھتا ہے ۔بایں
ہمہ’ اس نفس انسانی میں کوئی خیال ایساپیدا نہیں ہوسکتا جس کی تحریک مادی دماغ سے نہ
ہوئی ہو۔ اس اعتبار سے نفس انسانی ،مادی جسم سے متاثر ہوتا ہے۔ لیکن مادی جسم نفس انسانی
سے اثر پذیر نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے کہ (جیسا اوپرلکھا جاچکا ہے) نفس انسانی کی حرکات(
Activities) دماغ کی حرکات کی رہین
منت ہیں، البتہ یہ ممکن ہے کہ جب ایک مرتبہ دماغ کی کسی حرکت سے نفس انسانی میں کوئی
خیال پیدا ہو جائے تو اس کے بعد یہ خیال ایسے حوادث(Events) پیدا کرتا چلاجائے جن
کا تعلق مادی جسم سے نہ ہو۔مثلاً (وہ کہتے ہیں کہ) دماغ کی اعصابی حرکت سے نفس انسانی
میں حرکت پیدا ہوئی جس سے کسی شے اور اس کے حصول کا خیال افق قلب سے اُبھرا ۔ اس کے
بعد اس خیال نے انسانی نفس میں تصوّرات (Mental Images) کاایک تانتاباندھ دیا۔
یہ تصوّرات دماغی حرکت کے بغیر پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذااتنی حد تک نفس انسانی حوادث کو
خود بھی پیدا کرسکتا ہے۔لیکن وہ ان حوادث سے جسم انسانی (Body) کو متاثر نہیں کرسکتا۔
اس نظریہ کا نام (Epiphenome Nalism) ہے اس کی رو سے۔
(1) نفس انسانی اگرچہ مادہ کی پیدا وار ہے لیکن وہ اپنی جداگانہ ہستی
رکھتا ہے۔
(2) مادی ، جسم نفس انسانی کو متاثر کرتا ہے لیکن نفس انسانی مادی جسم
پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔
(3) کائنات میں ایسے حوادث بھی ہوسکتے ہیں جو نفس انسانی کی تخلیق ہیں
اگرچہ یہ حوادث جسم انسانی کو متاثر نہیں کرسکتے۔
لیکن اگر آپ ذرا تعّّمق سے
دیکھیں گے تویہ حقیقت نکھر کرسامنے آجائیگی کہ نظریہ بھی اصل مسئلہ حل نہیں کرسکا۔
جو انسانی نفس مادی جسم کو متاثر نہیں کرسکتااس کی جداگانہ ہستی کیا معنی رکھتی ہے؟
یہ تو وہی خالص مادّیت ہے جس کی رُوسے انسانی اعمال میں نفس (Mind) کا کوئی دخل نہیں اور
یہ اعمال مادی سلسلہ علّت ومعلول (Material Casuality) کے نتائج ہوتے ہیں۔
اسے ایک مثال سے سمجھئے ۔میں ننگے پاؤں چلاجارہا ہوں ۔ پاؤں کے نیچے آگ کی ذراسی چنگاری
آجاتی ہے۔ میرا پاؤں تڑپ کر اُٹھ جاتا ہے( اسے (Reflex
Action) کہتے
ہیں۔ (جیسے جب کوئی شخص اپنی انگلی آپ کی آنکھ کی طرف برھائے تو آپ کی آنکھ جھٹ سے
بند ہوجاتی ہے)دوسری طرف یہ مثال لیجئے کہ چلتے چلتے میرے جوتے کا تسمہ کھل جاتا ہے’
میری نگاہ اس پر پڑتی ہے میں ٹھہرجاتا ہوں ۔پاؤں اٹھاتا ہوں اور تسمہ باندھ کر پھر
چلنے لگ جاتا ہوں ۔ظاہر ہے کہ اس طرح پاؤں اٹھانے اور اس طرح پاؤں کے اٹھنے میں بڑافرق
ہے۔ وہ جنبش بلا ارادہ تھی یہ بالارادہ ہے۔ لیکن مادئیین کہتے ہیں کہ نہیں ! دونوں
مرتبہ پاؤں کی جنبش یکساں محرکات کا نتیجہ تھی۔ پہلی بار جب پاؤں کے نیچے آگ کی چنگاری
آئی ہے تو پاؤں کے اعصاب نے حرارت کے احساس (Sensation
of Heat) کو
فوراً دماغ تک پہنچایا۔دماغ اعصاب نے نفس (Mind) میں حرکت پیدا کی اور
نفس انسانی نے پاؤں کے عضلا ت کو اوپرکھینچ لیا او ر یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوگیا
کہ شعور (Consciousness) کو اس کا احساس بھی نہیں ہوا ۔ دوسرے حادثے میں آنکھ نے کھلا تسمہ
دیکھا ۔اس نے یہ رپورٹ دماغ تک پہنچائی۔دماغ نے نفس انسانی کے تارکھٹکھٹا ئے اور نفس
انسانی نے پاؤں اٹھوا کر تسمہ بندھوا دیا۔ لہٰذادونوں حوادث طبعی محرکات کی رُو سے
ظہور پذیر ہوتے لیکن اس کے خلاف یہ سوال پیدا ہوا کہ تسمہ کھلنے کی صورت میں ایسابھی
ہوتا ہے کہ میرا دل(نفس انسانی) یہ فیصلہ کرتا ہے کہ تسمہ ابھی باندھ لیناچاہئے اورکبھی
ایسا ہوتا ہے کہ وہ کھلا ہوا تسمہ بار بار دیکھتا ہے لیکن وہ بعض مقتضیات (Considerations) کے ماتحت یہ فیصلہ کرتا
ہے کہ اسے ابھی باندھنے کی ضرورت نہیں اور میں اسی حالت میں چلے جاتا ہوں ۔ یہ ظاہر
ہے کہ اب بھی آنکھ اپنی رپورٹ دماغ تک پہنچا رہی ہے، دماغ اب بھی نفس انسانی کے تارکھٹکھٹا
رہا ہے۔ لیکن نفس انسانی فیصلہ کرتا ہے کہ ابھی اس رپورٹ پر کوئی(Action)نہیں لینا چاہئے ۔نفس
انسانی کا یہ فیصلہ تو مادّی دماغ کی کسی حرکت کا نتیجہ نہیں یہ قوت کہاں سے آگئی۔
واٹسن کا نظریہ: یہ سوال علم
النفس (Psychology) سے متعلق تھا۔ علم النفس میں متشدّد مادیّت کا ترجمان نظریہ (Behaviourism) ہے جس کا امام ڈاکٹر
واٹسن ہے۔ ڈاکٹر واٹسن نے مدّت العمر انسانی اورحیوانی بچوں کے عادات وخصائل کامطالعہ
کیا جس کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ جسے ہم نفس انسانی کا فیصلہ (Choice) کہتے ہیں ، وہ درحقیقت
آزادفیصلہ نہیں ہوتا بلکہ مجموعی نتیجہ ہوتا ہے، ان تمام محرکات (Stimulii) کا جو بچے کے ذہن پر
اثر انداز ہوتے رہتے ہیں اور جن سے اس کی عادات وخصائل مرتب ہوتے ہیں۔ بچے کوبھوک لگتی
ہے تو دودھ کی بوتل اس کے سامنے لائی جاتی ہے ۔ اس عمل کو بار بار دہرانے سے بچے کے
ذہن میں بھوک او ربوتل میں ایک تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔ جب اس کے سامنے بوتل آتی ہے تو
اسے دیکھتے ہی اس کے جسم میں وہ تمام طبیعی عمل شروع ہوجاتا ہے جو بھوک کے احساس یا
غذا کے حصول اورہضم کی صورت میں ہوتا ہے ۔پھر جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو آپ بوتل سامنے
لاتے وقت اس کا نام (بوتل) بھی پکارتے ہیں۔اس سے اس کے ذہن میں لفظ بوتل اور بھوک میں
وہی تعلق پیدا ہوتا ہے جو اس سے پہلے خود بوتل سے پیدا ہوتا تھا۔اب اس لفظ سے اس کے
جسم میں وہی کیفیات پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہیں جو دودھ کی طلب یا دودھ پینے سے پیدا
ہوتی تھیں۔ ان الفاظ سے ذہن میں تصورات (Concepts) پیدا ہوتے ہیں ۔ ان
سب کے مجموعہ کا نام انسان کے عادات و خصائل ہیں۔ پھر یہ عادات و خصائل نسلاً بعدنسل
بطور وراثت منتقل ہوتے رہتے ہیں او راس طرح غیر شعوری طور پر مسلمات یا معتقدات کی
شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ بنا بریں جس چیز کو عام طور پر نفس انسانی کا فیصلہ کہا جاتا
ہے وہ رخصت فیصلہ نہیں ہوتا، ان ہی محرکات کا طبعی نتیجہ ہوتا ہے۱ ۔ علم النفس کی یہ شاخ درحقیقت
علم تجزیہ نفس (Psycho-Analysis) ہی سے متعلق ہے جس کی رو سے تمام فیصلے غیر شعوریہ (Un-
Conscious Mind)
کی مملکت سے نافذ ہوتے ہیں۔ جو مجموعہ ہوتا ہے وراثت ،ماحول ، ابتدائی تعلیم اور دبی
ہوئی آرزوؤں یا خوں گشتہ تمناؤں کا انسانی شعور (Consciousness) کا ان میں کوئی دخل
نہیں ہوتا۔ اس شاخ کے ائمہ فکر فرائڈ ، ایڈلر اور یُنگ ہیں۔ (تفصیل کے لئے معارف القرآن
جلددوم ملا حظہ مائیے۔ جس کا دوسرا نام ‘‘ابلیس وآدم’’ ہے) ڈاکٹر واٹسن کے نزدیک یہ
بحث ہی بے معنی ہے کہ نفس انسانی (Human Mind) الگ مستقل وجود رکھتا
ہے یا نہیں ۔ اس لئے کہ وہ اپنا الگ مستقل وجود رکھے یا نہ رکھے ۔ جب وہ انسانی معاملات
میں آزادانہ دخل ہی نہیں دے سکتا تو اس کا عدم اور وجود برابر ہے۔ تمام انسانی اعمال(
Human
Activities) سلسلہ
علّت و معلول کا یقینی او رلازمی نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس لئے حیات کا میکانکی نظریہ ہی
اس قابل ہے کہ اسے بطور حقیقت ثابتہ تسلیم کرلیا جائے۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے (BEHAVIOURISM BY J.B
WATSON)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میکانکی نظریہ حیات کا حاصل:اس
مقام تک ہم دیکھ چکے ہیں کہ میکانکی نظریہ زندگی کی رُو سے۱۔
(1) انسانی نفس اپنا جداگانہ وجودنہیں رکھتا۔یا تو اس کی کوئی ہستی(Existence) ہی نہیں اوراگر یہ اپنی
کوئی ہستی رکھتاہے تو بہر حال مادہ ہی کی پیدہ کردہ ہے۔
(2)انسانی نفس اگرموجود ہے تو بھی وہ انسانی معاملات میں دخل انداز
نہیں ہوسکتا۔ یہ معاملات مادّی جسم کے محرکات کے ماتحت طے پاتے رہتے ہیں ۔ خود وہ محرک
جذبہ فوری (Immediate) اور بلا واسطہ (Direct) ہو اور خواہ کسی سابقہ
جذبہ کانتیجہ یا مختلف جذبات کا مجموعی اثر (Accumulative
Effect) ہو
اور ان کا اثر بالواسطہ (Indirect) ہو۔
(3) یہ سب کچھ طبیعی قانون علّت و معلول کے ماتحت میکانکی طور پر ظہور
پذیر ہوتارہتا ہے۔
(4)اس لئے انسان صاحب اختیار و ارادہ نہیں ۔میکانکی قوانین کی محسوس
وغیر محسوس زنجیروں میں جگڑا ہوا ہے۔
اس وقت تک ہم نے میکانکی نظریہ
کائنات کے متعلق جو بحث کی ہے وہ بیشتر مائیین کے طبیعاتی تجارب (Physical
Experiments) یا
نفسیاتی مشاہدات (Psychological Observations) سے وابستہ تھی۔ لیکن
انیسویں صدی میں حیاتیاتی تحقیقات (Biological Researches) نے اس کی تائید میں
مزید دلائل بہم پہنچا دئے اور اس کے بعد حیاتیات نے اس باب میں بڑی اہمیت حاصل کرلی
۔
علمائے علم الارض کا خیال:
اس کے ساتھ علم الارض (Geology) نے بھی نگاہ کا رخ اسی طرف پھیر دیا۔ علم الارض کی رو سے ہمارا کرّہ
زمین کسی زمانہ میں اس قدر گم تھا کہ اس وقت کاس پر کسی زندہ چیز کی موجودگی کا تصور
ہی نہیں ہوسکتا۱۔
لہٰذا زندگی(Life) کرّہ زمین کے آنے کے ساتھ ہی موجود نہ تھی ۔بلکہ بعد کی پیداوار تھی،جب
زمین حرارت اتنی کم ہوئی کہ اس پر زندہ رہناممکن ہوگیا۔ ان کی تحقیقات کے مطابق زمین(
اور اس کے ساتھ ہی سورج ) کی حرارت دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔ حتیٰ کہ (ان نظریہ کی
رُو سے) ایک دن ایسا آجائے گا جب زمین کی تمام حرارت ضائع ہوجائے گی اور جس طرح شروع
میں زمین حرارت کی شدّت کی وجہ سے اس قابل نہ تھی کہ اس پر کوئی شے زندہ رہ سکے، اسی
طر ح آخر الامرسردی کی شدّت کی وجہ سے ایسی ہوجائے گی کہ اس پر زندگی محال ہوجائیگی۔
لہٰذا ان کے نزدیک یہ تمام سلسلہ کائنات (جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے) ایک بہت بڑے
کلاک (Clock) کی طرح ہے جسے کسی وقت کوک دیا گیا تھ ا۔ اب رفتہ رفتہ اس کا فنر(Spring) کھلتا جارہا تھا۔ حتیٰ
کہ ایک دن ایسا آجائے گا کہ جب یہ اسپرنگ پورے کا پورا کھل جائے گا اور کائنات کی مشین
کی حرکت خود بخود رک جائے گی ۔چونکہ ان کے نزدیک کوئی خارجی قوت ایسی موجود نہیں جو
اس فنر(Spring) کوپھر کوک دے(یا ساتھ کے ساتھ کوکتی جارہی ہو) اس لئے اس مشین میں
حرکت دوام یا دوبارہ حرکت کاامکان ہی نہیں ۔علم الارض کے اس نظریہ نے بھی میکانکی تصور
حیات کی تائید کردی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱
علمائے علم الارض کا اندازہ ہے کہ زمین کی عمر کم از کم تین ارب سال ہے اور اس کے کم
از کم دو ارب سال بعد اس پر زندگی کی نمودہوسکی ۔یعنی آج سے قریب ایک ارب سال پہلے
سطح ارض پر زندگی کی نمود شروع ہوئی تھی۔ انسانی زندگی کی نہیں بلکہ سب سے نچلی سطح
کی زندگی کی۔( Simpson ''The Mfaning of Evolution'':p.
13-14)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Part: 1 - 'What did the
man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism