New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 03:19 AM

Books and Documents ( 18 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 3, Ethics — Part 7 انسان نے کیا سوچا : باب سوم، اخلاقیات

غلام احمد پرویز

آدمی اندر جہاں خیر و شد

کم شنا سد نفعِ خودرا از ضرر

کس نداندزشت و خوب کار چیست

جاوہ ہموار و ناہموار چیست

۔۔۔۔۔۔۔

باب سوم، اخلاقیات

 (ETHICS)

‘‘جھوٹ بولنا  بُرا ہے’’

آپ یہ فقرہ ساری عمر سنتے چلے آرہے ہیں سنتے ہی نہیں’ خود بولتے چلے آرہے ہیں ۔آج بھی آپ نے صبح و شام تک سینکڑوں مرتبہ اس فقرہ کو سنا اور بیسیوں مرتبہ اسے دہرایا ہوگا۔ اس فقرہ کو ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس میں کسی کو شک وشبہہ ہی نہیں گذرا کہ جھوٹ بولنا بُرا ہے۔ لیکن آپ نے کبھی اس پر غور بھی کیا ہے کہ اس فقرہ کے کیا معنی ہیں۔ جب آپ کہتے ہیں کہ ‘‘جھوٹ بولنا بُرا ہے’’ تو آپ نے کبھی سو چا ہے کہ ‘‘بُرا ہے’’ کامفہوم کیا ہے؟ بُرا کسے کہتے ہیں ؟ اچھا کیا ہوتاہے؟ اگر آپ نے پہلے کبھی نہیں سوچا تو اب ہی سوچئے او ردیکھئے کہ اس کا کوئی واضح مفہوم آپ کے ذہن میں آتا ہے ! کتا ب کو ایک طرف رکھ دیجئے او رپھر ذرا غور سے سوچئے کہ یہ فقرہ جسے آپ عمربھر سنتے چلے آرہے ہیں اور دن میں بیس مرتبہ خود دہراتے ہیں ’ اس کا مطلب کیا ہے؟ آپ شاید یہ کہہ دی ں کہ ‘‘جھوٹ بولنا بُرا ہے اس لئے کہ اس کے نتاائج بُرے ہوتے ہیں’’۔ لیکن آپ نے مطلب بیان کرنے کے بجائے لفظ ‘‘بُرا’’ کو ایک مرتبہ پھر دہرادیا ۔

اس کامفہوم کیا ہے:۔۔۔اب آپ یہ سوچئے کہ ‘‘بُرے نتائج’’ سے کیا مفہوم ہے ۔شاید آپ کہہ دیں کہ بُرے نتائج وہ ہیں جن سے انسان کو نقصان پہنچے ۔بہت اچھا !لیکن ذرا سوچئے کہ کتنی مرتبہ آپ کو سچ بول کر نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سچ بولنے کانتیجہ بُرا ہوتاہے لہٰذا سچ بولنا بُرا ہے ۔ لیکن آپ یہ تو کبھی نہیں کہیں گے کہ سچ بولنا بُرا ہے ۔آپ یہی کہیں گے کہ جھوٹ بولنا بُرا ہے اور سچ بولنا اچھا ہے۔

آپ کہیں گے کہ جھوٹ بولنا اس لئے بُرا ہے کہ اس سے انسان سوسائٹی کی نظروں سے گرجاتا ہے یعنی ‘‘جھوٹ’’میں کوئی بُرائی نہیں لیکن چونکہ سوسائٹی جھوٹے کی عزّت نہیں کرتی اس لئے جھوٹ بُرا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی سائٹی جھوٹ کو معیوب نہ سمجھے او رجھوٹوں کی عزّت کرنے لگ جائے تو پھر جھوٹ بُرا نہیں رہے گا اچھا ہوجائے گا ۔آپ ایک سیکنڈ کے تاتل کے بغیر کہہ دیں گے کہ نہیں ‘جھوٹ پھر بھی بُرا رہے گا ۔اس کے یہ معنی ہوئے کہ آپ کی یہ دلیل بھی محکم نہ رہی کہ جس بات کو سوسائٹی معیوب سمجھے وہ بُری ہوتی ہے اور جسے سوسائٹی اچھا سمجھے وہ اچھی ہوتی ہے۔ آپ کے نزدیک جھوٹ بہر حال بُرا ہے خواہ اسے سوسائٹی اچھا سمجھے یا بُرا۔

بہت اچھا ! آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ جھوٹ بہرحال بُرا ہے اس لئے انسان کو کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئے ۔ لیکن ذرا اس واقعہ پر نگاہ ڈالئے ۔آپ اپنے مکان کے باہر بیٹھے ہیں کہ اتنے میں ایک غریب و ناتواں آدمی بھاگتا ہوا آجاتا ہے او رکہتا ہے ک فلاں قاتل (Murderer) پستول لئے اس کے پیچھے آرہا ہے ۔ اس کے بعد وہ فوراً آپ کے مکان کے ایک کونے میں چھپ جاتاہے ۔

دروغ مصلحت آمیز:۔۔۔۔اتنے میں وہ خونخوار جلاّد ہاتھ میں پستول لئے آجاتا ہے او رآپ سے پوچھتا ہے کہ فلاں شخص ابھی ابھی اس طرف آرہا تھا ،آپ نے تو نہیں دیکھا کہ وہ کدھر گیا ہے؟آپ جانتے ہیں کہ وہ مظلوم بے گناہ ہے او ریہ ظالم وجابر اسے ناحق مار دینا چاہتا ہے ۔اب آپ کہئے کہ آپ کو اس وقت سچ بول کر بتا دیناچاہئے کہ وہ مظلوم فلاں کونے میں چھپا کھڑا ہے یا اس ظالم کو غلط سمت کی طرف اشارہ کرکے مظلوم کی جان بچا لینی چاہئے ؟

آپ بلاتامّل کہہ دیں گے کہ اس ظالم کو کبھی نہیں بتاناچاہئے کہ وہ مظلوم کہاں ہے اور اسے دوسرے راستے پر ڈال دینا چاہئے ۔

یعنی آپ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت سچ نہیں بولنا چاہئے ۔ جھوٹ بولنا چاہئے ۔حالانکہ ابھی ابھی آپ کہہ رہے تھے کہ انسان کو ہمیشہ سچ بولنا چاہئے ، جھوٹ کبھی نہیں بولناچاہئے ۔ اس سے ظاہر ہوا کہ آپ کایہ مسلّمہ بھی صحیح نہ تھا کہ انسان کو کبھی جھوٹ نہیں بولہناچاہئے ۔ ایسا وقت بھی آسکتا ہے جب جھوٹ بولنا بُرا نہیں اچھا ہوتا ہے اب آپ اس مقام پر آگئے کہ مصلحت کے تقاضے سے جھوٹ بولنا بُرا نہیں ہوتا ۔یعنی ۔

دروغ مصلحت آمیز بہ ازراستی فتنہ انگیز

اس سے یہ معلوم ہوا کہ جھوٹ فی ذاتہ نہ بُری چیز ہے نہ اچھی ‘تقاضائے مصلحت سے یہ اچھی چیزبن جاتی ہے اور جب مصلحت کاتقاضا نہ ہوتو بُرا فعل ،جس طرح سنکھیا اگر دوا کے طور پر استعمال کیا جائے تو مفید صحت ہوتاہے او راگر اسے یونہی کھا لیا جائے تو مہلک ہوتا ہے۔

بلا سوچے سمجھے آپ کہیں گے کہ ہم نے یہ کیا بحث چھیڑ دیں جس سے ایسی صاف اور واضح بات (اگر جھوٹ بولنا بُرا ہے) خواہ مخواہ پیچیدہ بن گئی ۔لیکن آپ نے اندازہ لگالیا ہوگا کہ آپ نے ایسی ‘‘صاف اور واضح’’ بات پر کبھی غور ہی نہیں کیا تھا۱؂۔ آپ نے کبھی سو چاہی نہ تھا کے بُرا کسے کہتے ہیں ۔ اچھا کیا ہوتاہے۔ جھوٹ بولنا کیوں بُرا ہے؟کیا جھوٹ بولناہمیشہ بُرا ہوتا ہے یا بعض اوقات اچھا بھی ہوتا ہے۔

اچھا (خیر’ حق) (Good,Right) کیا ہوتا ہے؟

بُرا (شر ، باطل) ( Evil, Wrong) کسے کہتے ہیں؟

اچھا کیوں اچھا ہوتاہے، بُرا کیوں بُرا ہوتا ہے؟

کیا اچھا ہمیشہ او رہر حال ہوتا ہے اور بُرا بہر حال بُرا ، یا یہ چیزیں حالات کے تقاضے سے بدل جاتی ہیں۲؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ وائٹ ہیڈکہتا ہے کہ (It Requires Realy A Great Mind To Under Take The Analysis Of What Is Obvious) یعنی جوباتیں بدہی طور پر صاف اور واضح نظر آتی ہیں ان کاجائز ہ لینا اور تجزیہ کرنا ہر ایک کاکام نہیں ۔ اس کے لئے فی الحقیقت ایک بڑے دل او ردماغ کی ضرورت ہوتی ہے آپ اس حقیقت پر غور کیجئے او رپھر دیکھئے کہ کس قدر باتیں ایسی ہیں جنہیں آپ بدہی طور پر مسلّمات کی حیثیت دیئے ہوئے ہیں ۔آپ نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ ان سے مفہوم کیا ہے او رآپ انہیں ایسا کیوں مان رہے ہیں یہ علم نہیں تقلید ہے، قرآن ظلم کا تقاضا کرتاہے ،تقلید سے روکتا ہے۔

۲؂ جو چیز اپنی ذات میں اچھی یا بُری ہوتی ہے اسے کہتے ہیں کہ وہ (Intrinsically) اچھی یا بُری ہے اور جو چیز حالات یا مصلحت کے ماتحت اچھی یا بُری تسلیم کی جائے اسے کہتے ہیں کہ وہ ُ(Expediently) ایسی ہے یعنی (Ex[ediency) ‘‘مصلحت’’ کا یہی تقاضا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہی وہ سوالات ہیں جو اخلاقیات (ETHICS) کاموضوع ہوتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگاکہ ہم ان باتو ں کو بلا سوچے سمجھے یونہی مانتے چلے آرہے ہیں ۔ہم نے جس طرح اپنے بچن میں گھروں میں سنا اسی طرح اچھا اور بُرا کہنے لگ گئے یا جو کچھ ہمیں کتابوں میں پڑھا یا گیا وہی کچھ ہم نے صحیح تسلیم کرلیا ، یا آگے بڑھے تو جس بات کو سوسائٹی میں معیوب سمجھا گیا ہم نے اسے بُرا کہہ دیا۔ جن باتوں کی سوسائٹی میں تعریف ہونے لگی، ہم نے سمجھ لیا کہ وہ اچھی ہیں۔اگر سو سائٹی کی اس تقسیم او رپرانی روایات میں کہیں اختلاف ہوگیا ۔یعنی جس چیز کو پہلے لوگ معیوب سمجھتے تھے ۔ سوسائٹی اسے محبوب سمجھنے لگ گئی تو اس سے ‘‘قدیم اور جدید’’ میں تضاد شروع ہوگیا ۔جو لوگ قدیمی روش پر کابند رہنے پر مُصر ہوئے وہ قدامت پرست قرار پاگئے ،جنہوں نے اس روش کہن کو خیر باد کہہ کر نئی راہ اختیار کرلی انہیں تجدّد پسند کہہ دیا گیا ‘‘قدامت پرستوں’’ کے پاس اپنے مسلک کے ‘‘برسرحق’’ ہونے کی سند یہ قرار پا گئی کہ ‘‘ ایسا ہوتا چلا آرہا ہے’’۔ ‘‘تجدّد پسندوں’’ نے یہ سارٹیفیکٹ پیش کردیا کہ اب‘‘ہمارے زمانے کا یہی تقاضا ہے’’ ۔ دنیا میں یہی کچھ ہوتا چلا آرہا ہے یہی کچھ ہوتا چلا جائے گا۔ اس سے یہ سوال سامنے آیا کہ کیا ‘‘حق و باطل’’ (اچھا ، بُرا) کے پرکھنے کاکوئی مستقل معیار بھی ہے یا معیار دہی ‘‘پچھلوکا طریقہ’’یا ‘‘ہمارے زمانے کا تقاضا’’ ہی ہے۔اگر اس کاکوئی مستقل معیار ہے تو وہ معیار کیا ہے۔ کسی نے اس مستقل معیار قرار دیا ہے؟ اس کا ہمیں کس طرح علم ہوا؟۔

یہ ہیں وہ سوالات جن سے ‘‘اخلاقیات’’ بحث کرتاہے۔ ان سوالات میں آپ نے ایک چیز یکھی ہوگی ۔پوچھا یہ جاتا ہے کے ‘‘مجھے سچ کیوں بولنا چاہئے ، مجھے جھوٹ کیوں نہیں بولناچاہئے ’’۔تمہیں فلاں بات کرنی چاہئے ۔ اس میں ‘‘کرناچاہئے’’ کرنا نہیں چاہئے’’ ہی وہ بنیادیں ہیں جس پر اخلاقیات کی ساری عمارت استوار ہوتی ہے ۔ اسی لئے کانٹ نے اخلاقیات کی تعریف (Definition) یہ کی ہے کہ یہ ‘‘چاہئے’’ (Ought) کے متعلق قوانین سے بحث کرتا ہے۱؂۔ آپ غور سے دیکھئے تو یہ حقیقت اُبھر کر سامنے آجائے گی کہ انسانی معاشرہ کا دارومدار اسی (Ought) کے جواب پر منحصر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(Laws According To Which Ought To Happen'---Preface To Kant, Critique Of Practical Reason Etc By Abbot)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسانی معاشرہ کو ایسا ہوناچاہئے ۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ اس سے آپ نے اندازہ لگالیا ہوگاکہ انسانی زندگی میں اخلاقیات کی کیا اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے انسانی شعور نے آنکھ کھولی ہے یہ سوالات اس کے سامنے رہے ہیں ۔ اور فکر انسانی ان کے حل میں ہمیشہ غلطیاں وپیچا ں رہی ہے۔ اس بات میں فکر انسانی کی کوششوں کے ماحصل کا جو حصہ ضائع ہوچکاہے تو اس کاتو کسی کو علم نہیں جس قدر بچا کھچا سرمایہ ہمارے پاس موجود ہے وہ بھی اس حقیقت کی شہادت کے لئے کافی ہے کہ انسان نے ‘‘چاہئے’’ کہ سوال کو حل کرنے کے لئے اتنی کاوش وکاہش سے کام لیا ہے لیکن اس کے باوجود کیفیت ابھی تک یہ ہے کہ ہنوز اتنا بھی متعین نہیں ہوسکا کہ خیر۱؂ (Good) کسے کہتے ہیں اور شر (Evil) کیا ہے۔ حق (Right) کی تعریف (Definition) کیا ہے اور باطل (Wrong) کی کیا ۔ نہ ہی ابھی تک ‘‘اخلاقیات’’ ایک باضاطہ سائنس کی حیثیت اختیار کرسکا ہے۔ جوڈ کے الفاظ میں:۔

اگرچہ اخلاق درحقیقت اخلاق ہے او رہم جانتے ہیں کہ اخلاق کیا ہوتا ہے بایں ہمہ اخلاق کی سائنس یافلسفہ ایک ایسی چیز ہے جس کی تلاش نہیں کرنی چاہئے اس لئے کہ بہ حیثیت سائنس یا فلسفہ کے یہ کہیں ملے گی ہی نہیں ۱؂۔

(Guide To Philosophy Of Morals And Politics: p. 171)

اس کے باوجود خود ہمارے زمانہ میں بھی اخلاقیات پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے کہ کسی ایک انسان کے لئے اس سب کا استیعاب نا ممکن ہے۔آئندہ صفحات میں ہم کوشش کریں گے کہ نہایت مختصر الفاظ یں بتایاجاسکے کہ ‘‘ خیر و شر’’ کی نزاع کے متعلق انسانی فکر نے کیا کیا کاوشیں کی ہیں اور وہ آج کس مقام پر کھڑا ہے:۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ مبحث پیش نظر میں (Good) کیلئے خیر اور (Evil) کیلئے شریا (Right) کیلئے حق اور (Worng) کے لئے باطل کی اصطلاحات مروّجہ قاعدہ کے مطابق استعمال کی جائیں گی ۔قرآنی نقطہ نگاہ سے ان کا مفہوم کچھ او رہوگا جن کاذکر اپنے مقام پر آئے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جذبات انفرادی ہوتے ہیں:۔۔۔۔۔۔آگے بڑھنے سے پہلے ایک بات او ربھی سمجھ لینی ضروری ہے ۔

ایک شخص نے آپ کی چوری کی ہے آپ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں کرناچاہئے تھا اس سے آپ کو مالی نقصان پہنچا ہے ۔ایک شخص آپ کو گالی دیتا ہے ۔آپ کہتے ہیں کہ اسے ایسا نہیں کرناچاہئے تھا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں آپ کو کوئی مالی نقصان نہیں پہنچا ۔لیکن آپ کے ‘‘جذبات’’ مجروح ہوئے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ اخلاقیات میں افادی حیثیت کو بھی سامنے رکھا جائے گا اور جذباتی حیثیت (Feeling) کو بھی ۔ جذبات کی دنیا بڑی وسیع ہے اور پھر ہر شخص کے جذبات منفرد (Individual)ہوتے ہیں ۔ کسی شخص کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے جذبات (Feelings) دوسرے کو ‘‘محسوس’’ کراسکے۔ میرے دانت میں درد ہے میں آپ کو صرف الفاظ سے بتاسکتا ہوں کہ میرے درد ہورہا ہے۔ اس سے زیادہ آپ کو کچھ سمجھا نہیں سکتا کہ مجھے کیا ہورہا ہے ۔اگر آپ کو عمر بھر کبھی درد نہیں ہوا تو آپ کے لئے ناممکن ہے کہ آپ سمجھ سکیں کہ میں کیا کہتا ہوں اور اگر آپ کے کبھی درد ہوا ہے تو آپ میرے الفاط سے اس کیفیت کو یاد کریں گے جو آ پ نے اپنے درد کی حالت میں محسوس کی تھی۔ اس سے آپ یہ سمجھ لیں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔لیکن اس کے باوجود آپ میری کیفیت کو محسوس نہیں کرسکیں گے ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے اپنے درد میں جو کچھ محسوس کیا تھا وہ اس سے مختلف ہو جو میں محسوس کررہا ہوں ۔لیکن اپنے جذبات سے آپ کوروشناس کرانے کا اور کوئی ذریعہ ہی میرے پاس نہیں میں اس کیفیت کو صرف الفاظ میں بیان کرسکتاہوں او ران الفاظ سے جو کچھ آپ سمجھ سکیں وہی کچھ آپ کو سمجھا سکتا ہوں۔ نہ میں اپنی کیفیات آپ تک منتقل کرسکتا ہوں نہ ان کے احساسات سے آپ کو متکیف کرسکتا ہوں ۔ یہ ہے جذبات کی دنیا۔ او رچونکہ اخلاقیات (Ethics) کا تعلق جذبات کی دنیا سے زیادہ ہے اس لئے اس کے متعلق اس انداز سے بات نہیں کی جاسکتی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ انگریزی میں (Morality) عام اخلاق کو کہتے ہیں اور (Ethics) اس سائنس یا فلسفہ کو جو (Morality) سے بحث کرتاہے۔ ہمارے یہاں ان کے لئے الگ الگ اصطلاحات وجود نہیں ہیں اس لئے ان دونوں کو اخلاق ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس طرح محسو سات کی دنیا کی بابت گفتگو کی جاسکتی ہے جس نے پہلے کبھی میز نہیں دیکھی میں اسے دکھا کر سمجھا سکتا ہوں کہ اسے میز کہتے ہیں ۔لیکن جس کے کبھی درد نہیں ہوا اسے میں کس طرح سمجھا سکتا ہوں کہ درد کسے کہتے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ درد کے ان محسوس ومرئی اثرات کو دیکھ سکے گا جو مجھ پر مرتّب ہورہے ہوں گے۔مثلاً کرب و اضطراب چہرے کی رنگت ، آنکھوں کے آنسو’ آہ وفغاں لیکن یہ درد نہیں درد کے مظاہر ہیں۔ و ہ صرف مظاہر کو دیکھ سکتا ہے درد کو محسوس نہیں کرسکتا ۔ اسی لئے تو کہا ہے کہ ؂

ایک جلنے کے سوا او رکوئی کیا جانے

حالتیں کتنی گذرجاتی ہیں پروانے پر

شعلہ تک پہنچنے میں اس کی ایک ایک سانس میں جس قدر قیامتیں پوشیدہ ہوتی ہیں اسے کوئی آنکھ دیکھ نہیں سکتی ، نہ کوئی دل اس کا صحیح صحیح احساس کرسکتا ہے ۔

بناء بریں، اخلاقیات میں جب جذبات سے بحث کی جاتی ہے توان مشترکہ کیفیات کو سامنے رکھا جاتا ہے جن کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہ فلاں فلاں قسم کے جذبات سے عام طور پر پید ا ہوتی ہے ۔ اس سے زیادہ اس باب میں کچھ کیا ہی نہیں جاسکتا ۔

ان تمہید ات کے بعدآپ آگے بڑھئیے:۔

کیا انسان مجبور ہے:۔۔۔۔سب سے پہلے یہ دیکھئے کہ میکانکی تصور حیات کے مطابق ‘ انسان صاحب اختیار وارادہ تسلیم نہیں کیا جانا بلکہ مجبور مانا جاتا ہے اس نظریہ کی رو سے پیدائشی مزاج ، وراثت کے اثرات، ماحول کے اثرات تعلیم و تربیت کے اثرات ، وہ زنجیریں ہیں جن میں انسان جکڑا رہتا ہے اور اس کا ہر فیصلہ اور ہر عمل انہی خارجی اثرات کانتیجہ ہوتا ہے ۔ اس اعتبار سے انسان ایک مشین بن کر رہ جاتا ہے ۔ رسل کے الفاظ میں:۔

اگر طبیعیاتی جبر( Physical Determinism) کا نظریہ صحیح تصور کرلیا جائے تو اس کے بعد خواہ انسان کے اندر نفس (Mind) کو وجود تسلیم کرلیا جائے تو بھی انسان اس قسم کی مشین بن جائے گا کہ ایک قابل ، عالم طبیعیات ، محض طبیعیاتی معلومات کی بناء پر انسان کے تمام اعمال و افعال کو پہلے ہی متعین کرکے بتادے گا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ انسانی خیالات کے متعلق کچھ نہ بتا سکے لیکن وہ یہ تو بتا دے گا کہ وہ انسان کیا کہے گا او ر کیا کرے گا ۔ ان حالات میں انسان ایک مشین ہوگا۔

'Introduction To The History Of Materialism' By S.A. lange'

اس نظریہ کے ماتحت اخلاق کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں ،اخلاق کا سوال اس وقت پیدا ہوتاہے جب ہم انسان کو صاحب اختیار وارادہ تسلیم کریں ۔حقیقت یہ ہے کہ میکانکی تصور حیات کے علمبردار نظری طور پر خواہ انسان کو مجبوری ہی مانیں ،عملی دنیا میں وہ بھی انسان کو صاحب اختیار و ارادہ ہی تسلیم کرتے ہیں ۔اگر آپ ان میں کسی کے تھپڑ ماریں تو وہ برابر کاجواب دے گا یا آپ کو عدالت میں کھینچ کر لے جائے گا اور جب آپ کو سزا نہیں دلاوے گا ،اسے کُل نہیں پڑے گی ۔ وہ کبھی یہ کہہ کر خاموش نہیں ہوجائے گا کہ تھپّڑ مارنے میں آپ کا کوئی قصور نہیں ۔ آپ تو ایک مجبور مشین ہیں ۔لہٰذا اخلاق کی دنیا میں قدم رکھتے ہی میکانکی تصور حیات ختم ہوجاتا ہے ۔ اگر اس تصور حیات کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو نہ پولیس کی ضرورت رہے نہ عدالت کی ، نہ جیل خانے باقی رہیں نہ فوج ،نہ کسی کو کسی کے جرم کی سزا دی جاسکے نہ اس کے اچھے کام کیلئے اسے مبارک باد دی جائے او راس کے بعد یہ دنیا انسانو ں کی بستی نہیں بلکہ درندوں کابھٹ بن جائے ۔جہا ں قوت کاقانون چلے اور ‘‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس’’ کا اصول ہر شعبہ زندگی میں کارفرما ہو۔

ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ تحقیقات جدیدہ نے نظریہ جبر کی کس طرح تردید کی ہے اور اب یہ تسلیم کیا جارہا ہے کہ وراثت او رماحول وغیرہ کے اثرات سب بجا ودرست ،لیکن ان کے ساتھ ہی انسان کے اندر ایک اور قوت بھی ہے (جسے راشڈل ،غیر متعین اختیار سے تعبیر کرتا ہے۱؂) جوان اثرات پر غالب آکر معاملات کے فیصلے خود کرتی ہے اور جب ہم کسی شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ اچھا آدمی ہے یا بُرا انسان تو اس کامعیار وہی اعمال ہوتے ہیں جو اس سے اس قوت فیصلہ کی رُو سے سرزد ہوتے ہیں۔ چنانچہ لارڈ سیموئیل اس باب میں لکھتا ہے کہ :۔

اگر انسان کو سابقہ علل و اسباب نے ایسا کیریکٹر دیا ہے جس سے وہ جرائم پر آمادہ ہوسکتا ہے تو انہی اسباب وعلل نے اس قوت ارادہ بھی عطا کی ہے جس سے وہ اپنے رجحانات و میلانات پر ضبط بھی رکھ سکتا ہے ۔(Belief And Action)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

('The Theory Of Good And Evil ': Vol.II p. 308)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی بنا پر برگستان کہتاہے کہ ‘‘ہم بڑی حد تک وہی ہوتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں او راس طرح ہم مسلسل اپنی تخلیق کرتے رہتے ہیں ’’(Creative Evolution) ۔حیوانات میں قوت تمیزکی صلاحیت نہیں ہوتی ۔ اس لئے وہ جبلّی طور پر (اخلاقی اعتبار سے ) مجبور ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک بکری جو صرف اپنے مالک کے کھیت میں ہی چرے ،کبھی ‘‘پرہیزگار’’ نہیں کہلاتی ۔ نہ ہی وہ بکری جو دوسروں کے کھیت میں جا گھسے ،مجرم قرار پاتی ہے ۔ اس لئے کہ بکری کے سامنے صرف وہ چیزیں ہیں ۔ اس کی بھوک اور گھاس اسے اس کی تمیزہی نہیں کہ اپنے مالک کے کھیت کاچارہ ‘‘جائز’’ ہوتا ہے اور دوسرے کے کھیت کا ‘‘ناجائز’’ ۔ اس میں اس فرق کے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ لیکن انسان کے سامنے بھوک اور کھانے کے علاوہ ایک تیسری چیز بھی ہوتی ہے۔ یعنی یہ فیصلہ کرناکہ اسے وہ کھا لینا چاہئے یا نہ ، اسی بنا پر کانٹ کہتاہے کہ انسان اپنی خواہشات کے لئے تو ذمّہ دار نہیں لیکن وہ اس کے لئے ذمّہ دار ہے کہ اپنی خواہشات کو پورا کس طرح سے کرتا ہے۱؂’’۔

اندریں حالات، اخلاقیات میں سب سے پہلے ،میکانکی نظریہ حیات کوباطل تصور کرنا پڑتا ہ ۔ اس کے بغیر اخلاقیات کا تصور ہی ناممکن ہے ۔چنانچہ اس باب میں (Max Born) اپنی کتاب (Natural Philosophy Of Cause And Chance) میں لکھتا ہے کہ :۔

اسباب و علل کے نظریہ پر غیر محدود ایمان کے معنی یہ ہیں کہ ہم یہ تسلیم کرلیں کہ کائنات ایک مشین کی طر ح ہے جس میں ہم خود بھی ایک چھوٹے سے پرُزے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ مادی جبریت کانظریہ ہے اور اس عقیدہ جبر سے ملتاہے جس کی رو سے مذہبی دنیا میں تسلیم کیا جاتاہے کہ انسان کے تمام اعمال پہلے ہی سے ایک خدا قادر نے متعین کررکھے ہیں ۔لہٰذا اخلاق کی دنیا میں جو مشکلات مذہب کا عقیدہ جبر پیدا کرتاہے وہی مشکلات مادی جبریت سے پیدا ہوتی ہیں۔ جس طرح خدا کے قادر ومختار ہونے کا عقیدہ انسانی اختیار و ارادہ کی نفی کرتاہے اسی طرح مادی دنیا میں اسباب وعلل کی لامتناہی زنجیر کا تصور بھی انسان کو مجبور محض بنا دیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ (Catagorical Imperative Edited: By H.J. Paton: p. 275)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بناء بریں انسان کو اسی صورت میں اس کے اعمال کاذمّہ دار قرار دیا جاسکتا ہے جب میکانکی نظریہ حیات کو مسترد کیا جائے جب تک آپ کے متعلق یہ تسلیم نہ کریں کہ وہ معاملات کے فیصلے خود کر سکتا ہے یہ کہنا ہی مہمل ہے کہ اسے یوں کرناچاہئے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یوں نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ کوئی عدالت پاگل یا بچہ کو اس کے کسی فعل پر سرزنش نہیں کرتی کیونکہ انہیں صاحب اختیار تسلیم ہی نہیں کیا جاتا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصریحات بالا سے ہم نے دیکھ لیا کہ اخلاقیات میں دیکھا یہ جاتاہے کہ انسان اپنے اختیار وارادہ کو استعمال کس طرح کرتاہے ۔ جوں جوں اس کے اختیارات کی دنیا سمٹتی جائے گی، اخلاقیات کا دائرہ تنگ ہوتا جائے گا ۔جیسے جیسے اس کے اختیارات کے میدان وسیع ہوتے جائیں گے اخلاقیات کے ووائر بھی پھیلتے جائیں گے۱؂۔

لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اختیارات کے صحیح استعمال کانام خیر (Good) ہے اور ان کے غلط استعمال کا نام شر (Evil) ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوگا کہ ‘‘صحیح’’ اور ‘‘غلط’’ استعمال کہتے کسے ہیں؟ یعنی وہی بات کہ بُرا کے کہتے ہیں او راچھا کسے کہتے ہیں ؟ سقراط(Socrates) نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اصلی نیکی (Virtue) یہ جان جان لینا ہے کہ خیر کیا ہے اور شر کیا؟۲؂

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ قرآن میں ‘‘نیک عمل’’ کے لئے خیر کالفظ استعمال ہوا ہے اور خیر اوراختیار کا مادہ ایک ہی ہے۔

۲؂ یہاں سقراط غلطی کرتا ہے ۔نیکی صرف یہ جان لینا ہی نہیں کہ خیر کیا ہے اور شر کیا، اصل نیکی، اے جان لینے کے بعد خیر کااختیار کرنا اور شر کو چھوڑ دینا ہے یعنی علم کے ساتھ عمل بھی ۔سقراط کا خیال تھا کہ انسان اس لئے خیر کو اختیار نہیں کرتاکہ وہ جانتا نہیں کہ خیر کیا ہے، اگر وہ اسے جان لے تو کبھی شرکو اختیار نہ کرے۔لیکن یہ چیز ہمارے روز مرّہ کے مشاہدے کی ہے کہ لوگ جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنا بُرا ہے،بایں ہمہ جھوٹ بولتے ہیں ۔بقول غالب

جانتا ہوں ثواب طاعت وزہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

اخلاقی مفکرین کا ایک گروہ ہے جس کا خیال ہے کہ

انسان کامقصد زندگی حصول لذّت ہے۔

نظریہ لذّتّیت:۔۔۔۔۔۔یعنی ہر کام کاجذبہ محّرکہ ،حصول لذّت کا خیال ہوتاہے لہٰذا جو اعمال حصول لدّت میں ممدو معاون ہوتے ہیں، خیر کہلاتے ہیں اور جو اس مقصد کے حصوص کی راہ ہوتے ہیں ، شر کہلاتے ہیں۔ ا س نظریہ کو (Hedonism) کہتے ہیں۔(Hedone) یونانی لفظ ہے جس کے معنی (Pleasure) کے ہیں۔ ہم نے اس کا ترجمہ لذّت کیا ہے لہٰذا (Hedonism) کا ترجمہ ہوگا لذّتّیت۔ اس نظریہ کا ماحصل یہ ہے کہ :۔

ہرعمل کاجذبہ محّرکہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے بحیثیت مجموعی زیادہ سے زیادہ لذّت حاصل کی جاسکے۔( راشڈل ، جلد اوّل 8)

ارسطو (Aristotle) ا س نظریہ کا محّرک ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کا مقصد ،انبساط(Happiness) یا لذّت(Pleasure) کا حصول ہے ۔ انبساط اور لذّت کسے کہتے ہیں ان کے دواتر کو ن کون سے ہیں؟ اس نظریہ کے حاملین ان سوالات کے جواب میں پھر متفق نہیں (نہ ہی ایسا اتفاق ممکن ہی ہے) لیکن ان فروعی اختلافات کے باوجود وہ اس پر متفق ہیں کہ زندگی کا مقصد حصول لذّت و انبساط ہے۔

خوش باش دمے کہ زندگانی ایں است

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ممفورڈاس نقطہ پر بحث کرتا ہوا سقراط کی تردید میں لکھتا ہے کہ

اگر سقراط نے خود اپنی سیرت ہی کا مطالعہ کیا ہوتا تو اس پر یہ حقیقت واشگا ف ہوجاتی کہ علم کی محبت از خود خیر پیدا نہیں کرسکتی ۔اسے یہ نظر آجاتا کہ تمام انسانوں میں (سقراط سمیت) یہ جذبہ پایا جاتاہے کہ وہ اپنی ذات کے متعلق علم کی ان صورتوں کو غیر متعلّق بلکہ غیر موجود سمجھ لیتے ہیں جو ان کی شکست پندار کاموجب بنتی ہوں۔

(The Conduct Of Life: By Mumford)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ظاہر ہے کہ یہ نظریہ کہ خیر ( Good) وہ ہے جس سے اس کا کام کے کرنے والے کو اپنی لذّت مقصود ہو،انسانی نظام تمدّن کو کسی صورت میں قائم نہیں رکھ سکتا۔ چنانچہ ہابز (Hobbs) نے جو (Hedonism) انتہائی شکل (Egoism) کے نظریہ کاقائل تھا ، یہ کہہ دیا کہ یہ سمجھنا غلط ہے کہ انسان مدنی اطبع واقع ہوا ہے ۔مل جل کر رہنا انسانی فطرت کاتقاضا نہیں ۔ انسان نے سوسائٹی کو اس لئے وضع کیا تھا کہ وہ اس کی خواہشات ومقاصد کے حصول و تکمیل کا ذریعہ بن سکے۔ لہٰذا مقصود فی الاصل انسان کی اپنی خواشات کی تکمیل ہے نہ کہ دوسروں کے مقاصد کی تکمیل۔

یہ ظاہر ہے کہ اس نظریہ کے ماتحت ایثارو قربانی کے الفاظ سب بے منی ہوجاتے ہیں ۔اپنی ذات کے لئے حصول لذّت یہ ہے منتہائے زندگی ۔

اسپنوزا(Spinoza 1637-77) نے اس میں اتنی تبدیلی کہ انسان کو لذّت (Pleasure) اپنی ذات کے تحفظ اور اس کی تکمیل سے حاصل ہوتی ہے اس لئے اعمال خیر وہ ہیں جن سے انسان تحفظ نفس اور اس کی تکمیل کرسکے۔اس میں شُبہ نہیں کہ اس تبدیلی سے یہ نظر یہ عام نفسیاتی خواہشات ولذّت کے تصور سے بلند ہوگیا لیکن جہاں تک نوع انسانی کا تعلق ہے اس کی بنیاد بھی اسی جذبہ خود غرضی (Selfishness) پر ہے جس پر ہابز کا نظریہ (Egoism) مبنی تھا۔ ‘‘اپنی دات کا تحفظ اور اس کی تکمیل ’’ انفرادیت کا تصور ہے اجتماعیت کا نہیں۔ اس میں ہر فرد اپنے اپنے مقصد کی تکمیل میں کوشاں رہتا ہے ،دیگر افراد سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ۔ یہی وہ تصور ہے جس پر رہبانیت کی عمارت قائم ہے ‘‘اپنی نجات کی فکر’’ خود غرضی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہی تجردوانفرادیت تھی جو یونان میں رواقیت (Stoicism) کی بنیاد قرار پائی اور جو اس وقت سے آج تک مختلف پیکروں میں جلوہ طراز رہی ہے۔ تصوف اسی کے ایک حسین پیکر کا نام ہے۔

افادیت کا نظریہ:۔۔۔۔اخلاقیات میں دوسرا نظریہ افادیت (Utilitarianism) ہے ان کے نزدیک کسی عمل کے خیر باشر ہونے کامعیار یہ ہے کہ جو کام زیادہ سے زیادہ فائدہ یا نفع کاموجب ہے وہ خیر ہے او رجس سے فائدہ یا نفع حاصل نہ ہو وہ شر ہے یعنی معیار افادیت (Utility Value) ہے۔ اعمالکو ان کے نتائج سے پرکھنا چاہئے ۔کوئی عمل اپنی ذات میں نہ خیر ہے نہ شر،جس کے نتائج نفع رساں ہوں وہ خیر جس کے نتائج سود مند نہ ہوں وہ شر ، اس اعتبار سے ہوسکتا ہے کہ ایک ہی کام ایک وقت میں خیر قرار پا جائے اور دوسرے وقت میں شر،اس لئے کہ کسی عمل کے نتائج ان خارجی حالات پر موقوف ہوتے ہیں جن کے تحت وہ عمل ظہور میں آتا ہے پھر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ‘‘فائدہ کس کا؟ ’’ کیا ایک فرد کا؟ اس اعتبار سے اس نظریہ اور (Hedonism) میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا ۔لیکن اس نظریہ کے مفکر ین کے خیالات کے مطابق عمل خیر وہ ہے جس سے ‘‘ زیادہ سے زیادہ افراد کا زیادہ سے زیادہ مرتّب ہو۔’’

(The Greatest Good Of The Greatest Number)

لیکن اصل سوال اس کے بعد سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ ‘‘فائدہ’’ کسے کہتے ہیں ؟ کون سے کام فائدہ بخش ہیں اور کون سے نقصان رساں؟ سو جب تک ‘‘فائدہ اور نقصان’’ کا مفہوم اخلاقی طور پر متعین نہ کرلیا جائے اس نظریہ کا اصل مفہوم سمجھ میں نہیں آسکے گا۔ اس باب میں نظریہ افادیت کے ائمہ فکر میں سے مل (John Stuart Mill) ہمیں بتاتا ہے کہ ‘‘لذّت (Pleasure) کاحصول اور درد (Pain) سے نجات ہی مقصود زندگی ہے۔’’

(Utiliarianism) کے اسی مکتب فکر کا دوسرا امام (Jeremy Bentham) لکھتا ہے کہ :۔ (Introduction To The Principles Of The Morals And Legislation) ‘‘فطرت نے انسان کو دو آقاؤں کے تابع فرمان رکھ چھوڑا ہے ۔ایک لذّت اور دوسرا درد’’۔

ان تصریحات کے پیش نظر ،افادی نظریہ اخلاقیات ’(Hedonism) ہی کی ایک پھیلی ہوئی شکل ہے۔ یعنی اس میں ایک فرد کو اپنی ذات کے لئے حصول لذّت مقصود تھا، اس میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ حصول لذّت مقصود ہوتا ہے۔ اس میں بھی انسانی زندگی کامقصود منتہا ،حصول لذّت ہی ہے لیکن انسان کو مدنی الطبع تصور کرکے اس مقصد کو اجتماعی شکل دے دی گئی ہے۔ اس باب میں (Ethics For Unbelievers) کی مصنفہ(Amber Blance White) لکھتی ہے کہ :۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ یہ فارمولاHutcheson کا وضع کردہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی عمل کو خیر یا شر ’ اس کے نتائج کی روسے کہنا چاہئے ۔مثلاً خیراتی ہسپتال نفع رساں ادارے ہیں، اگرچہ ہسپتال ،حصول مقصد کاعارضی سا ذریعہ ہوتے ہیں (کیونکہ مقصود تویہ ہونا چاہئے کہ قوم کی صحت ایسی ہو کہ کوئی بیمار ہی نہ پڑے) اس لئے ان ہسپتال کے لئے چند ہ دینا عمل خیر ہے۔ اس سے غرض نہیں ہونی چاہئے کہ میں چندہ کیوں دوں۔(138)

لیکن اصل سوال تو یہی ہے جس کے جواب دینے سے یوں گریز کی راہ اختیار کرلی گئی ہے۔ آپ مجھ سے کہتے ہیں کہ غریبو ں کی مدد کرنی چاہئے ۔میں کہتا ہوں کہ مجھے غریبوں کی مدد کیوں کرنی چاہئے۔آپ کہتے ہیں کہ یہ اخلاقی فرض ہے، یہ انسانیت کاتقاضا ہے میں کہتا ہوں کہ مجھ پر یہ فرض کس نے عائد کردیا؟ انسانیت کسے کہتے ہیں جس کا یہ تقاضا ہے؟

آپ غور کیجئے کہ آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے کیونکہ اسی جواب پر اخلاقیات کی پوری عمارت کا دارومدار ہے۔ جب نظریہ افادیت بھی یہی کہتاہے کہ مقصود حیات حصول لذّت ہے تو میں کہتا ہو ں کہ مجھے غریبوں کی امداد سے لذّت نہیں حاصل ہوتی، اپنامال اس طرح سے خرچ کرنے سے دکھ ہوتاہے ۔ اس لئے غریبوں کی امداد میر ے مقصد کے راستے میں حائل ہوتی ہے ۔لہٰذا میرے نزدیک یہ عمل خیرنہیں ۔ کیونکہ خیرکی تعریف (Definition) یہ ہے کہ وہ حصول لذّت میں ممد ہو۔

راشڈل کا نظریہ :۔۔۔۔۔۔۔اس اعتراض کے پیش نظر کہ مقصود زندگی حصول لذّت ہے،اشڈل نے افادیت کا ایک اورنظریہ وضع کیا ہے جسے وہ مثال افادیت (Ideal Utilitarianism) کے نام سے تعبیر کرتا ہے ۔ وہ کہتاہے کہ مقصود زندگی حصول لذّت ہی نہیں بلکہ ایک مثالی نصب العین کا حصول ہے۔اس مثالی نصب العین کا نام خیر ہے یہ نصب العین تمام نوع انسانی کا مشترکہ مقصد ہے۔ اسی لئے خیر سے مراد ایسے اعمال ہیں جو تمام نوع انسانی کے لئے اس مثالی نصب العین کا حصول ممکن بنادیں۔ اس کے بعد وہ کہتاہے کہ انسانی زندگی میں مختلف قسم کے خیر (Goods) بکھرے پڑے ہیں ۔ اس میں دیکھنا یہ چاہئے کہ کونسا عمل خیر (Good) کسی خاص وقت میں اس نصب العین کے حصول میں ممدہوتاہے ۔ اس وقت اس عمل خیر کو اختیار کرلیناچاہئے او راس سے کم درجہ کے عمل خیر کو چھوڑ دیناچاہئے ۔آپ نے وہ مثال دیکھی تھی جس میں ہم نے یہ پوچھا تھا کہ کسی کی جان بچانے کیلئے جھوٹ بولنا جائز ہوگایا نہیں ۔راشڈل کہتاہے کہ سچ بولنا اور کسی کی جان بچانا دونوں اعمال خیر ہیں۔لیکن چونکہ کسی کی جان بچانابڑا خیر ہے اس لئے اس کی خاطر چھوٹا خیر(سچ بولنا) ترک کردینا چاہئے او رجھو ٹ بول کر جان بچا لینی چاہئے ۔ اس جزیئات کوراشڈل نہایت عمدہ طریق سے بیان کرتاہے لیکن جب یہ بنیادی سول سامنے آتا ہے کہ وہ مثالی نصب العین کیا ہے جو مشترکہ طور پر نوع انسانی کے سامنے ہے اور جس کے حصول کے لئے جدّوجہد کا نام عمل خیر ہے تو اس کے جواب میں اس کے فکر کی پریشانی اُبھر کر سامنے آجاتی ہے اس کے جواب میں وہ سوائے اس کے کہ ‘‘نوع انسانی کی فلاح’’جیسی مبہم اصطلاح استعمال کرے او رکچھ متعین طور پر نہیں بتاسکا ۔ زیادہ سے زیادہ اس نے لذّت (Pleasure) کے ساتھ اخلاق (Morality) کا اضافہ کیا ہے۔ وہ اتنا کہہ کر اس بحث کو ختم کردیتا ہے کہ اخلاق (Morality) کے مختلف شعبوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا یہ ہے مثالی نصب العین ۔حالانکہ بحث ساری تھی ہی یہ کہ اخلاق (Morality) کسے کہتے ہیں؟ (تفصیل کے لئے راشڈل کی کتاب (The Theory Of Good And Evil: Vol.I) ملاحظہ فرمائیے)۔

ہربرٹ اسپنسر کا نظریہ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ انیسویں صدی میں نظریہ ارتقا نے خاص اہمیت حاصل کرلی تھی ۔ چنانچہ اس نظریہ نے طبیعیات کی حدود سے نکل کر اخلاقیات کے زاویہ نگاہ کو بھی متاثر کیا۔ ہربرٹ اسپنسر (1820-1903ء) نظریہ ارتقا کابہت بڑا حامی تھا بقا للا صلح (Survival Of The Fittenst) کے فارمولا کاموجددہی ہے ۔ وہ طبیعیات کے دائرہ سے آگے بڑھ کر اخلاقیات کے دائرہ میں آیا او راس نے کہاکہ جو قوانین عمل ارتقا ء کو جاری رکھ رہے ہیں وہی قوانین فطرت انسانی کے مطابق ہیں اس لئے اخلاقیات کے لئے بھی وہی قانون ہونی چاہئیں ۔چنانچہ اس نے کہا کہ عمل خیر(Good) وہ ہے جو انسانی افراد کو بقا (Survival) کے لئے ممدہوا۔ اس نظریہ کا نام ارتقائی اخلاقیات (Evolutionary Ethics) ہے وہ کہتاہے کہ مقصود حیات یہ ہے کے عملی ارتقا کے ذریعہ رفتہ رفتہ ایک بہتر انسانی نسل پیدا کی جائے۔ اس لئے ہر فرد نوع انسانی کا فرض ہے کہ وہ جدّوجہد میں حصہ لے اس نظریہ کی بنیاد اس مفروضہ پر ہے کہ نوع انسانی کا باقی رہنا (Survival) ہی خیر (Good) ہے یعنی انسان کا محض زندہ رہنا (یا نوع انسانی کاباقی رہنا) ہی مقصود زندگی ہے اور اسے باقی رکھنے کی کوشش کرنا، عمل خیر ، چنانچہ وہ لکھتا ہے:۔

جوعمل زیادہ ارتقا ء یا فتہ ہے اسے ہماری اصطلاح میں عمل خیر کہتے ہیں۔ اور جو عمل نسبتاًکم ترقی یافتہ ہے وہ عمل شر ہے۔(Principles Of Ethics: Vol. I p. 57)

نظریہ اتقاء کی رو سے بقا (Survival) کے لئے ماحول سے مطابقت (Adaptibility To Environments) ضروری ہے۔ اسی قانون کے پیش نظر اسپنسر لکھتاہے کہ ‘‘جو کام مقصد پیش نظر کے لئے نہایت عمدگی سے ترتیب دیئے ہوں۔ یعنی ‘‘اس سے بالکل مطابقت رکھتے ہوں وہ اعمال اچھے ہیں اور جو اس طرح مطابقت نہ رکھتے ہوں وہ اعمال بُرے ہیں۔ اچھا چاقو وہ جو چیز کا ٹ دے اچھی بندوق وہ جس کانشانہ خطا نہ ہو، عمدہ چھلانگ وہ ہے جس سے انسان ٹھیک مقام پر جاکر گرے۔۔۔۔۔ اسی بنا پر اچھے کام وہ ہیں جو تحفظ ذات کے لئے مفید ہوں اور بُرے وہ جو اس کیلئے ممد نہ ہوں’’۔

اسپنسر خالص میکانکی تصور حیات کا پیامبر تھا اس لئے وہ قوانین فطرت سے آگے کسی قانون کو تسلیم ہی نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ وہ اس باب میں لکھتا ہے کہ ۔

اگر مشیت خداوندی کی بجائے جس کے متعلق کہاجاتا ہے وہ مافوق الفطرت طریقہ سے وحی کے ذریعہ ملتی ہے ہم یہ کہہ دیں کہ یہ قوانین درحقیقت وہ ہیں جو عین فطرت کے مطابق نظریہ ارتقا کی رو سے ملتے ہیں ، تو چونکہ ارتقاء زندگی کوبلندیوں کی طرف لے جاتی ہے اس لئے یہ واضح ہوجائے گا کہ انہی کی پابندی انسان کو اس کے نصب العین تک پہنچا سکتی ہے۔ (The Data Of Ethics)

اسپنسر کے یہ نظریات کس حد تک ‘‘حقائق’’ تسلیم کئے جانے کے قابل ہیں اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ان نظریوں کو اس نے اپنی کتاب (Principles Of Ethics) کی پہلی جلد میں پیش کیا تھا اور جب اسی کتاب کی دوسری جلد شائع ہوئی تو اس کے دیباچے میں اس نے خود ہی لکھ دیا تھا کہ ۔

اخلاقیات کے متعلق نظریہ ارتقاء اس حد تک ہماری راہ نمائی نہیں کرسکا جس حد تک مجھے توقع تھی کہ ہمیں لے جائے گا۱؂۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؂ (Quotd By Lan Freed In Social Pragmatism)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی ابھی وہ روشنائی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی جس سے یہ حقائق معرض تحریر میں آئے تھے کہ ان حقائق کی خود ہی تردید کردینی پڑی (H.L. Meneken) نے اپنی کتاب (Treatise On Right And Wrong) میں اسپنسر کا یہ قول بھی نقل کیا ہے:۔

اخلاقیات کی بنیاد انتقام کا خوف ہے۔

خوف انتقام:۔۔۔۔۔:یعنی میں اس لئے چوری کو بُرا سمجھتا ہوں کہ مجھے ڈر ہے کہ اگر چہ چوری کو معیوب نہ سمجھا گیا تو میری کوئی چیز بھی محفوظ نہ رہے گی میں اس لئے کسی دوسرے کو قتل نہیں کرتا کہ مجھے ڈر ہے کہ اس قتل کے انتقام میں میں مارا جاؤں گا ۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ اگر کوئی شخص ایسا انتظام کرلے کہ اسے انتقام کا خوف نہ ہوتو اس کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق نہیں چنانچہ آج یورپ کی قوموں کا یہی حال ہے جو قوم سمجھتی ہے کہ میرے پاس اتنی قوت آگئی ہے کہ مجھے کوئی شکست نہیں دے سکتا ، وہ کسی بین الاقوامی قانون کی پرواہ نہیں کرتی اس لئے کہ جب انتقام کا خوف نہ رہے تو پھر اخلاق کا تصور ہی باقی نہیں رہتا۔

ہمارے زمانہ میں (G.G. Simpson)نظریہ ارتقاء کامشہور محقق ہے ۔اس نے اپنی کتاب (The Meaning Of Evolution) میں اس مسئلہ پر بھی بحث کی ہے کہ بقاء (Survival) کے نظریہ کو جس طرح وہ خارجی کائنات میں کارفرما ہے ۔انسانی دنیا کے لئے اخلاق کی بنیاد بنا یا جاسکتا ہے یا نہیں وہ پہلے متقدین کے خیالات و نظریات پر بحث کرتا ہوا ان کی تنقید کرتا ہے او راس کے بعد لکھتا ہے کہ :۔

اس نظریہ کو اگر موٹے سے الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس سے مقصود یہ ہے کہ جوچیز ارتقاء کے لئے مفید ہو و ہ خیر ہے اورجو بقا کے لئے حق میں مضر ہو وہ شر ہے۔ منطقی طور پر نظریہ اخلاق وہی ہے جسے جنگل کا قانون‘‘یا دانتوں اور پنجوں’’ کا ضابطہ اخلاق کہا کرتے تھے۔ اگر اخلاق کامنتہیٰ کسی ایک فرد کا زندہ رہنا ہے تو یہ اخلاق بالکل نفسانفسی کا اخلاق ہے ۔ضمناً یہ بھی سمجھ لیناچاہئے کہ اس نظریہ کی رو سے وہ شخص جو کسی مقصد کی خاطر جان دیتا ہے بہت بڑا آدمی ہے۔خواہ وہ مقصد اچھا ہو یا بُرا۔ جو باپ اپنے بیٹے کی جان بچانے کی خاطر اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالتا ہے وہ بہت برُا شخص ہے کیونکہ اچھا تو صرف وہ ہے جو اپنی جان کی حفاظت کرتاہے۔اس اعتراض کا جوا یہ دیا جاتاہے کہ بقائے مطلب ایک فردکی بقا نہیں بلکہ ایک گروہ یا ایک نوع کی بقاء ہے لیکن اس کے باوجود نظریہ اخلاق اطمینان بخش نہیں ہے۔۔۔ زندہ رہنے کے لئے دوسرے کا خون چوسنا پڑتا ہے کہ ان تمام ذرائع کو خیر کہنابالکل بے معنی ہوجاتا ہے او راس طرح بقائے کے نظریہ کو انسان کے لئے اخلاقی معیار قرار دینا خوش آئند قرار نہیں پاسکتا ۔پھر اسے بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ زندہ رہنا کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہوابدی طور پر زندگی کا باقی رہنا ناممکن ہے ۔ایسا وقت آئے گا جب زندگی کہیں باقی نہیں رہے گی ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ نوع انسانی جب تک ممکن ہوگا باقی رہے گی۔ لیکن محض انسانوں کا زندہ رہنا تو اخلاق کا معیار نہیں بن سکتا اچھے اور برُے کا معیار محض زندہ رہنے کے علاوہ کچھ اور ہونا چاہئے ۔(140)۰

اس بحث کے اخیر پر لکھتا ہے:۔

فطرت میں جس طرح اتقاء کا سلسلہ جاری و ساری ہے اس پر انسانی اخلاقیات کی عمارت تعمیر کرنا بڑی غلطی ہے ایسی کوششوں کا نتیجہ ناکامی کے سوا او رکچھ نہیں ہوسکتا۔(154)

سمپسن کی یہ رائے صرف ہربرٹ اسپنسر کے نظریہ ہی کی تردید نہیں کرتی (کہ خیر وہی ہے جو کسی کے زندہ رہنے میں مُمد ہوسکے) بلکہ ان تمام مفکّرین کی بھی تردید کرتی ہے جن کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم فطرت کے عمل کے مشاہدہ سے انسانی دنیا کے لئے ضابطہ اخلاق مرتّب کرسکتے ہیں ۔اس کے لئے کسی خارجی سند کی ضرورت نہیں ۔ اس طرز فکر کوفطرتیت(Naturalism) یاتھو ڑی سی تبدیلی کے ساتھ نظریہ انسانیت (Humanism) بھی کہتے ہیں۔

اسپنسر کی تردید برگستان کی زبانی:۔۔۔۔۔۔ہربرٹ اسپنسر نے دوسرا نظریہ یہ پیش کیا تھا کہ جس طرح انسان ارتقائی منازل طے کرتے کرتے اپنی موجودہ ہیئت تک پہنچا ہے اسی طرح اخلاق کے مسلّمات بھی بتدریج ارتقائی مراحل طے کر کے مسلّمات بنے ہیں۔ اس کے متعلق برگستان لکھتا ہے۔

چو نکہ ہمارا مشاہدہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایک خاص نقطہ سے آگے زندگی میں ارتقائی سلسلہ چلا ہے یہ تسلیم کرلیا جاتاہے کہ نقطہ آغاز بھی ارتقائی مراحل ہی سے وجود میں آیا ہوگا ۔حالانکہ ہوسکتاہے کہ اس سے پہلے ارتقاء کی صورت ہی کچھ او رہو۔ یا یہ بھی ہوسکتاہے ہے کہ اس سے پہلے ارتقاء خود ہی نہ ہو، اسی طرح چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اخلاقیات کے نظریئے رفتہ رفتہ سنورتے اور منجھتے چلے جاتے ہیں ہم نے خیال کرلیا کہ اخلاقی مسلّمات کے نفظہ آغاز کوئی ہے ہی نہیں ۔یہ سب کچھ ارتقاء کے ذریعہ عمل میں آیا ہے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جب نوع انسانی پہلے پہل شہود پر آئی ہے تو اس کے ساتھ ہی اخلاقیات کے مساوات بھی وجود میں آگئے تھے۔

(The Two Sources Of Morality And Religion:p.260)

یہ چیز کہ اخلاقیات کے مبادیات پہلے پہل کس طرح ظہور میں آئے الگ سوال ہے او راس کی توضیح اپنے مقام پر آئے گی۔ اس وقت صرف اتنا دیکھئے کہ برگستان کے نزدیک اسپنسر کا یہ نظریہ کس قدر غلط ہے کہ اخلاقیات یکسر ارتقاء کی پیداوار ہے۔

اسپنسر کے نظریہ سے ملتا جلتا نظریہ اخلاقیات وہ ہے جو علم الانسان کے ماہرین (Anthropologists) کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے ۔درحقیقت یہ اسنپسر ہی کے نظریہ کی ایک بڑھی ہوئی شاخ ہے او ر اسے اہمیت بھی اسی نے دی تھی۔

علم الانسان کی رو سے نظریہ اخلاقیات:۔۔۔۔اسپنسر نے اپنی کتاب (Social Statics) کے پہلے ایڈیشن میں تو ایک جداگانہ نظریہ پیش کیا تھا۔ جب تیس برس کے بعد اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا ہے تو اس میں اس نے اعلان کیا کہ علم الانسان کے مطالعہ سے اس پر یہ حقیقت و اشگاف ہوئی ہے کہ جس چیز کا نام ہم نے ضمیر (Conscience) رکھ چھوڑا ہے وہ صرف ‘‘معاشرتی احساس ہے جو ہمیں وراثتاً ملتا ہے ’’۔ نظریہ ارتقاء کی طرح اس نظریہ اخلاق کی رو سے بھی یہ تسلیم کیا جاتاہے کہ شروع شروع میں مختلف قبائل نے محض افادی نقطہ نگاہ سے کچھ حدود دقیود متعین کرلیں ۔رفتہ رفتہ ان حدود نے رسومات کی صورت اختیار کرلی اور رسومات آگے بڑھ کر اخلاقی مسلّمات بن گئیں ۔ اب یہی مسلّمات نسلاً بعد نسل متوازت چلے آرہے ہیں ۔لہٰذا خیر (Good) وہ ہے جو ان رسومات(یا وراثتی متعقدات)کے مطابق ہو اور شردہ جو اس کے خلاف ہو ۔بالفاظِ دیگر خیر وہ جسے سوسائٹی اچھا کہہ دے اور شردہ جسے وہ پسندنہ کرے۔ چونکہ ابتدائی قبائلی زندگی میں رسومات پر بڑی سختی سے پابندی کرائی جاتی تھی او ران کی خلاف ورزی کرنے والوں کو معاشرتی سزائیں دی جاتی تھیں۔ اس لئے یہی رسومات جب اخلاق کے مسلّمات بن گئیں تو سزا کا خوف جو غیر شعور طور پر ساتھ چلا آتاتھا فریضہ کی شکل اختیار کرگیا۔ چنانچہ اس باب میں (Edward Westermarck) اپنی کتاب ( The Origin And Development Of Moral Ideas) میں لکھتا ہے کہ ‘‘رسومات اس بنا پر اخلاقی ضابطہ بن گئیں کہ رسم توڑنے کو سوسائٹی میں سخت معیوب سمجھا جاتاتھیا’’۔ (Durkheim) میں اس باب میں لکھتا ہے کہ انسان سوسائٹی کی تاویب سے اس لئے ڈرتاہے کہ گروہ کے ساتھ مل کر رہنا(Herd Instinct) انسان کی فطرت میں داخل ہے۔

محض سوسائٹی کے موروثی اثرات:۔۔۔۔۔۔ وہ سو سائٹی سے الگ ہونے میں ہزار خطرات محسوس کرتاہے ۔ اس لئے وہ سوسائٹی کے قوانین و ضوبط سے انحراف کی جرأت نہیں کرسکتا یہی جذبہ رفتہ رفتہ ‘‘فرائض’’ کی شکل اختیار کرلیتا ہے او راسی احساس کو ہم ضمیر (Conscience) کہتے ہیں۔ وہائٹ (Amber Blance White) چونکہ اخلاقیات کو یکسر سوسائٹی کی تخلیق مانتی ہے اس لئے اس نے اپنی کتاب ( Ethics For Unbelievers ) میں اس موضوع پر شرح وبسط سے گفتگو کی ہے۔ وہ لکھتی ہے کہ خیر انسانی بچہ کی پیدائش کے وقت کہیں موجود نہیں ہوتا، اسے آہستہ آہستہ بچپن میں پیدا کردیا جاتا ہے اور پانچ چھ برس کی عمر تک اس کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ یہ ڈر سے پیدا کی جاتی ہے(37)۔لہٰذا بڑی عمر میں جس چیز کو ضمیر کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ ماں باپ کے ان تہدیدی احکام کی خاموش آواز ہوئی ہے جو بچپن میں انسانی ذہن پر منقوش کردیئے گئے تھے(44) بچپن میں بچہ کی جس حرکت سے ماں باپ ناخوش ہوں ۔ وہاس کیے لئے برائی بن جاتی ہے او رجس حرکت سے خوش ہوں اسے وہ نیکی تصور کرنے لگ جاتا ہے (59) المختصر ہم ساری عمران ہی باتوں کو اچھا کہتے رہتے ہیں جو بچپن میں ہمارے والدین اور اعزا کی پسندیدگی خاطر کا باعث ہوتی تھی او ران باتوں کو بُرا سمجھتے رہتے ہیں جو انہیں ناگوار گزرتی تھی(64/73) ۔انہی تصریحات کو (Briffault) اس مختصر الفاظ میں بیان کرتاہے کہ :۔

پیدائشی اخلاقی شعور یا ضمیر کوئی شے نہیں ۔ضمیر محض سوسائٹی کی پیداوار ہے۔( The Making Of Humanity) حتیٰ کہ برگستان بھی لکھتا ہے کہ ‘‘ابتدا’’ تمام اخلاقیات رسوم ہی تھے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر تہذیب نے انسان میں اصلاحات کی ہیں تو اس کا ذریعہ یہی تھا کہ اس نے اس کے معاشرتی ماحول کو ان خیالات اور عادات سے بھرپور کردیا جو ہرنئی نسل کے وقت سوسائٹی افراد میں پیدا کرتی ہے۔’’

(The Two Sources Of Morality And Religion: p. 113-117)

اخلاق بدلتے رہتے ہیں:۔۔۔۔۔۔ان تصریحات سے واضح ہے کہ علم الانسان (Anthropology) او رعلم المعاشرت (Socilogy) کی رو سے اخلاقی ضوابطہ ان رسوم کے مجموعہ کا نام ہے جنہیں سوسائٹی نے وقتاً فوقتاً اختیار کیا اور جو پھر نسلاً بعدنسل متوازت منتقل ہوتے چلے آئے ۔ ان علوم کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ مختلف قبائل او رمختلف اقوام میں مختلف ضوابطہ اخلاق پائے جاتے ہیں جوبات ایک کے ہاں معیوب ہے دوسرے کے ہاں مستحسن شمار کی جاتی ہے ہم ماں باپ کی تعظیم کرتے ہیں لیکن ایسے قبائل بھی گزرے ہیں جو ماں باپ کو کھاجانا ایک مقدس فریضہ سمجھتے تھے بہت سے ایسے کام جنہیں اقوام عالم جوم قرار دیتی ہی ۔یونانیوں کے ہاں انہیں پسند یدگی کی نگاہوں سے دیکھا جاتاتھا ۔ مقدس (Puritans) حبشی بچوں کو چراکرلے جانے اورآئرستان کے باشندوں کو گولی سے مار دینے میں کوئی قیاحت نہیں سمجھتے تھے۔ (راشڈل جلد اوّل (84)۔

ڈاکٹر (Ruth Benedict) اپنی کتاب(Partierns Of Culture) میں بحرالکاہل کے قریب ایک قبیلہ کے متعلق لکھتی ہے کہ ان کے نزدیک بدیانتی پسندیدہ ترین اخلاق شمار کی جاتی ہے او رجو شخص جس قدر کا میابی سے دھوکا دے سکتاہو اسے اسی قدر عزّت کی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے۔ خود ہندستان میں ٹھگوں کی یہی حالت تھی سپارٹا میں چوری کرنا بہت بڑی خوبی سمجھا جاتا تھا ۔ازمنہ مظلمہ میں لوٹ مار کو ہمیشہ عزّت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا ۔بلکہ وکٹوریہ کے زمانہ تک کسی عورت کی ٹخنہ تک بھی ننگا نہیں ہوسکتا تھا۔ حتیٰ کہ وہ پیانو کی ٹانگوں کو بھی کپڑے سے ڈھانپ دیا کرتے تھے (کہ پیانو ہی کی سہی، ہیں تو بالآخر ٹانگیں۔ او رٹانگوں کو ننگا نہیں رکھا جاسکتا ۔ (Aztecs) کا خیال تھا کہ اگر پوجاریوں کو باقاعدہ انسانی گوشت نہ کھلا جائے گا تو سورج کی روشنی مدھم پر جائے گی ۔ اس باب میں پروفیسر (J.H. Muirhead) لکھتا ہے کہ ‘‘ ان اختلافات کی وجہ یہ ہے کہ اخلاقیات ہر جگہ او رہر زمانہ میں حالات کے مطابق بدلتے رہے ہیں اور اخلاق ہمیشہ اپنے ماحول کے اندر ہی اخلاق رہتا ہے۔’’

(The Elements Of Ethics)

اس کی تردیدرسل کی زبانی:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان تصریحات سے واضح ہوگیا ہوگا کہ علم الانسان اور علم المعاشرت کے مفکّرین کی رو سے اخلاقی ضوابطہ محض سوسائٹی کے رسوم میں جو رفتہ رفتہ مسلمات کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں اورانسان انہی کی پابندی میں اخلاق ضابطہ کی پابندی سمجھنے لگ جاتا ہے ۔لیکن یہ نظریہ بھی اب قابل تسلیم نہیں رہا چنانچہ برٹرینڈرسل اپنے (Reith Lectures) (مطبوعہ (1949) میں لکھتا ہے کہ :۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انسان کو اسی ضابطہ کی پابندی کرنی چاہئے جسے اس کی سوسائٹی نے اختیار کررکھا ہو۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اب علم الانسان کا کوئی طالب علم شاید ہی ایسا ہو جو اس نظریہ سے متفق ہو۔ذرا سوچئے کہ مردم شماری انسانی قربانی انسانی شکار جیسی رسومات پہلے معتقدات کی حیثیت سے مانی جاتی تھیں۔لیکن بعد کے انسانوں نے ان کے خلاف احتجاج کیا اوریہ رسومات قبیحہ بند ہوگئیں ۔اس لئے اگرکوئی انسان فی الواقعہ بہترین زندگی بسر کرنا چاہئے تو اس کا یہی طریقہ ہے کہ وہ ان تمام رسوم ومعتقدات پر تنقیدی نگاہ ڈالے جو اس کے زمانہ میں عام طور پر مروّج ہوں۔( 109)۔

پال کی زبانی:۔۔۔۔۔۔(Leslie Paul) اس موضوع پر بحث کرتا ہوا لکھتا ہے کہ اگر کوئی شخص مختلف سوسائٹیز کا مطالعہ کرے تو اس پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ ایک سوسائٹی ایک قسم کے ضوابطہ اخلاقف کو پسند کرتی ہے او ردوسری سوسائٹی دوسرے قسم کے اور یہ تمام ضوابط بدلتے رہتے ہیں اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ (اس نقطہ نگاہ سے ) تمام ضوابطہ اخلاق اضافی ہیں اور زمانہ کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں اوردوسرے یہ کہ کوئی عمل فی ذاتہ اچھا یا بُرا نہں جسے سوسائٹی اچھاکہہ دے وہ اچھا ہے جسے برُا کہہ دے وہ بُرا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب کوئی فراد اپنی سوسائٹی میں ہوش سنبھالتا ہے تو وہ اپنے آپ کو بنے بنائے ضوابطہ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا پاتا ہے اس کے خلاف ہے ۔ انسان اپنے اعمال کو سوسائٹی کے معیاروں سے نہیں ماپتا بلہ سوسائٹی کے معیاروں کو اپنے داخلی تصورات سے ماپتا ہے۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ فرد معاشرہ سے بلندمقام رکھتا ہے ۔فرد آفاق سے بھی بلند ہے ، فرد آفاق کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس معیار کے مطابق متعین کرتاہے جسے وہ معیار مطلق سمجھتا ہے ۔۔۔ کتنی باتیں ایسی ہیں جن کا معاشرہ کوئی نوٹس ہی نہیں لیتا لیکن جن کے متعلق فرد اپنے دل میں محسوس کرتاہے کہ میں نے یہ برُا کام کیا ہے۔

(The Meaning Of Human Existemce: pp. 208-211)

اسی بنا ء پر (Nocholes Berdyaeu) کہتا ہے کہ :۔

جو چیزیں انسانی زندگی میں فی الحقیقت روحانی اہمیت رکھتی ہیں وہ معاشرتی اثرات سے پیدا نہیں ہوتیں ۔انہیں ماحول کی تخلیق نہیں کہا جاسکتا ۔ و ہ انسان کے اندر سے پھوٹتی ہیں باہر سے نہیں آتیں۔(The Divine And The Huma: p 134)

معاشرہے اور فرد کے باہمی ردّ عمل کے متعلق (W.A. Gauld) رقمطراز ہے:۔

جب یہ پوچھا جائے کہ انسان پر اس کے ماحول کا کیااثر ہوتاہے تو ہم کہیں گے انسان اپنے گرد وپیش کی اشیاء کو اس طرح بدل دیتا ہے کہ ماحول علّت (Cause) نہیں بلکہ معمول (Effect) بن جاتا ہے حقیقت یہ ہے کہ انسان فطرت کو مثاثر کرتا ہے ۔فطرت انسان کو متاثر نہیں کرتی۔( Man Nature And Time:p. 124)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حاصل مبحث:۔۔۔۔۔۔ اس مقام تک ہم نے دیکھ لیا کہ اخلاقیات کے جس قدر نظریئے ہمارے سامنے آچکے ہیں ان کی رو سے تسلیم کیا جاتا ہے کہ:۔

(1)کوئی کام فی ذاتہ نہ اچھا ہے نہ بُرا

(2) اچھا وہ ہوتا ہے جسے سوسائٹی اچھا کہہ دے اور بُرا وہ ہوتا ہے جسے سوسائٹی معیوب قرار دے دے۔

(3) اس لئے اخلاق کے ضوابطہ غیر متبدّل نہیں ہوتے حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔

(4) اچھا وہ ہوتاہے جو :۔

(ا) اس کام کے کرنے والے کے لئے لذّت پیدا کردے یا

(ب) زیادہ سے زیادہ انسانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ نفع رسانی کا موجب ہوسکے اور یا

(ج) تمام نوع انسانی کے لئے موجب خیر وفلاح ہو لیکن

(5) یہ ابھی تک متعین نہیں ہوسکا کہ فائدہ کسے کہتے ہیں ؟ انسایت کی فلاح سے کیا مفہوم ہے اس کے لئے ہر ایک کے نظریئے الگ الگ ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ:۔

(6) افعال کو ان کے نتائج سے اچھا یا برُا کہا جائے گا ۔ وہ فی ذاتہ اچھے یا برُے نہیں ہوتے ۔وہائٹ ہیڈ کے الفاظ میں آج تک کوئی مفکر خیر محض (Absolute Good) کی کوئی ایسی جامع تعریف (Deffinition) نہیں کرسکا جس پر اعتراض نہ ہوسکتا ہو۔(136)

(Adventures Of Ideas: p. 136)

اس لئے :۔

جوں جوں ماحول بدلتا جائے اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی تصورات کو بھی بدلتے رہنا چاہئے ۔۔۔۔ہر فیصلہ کے وقت دیکھنا یہ چاہئے کہ یہ حالات موجودہ کون سی روش بہتریں ہوسکتی ہے۔(318)۔

یعنی پال کے الفاظ میں ‘‘اخلاقیات کا کامیابی کا دوسرا نام ہے’’۔(210) اسی روش کا نام مصلحت کوشی (Expediency) ہے۔لہٰذااس وقت تک ہماراجائزہ ہمیں اسی نتیجہ تک پہنچا رہا ہے کہ انسانی فکر نے اس باب میں جو کچھ سوچا ہے اس کا محو افادیت یا مصلحت کوشی کا جذبہ ہی رہا ہے۔

لیکن اخلاقیات کے متعلق انسانی فکر کا ایک گوشہ ابھی باقی ہے او راسے کہتے ہیں وحدانیت (Intuitionism) نظریہ افادیت کے مطابق اعمال کو ان کے نتا‘ئج کے اعتبار سے اچھا یا بُرا کہا جاتاہے ۔لیکن نظریہ وحدانیت کے مطابق بعض اعمال اپنی ذات میں (Intrinsically) حق (Right) اور بعض اسی طرح فی ذاتہ باطل (Wrong) ہوتے ہیں۔

‘‘سچ بولنا’’ فی ذاتہ عمل خیر ہے خواہ اس کے نتائج کچھ ہی کیوں نہ ہو جھوٹ اپنی ذات میں عمل شر ہے خواہ اس سے کتنا ہی فائدہ کیوں نہ مرتّب ہوجائے ۔ ان اعمال کو بلا دلیل ( Aproiri) اسی طرح جھوٹ بُرا ہے سچ اچھا ہے او ران کا بُرا او راچھا ہونا نہ نتائج کے اعتبار سے ہے نہ محتاج دلیل ۔اگر ہم اس کے لئے کوئی دلیل دے سکیں تو یہ اور بات ہے،لیکن ان کا اچھا یا بُرا ہونادلیل پر موقوف نہیں ہے۔ سچ اچھا ہے خواہ دنیا میں ایک شخص بھی اسے تسلیم نہ کرے۔ اور جھوٹ بُرا ہے خواہ دنیا کے تمام لوگ یہ دلائل وبراہین یہ ثابت کردیں او رمانتے رہیں کہ نہیں! اچھی چیز ہے اسے کہتے ہیں نظریہ وجدانیت (Intuitionistic Theory Of Ethics)

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہمیں کس طرح معلوم ہوگیا کہ فلاں کام اپنی ذات میں اچھا ہے اور فلاں بُرا خیر وہ شر او رحق و باطل کی فہرستیں کس نے مرتّب کیں او ران کی ترتیب کس معیار سے عمل میں آئی ۔ اس سوال کے ضمن میں اس مکتب فکر میں دوگروہ پیدا ہوگئے ہیں ۔ ایک مکتب کا نام داخلیت (Subjective) اور دوسرے کا نام (Objective) ہے۔ داخلیت کو موضوعی اور خارجیت کو معروضی بھی کہا جاتاہے ۔ان دونوں کے فرق کو ایک مثالی سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ ایک شخص دھوپ سے اٹھ کر اور دوسرا ٹھنڈی چھاؤ ں سے اٹھ کر ایک کمر ے میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک کہتاہے کہ کمرہ ٹھنڈا ہے اور دوسرا کہتاہے کہ کمرہ گرم ہے۔ سامنے دیوار پر مقیاس الحرارت لٹک رہاہے دونوں دیکھ کر کہہ دیں گے کہ کمرہ کا درجہ حرارت 80 ہے۔

کمرہ گرم ہے (یا گمرہ ٹھنڈا ہے) کاقول کمرے کے متعلق صحیح طور پر کچھ نہیں بتاتا تھا۔ یہ درحقیقت اس احساس کانام تھا جو ان شخصیوں کو کمرے میں داخل ہوکر ہوا ۔یعنی کمرے کی فضا کے متعلق اپنا اپنا احساس اسے کہتے ہیں داخلیت (Subjectivism) یعنی کسی شے کے متعلق مشاہدہ یا تجربہ کرنے والے کا ذاتی احساس ۔

لیکن کمرے کا درجہ حرارت 80 ہے اس میں کسی کے احساس کا کچھ دخل نہیں یہ ایک خارجی واقعہ کا بیان ہے اسے کہتے ہیں خارجیت (Objectivism) اخلاقیات میں داخلی وجدانیت کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے اندر کوئی چیز ہے جو یہ بتادیتی ہے کہ فلاں کام اچھا ہے اور فلاں بُرا ۔ اس چیز کا نام اخلاقیات کی اصطلاح میں اخلاقی شعور (Moral Sense) ہے ۔اسی کو ضمیر (Conscience) کہاجاتا ہے ۔ اس لئے اس گروہ کا عقیدہ ہے کہ جب تمہارے سامنے کوئی بات آئے تو ااپنے دل سے پوچھئے کہ ایسا کرنا اچھا ہے یا بُرا ۔جوو ہاں کا فیصلہ ہوگا اسی کے مطابق یہ کام اچھا یا برُا بن جائے گا ۔

ضمیر:۔۔۔۔۔۔اگر ضمیر نے اسے (Approve) کرلیا تو وہ اچھا ہوگیا او راگر اس نے سر پھیر دیا تو وہ برُا ہوگیا۔

عقل:۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ضمیر کوئی مستقل معیار نہیں ۔ اس کے فیصلے تو ہر گھڑی بدلتے رہتے ہیں ۔ اس نے یہ فیصلہ دلیل (Reason) کی رو سے ہوناچاہئے ۔مثلاً آپ کا بچہ اگر آپ سے پوچھتا ہے کہ مجھے باغ سے پھول توڑنے چاہئیں یا نہیں تو اس کے جواب میں ہم یہ نہیں کیں گے کہ تم خود اپنے دل سے پوچھو ہم یہ کہیں گے کہ پھول توڑنا چوری ہوگی اور چوری بہت بُری بات ہے۔ اس لئے تمہیں پھول نہیں توڑنے چاہئیں یعنی ہم نے اسے دلیل سے سمجھا یا ہے کہ پھول توڑنا اچھا نہیں۔

موجودفی الخارج حقائق:۔۔۔اس کے جواب میں دوسرا مکتب فکر یہ کہتاہے کہ اگر بچہ یہ پوچھ لے کہ چوری کرنا کیوں بُرا ہے تو اس وقت آپ لامحالہ ان نتائج قبیحہ کاذکر کریں گے جو چوری سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح آپ وجدانیت کے بجائے افادی نظریہ پر آگئے ،لہٰذا نظریہ غلط ہے کہ اچھے او ربرُے اعمال کا معیار دلیل ( Reason) ہے جو چوری اپنی ذات میں بُری ہے ۔ہماری ضمیر اسے بُرا کہتی ہے او رنہ اس لئے کہ ہم اس کے بُرا ہونے کے لئے دلائل پیش کرسکتے ہیں ۔ اس مکتب فکر کو ‘‘خارجی وجدانیت’’ کہتے ہیں۔ حاصل بحث یہ کہ ہمارے سامنے چار سوال ہیں۔

(1)کیا ضمیر کوئی چیز ہے اور اس میں یہ صلاحیت ہے کہ جو بات فی ذاتہ خیر ہے اسے خیر قرار دے دے اور جو چیز ذاتہ شر ہے اسے شر قرار دے دے ۔ یا

(2) کیا عقل یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ خیر کو شر اور شر کرکے دیکھا دے ؟ اور یا

(3)نہ ضمیر میں اس کی استعداد ہے او رنہ عقل ہیں۔بلکہ خیر فی ذاتہ خیر ہیاور شرفی ذاتہ شر۔

(4) اگر شق (3) ٹھیک ہے تو پھر سوال پیداہوتا ہے کہ وہ کونسا ذریعہ ہے جس سے معلوم ہوسکے کہ فلاں بات خیر ہے اور فلاں شر۔

سب سے پہلے ہمارے سامنے کا نشنس (Conscience) یعنی ضمیر کا سوا ل آتا ہے (اس کے متعلق ہم پہلے بھی سرسری ساذکر کرچکے ہیں ۔لیکن اس مقام پر ذرا تفصیل سے گفتگو کی جائے گی)۔

 ضمیر کی بحث:۔۔۔۔۔ آ پ کے پا س ایک شخص کچھ روپے بطور امانت چھوڑ گیا ہے ۔ اس کا کوئی گواہ نہیں اس کے متعلق کسی تیسرے شخص کو کچھ علم نہیں ۔چند دنوں کے بعد وہ شخص مرجاتا ہے اور اب دنیا میں یہ راز صرف آپ کے پاس رہ جاتا ہے کہ اس کا کچھ روپیہ آپ کے پاس ہے آپ کا جی چاہتا ہے کہ اس روپیہ کو ہضم کرجائیں لیکن آپ کے اندر کوئی آواز ہے جو آپ سے کہتی ہے کہ ایسا نہیں کرناچاہئے۔ آپ اٹھتے ہیں او روہ روپیہ متوفی کے بیٹے کے سپرد کرآتے ہیں کہ وہی اس کا وارث تھا۔

اس آواز کس جس نے آپ سے کہاہے کہ اس روپے کو ہضم کرجاناٹھیک نہیں، ضمیر کا نشنس کہا جاتا ہے ،ایک مکتب فکر کا خیال ہے کہ یہ آواز ہر انسان کے سینے میں موجود ہوتی ہے یہ اسے فطرت کی طرف سے از خود ملتی ہے ۔یہی چیزانسان کو حیوانات سے متمّیّز کرتی ہے۔ حیوان کے سینے میں ضمیر کی آواز نہیں ہوتی اس کامہبط صرف قلب انسانی ہے۔( Leslie Paul) کے الفاظ ہیں:۔

حیوانات نا کام رہ سکتے ہیں نادم نہیں ہوتے ۔ ان پر ان کی ناکامی کے اثرات صرف طبیعی (Physical) ہوتے ہیں وہ خجالت اور ندامت کے احساس سے ناآشنا ہوتے ہیں ۔انسان بھی ناکام رہ سکتا ہے او ر ناکامی کے تمام طبیعی اثرات سے متاثر بھی ہوسکتا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ اس ناکامی بھی اس کادل مطمئن ہو۔ اس لئے یہ طبیعی نقصانات اس پر کچھ اثر ہی نہ کریں۔ اس کے برعکس یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان طبیعی طور پر کامیاب ہوجائے لیکن (جس طریق سے اس نے کامیابی حاصل کی ہے اس سے) ا س کا دل کرب واضطراب کا جہنم بن رہا ہو ۔ اس لئے‘‘ احساس گناہ ’’انسان تک محدود ہے حیوانات اس سے شناسا نہیں ۔

ڈریش کا خیال ہے کہ یہی اخلاقی شعور ، اس حقیقت کا سراغ دیتا ہے کہ انسان کا تعلق ماقوق الانسانی دنیا سے بھی ہے اور ایسانظر آتاہے کہ ضمیر وہ ذریعہ ہے جس سے یہ ‘‘ ماقوق الانسانی قوت’’ انسانی ارادہ کی راہ نمائی کرتی ہے۔(60) (The Problem Of Individuality:p.60)

سمیوئیل بٹلر لکھتا ہے ۔

یہ ثابت کی جاچکا ہے کہ انسان کی فطرت خود اس کے لئے قانون ہے۔۔۔۔ اس قانون کی اطاعت خو د اپنی فطرت کی اطاعت ہے جس کا م کے صحیح ہونے کی شہادت تمہارا ضمیر دے دے اس کا کرناتم پر فرض ہو جاتا ہے۔ ضمیر اتنا ہی نہیں کرتی کہ وہ سیدھے راستے کی طرف ہماری راہنمائی کردے ۔بلکہ یہ اپنے فیصلوں کے لئے اپنی سند آپ بنتی ہے یہ ہماری فطری راہنمائی ہوتی ہے ۔ضمیر کی راہنمائی خود خالق فطرت کی عطا کردہ ہے(Upon Human Nature)

یہاں سے صرف اتنا معلوم ہوا کہ انسان کے اندر کوئی قوت ایسی ہے جو اسے بُرے کاموں سے روکتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا یہ قوت اس امر کا فیصلہ بھی کرسکتی ہے کہ فلاں کام فی ذاتہ بُرا (Intrinsically Wrong)ہے اس لئے اس سے مجتنب رہنا چاہئے ؟ اگر اس میں یہ صلاحیت موجود ہو تو پھر ‘‘ اخلاقیات’’ کے متعلق کچھ سوچنے او رلکھنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ پھر تو مسئلہ یوں ہوجائے ککہ:۔

(1) ضمیر وہ کسوٹی ہے جو کھوٹے اورکھرے کو الگ الگ کردیتی ہے۔

(2) ہر انسان کے اندر ضمیر موجود ہے۔

اس لئے

(3) ہر انسان از خود کھرے اور کھوٹے کا امتیاز کرسکتا ہے۔

اور چونکہ

(4) کھڑا’ اپنی ذات میں کھرا او رکھوٹا اپنی ذات میں کھوٹا ہے اس لئے کھرے او رکھوٹے کی عالمگیر فہرستیں (Universal Lists) موجود ہونا چاہئیں۔

اس کی تردید:۔۔۔۔۔۔لیکن کیا واقعہ یہی ہے؟ بالکل نہیں ہمارا روز مرّہ کا مشاہدہ ہے کہ مختلف اشخاص کا ضمیر کھر سے اور کھوٹے کے متعلق الگ الگ فیصلے دیتا ہے گوشت کی رکابی مسلمان اور جینی کے سامنے آجاتی ہے ایک بسم اللہ کہہ کر کھانا شروع کردیتا ہے اور دوسرا ہری ہری پکار کر کانوں پر ہاتھ دھر لیتا ہے ۔پھر اگر اس مسلمان سے کہہ دیا جائے کہ گوشت سورکا تو اسے کھانا تو ایک طرف وہ چائے گا کہ جس قدر کھا چکا ہے اسے بھی قے کرکے باہر نکال دے لیکن اس کے سامنے بیٹھا ہوا انگریز اس لحم خنزیر کو چٹخارے لے لے کر کھائے گا ۔یہ تینوں انسان ہی ہیں اور تینوں کے سینے میں ضمیر ہے لیکن ضمیر کی آواز ہر ایک کے لئے مختلف ہے ۔اگر ضمیر کی آواز ساری دنیا کے انسانوں کے لئے ایک ہی ہوتی تو صحیح اور غلط ،خیر و شر ،حق وباطل کے متعلق یہ جھگڑے ہی کیوں پیدا ہوتے؟ اس سے ظاہر ہے کہ ضمیر کی آواز خیر وشر کا مطلق معیار (Absolute Standard) نہیں بن سکتی ۔

آپ نے (Dale Carnegie) کی کتاب (How to Win Friends And Influence People) پڑھی ہوگی۔ اس کے پہلے ہی باب میں دیکھئے وہ ڈاکو جس کی گردن پر بیسیوں بے گناہوں کا خون تھا ،جب پولیس کامقابلہ کرتے ہوئے پکڑا گیا تو اس نے شدّت جذبات کے ساتھ ہاکہ تم مجھے ڈاکو او رقاتل سمجھتے ہوں۔ حالانکہ میرے سینے میں ایک مغموم لیکن نہایت رقیق قلب ہے جو کسی کو اذّیت نہیں پہنچا سکتا اور جب اسے موت کی سزادی گئی تو اس نے آخر ی بات یہ کہی کہ مجھے یہ سزا اس لئے دی جارہی ہے کہ میں نے اپنی جان بچانی چاہی تھی۔ اور ایک اسی ڈاکو ہی پر کیا موقوف ہے۔ساری دنیا

ڈاکوؤں سے بھری پڑی ہے خواہ ان کے نام دنیا نے کچھ ہی کیوں نہ رکھ لئے ہوں۔غور کیجئے کہ ان میں ہر ڈاکو ہزاروں کمزوروں اور بے کسوں کا خون چوس کر کس اطمینان کی نیند سوجاتا ہے ۔یہی نہیں کہ ان کی ضمیر انہیں کچھ نہیں کہتی بلکہ ضمیران کے اعمال کو مزّین بنا کر دیکھاتی ہے ۔فریڈ (Lan Freed) اپنی کتاب (Social Pragmatism) میں اس موضوع پر بحث کرتا ہوا کہتاہے کہ اگر ضمیر کی آواز کو خیر و شر کے لئے سند مان لیا جائے تو یہ سند صرف اس شخص کے لئے سند (Authority) بن سکتی ہے جس کی ضمیر اسے ایسا کہتی ہے ،میری ضمیر کا فیصلہ آپ کے لئے سند نہیں قرار دیا جاسکتا اوراگر ‘‘اخلاقیات ’’میں خیر وشر کے متعلق ہر شخص کا اپنا فیصلہ اس کے لئے سند قرار پا جائے تو انسانی کاروبار ایک دن کے لئے بھی نہیں چک سکتا ۔اخلاقیّن کے نزدیک بااصول وہ شخص ہے خو خارجی اثرات سے متاثر نہ ہو بلکہ اپنی ضمیر کی آواز کے مطابق عمل کرے اس اصول کے مطابق ایک بہت بڑا ڈاکو کوبھی بااصول انسان سمجھا جائے گا ان تصریحات کے بعد (Freed) لکھتا ہے کہ :۔

اب اخلاقیین سے تسلیم کرتے ہیں کہ ضمیر دوسرے لوگوں کے اعمال کے صحیح یا غلط ہونے کا فتویٰ نہیں دے سکتی ۔حقیقت تویہ ہے کہ ضمیر مطلق(Absolute Conscience) کوئی شے نہیں ہر شخص کی اپنی اپنی ضمیر ہوتی ہے اور اس کا کام یہ ہوتاہے کہ وہ اشخص کے جذبات وغیرہ کو اپنے معیار کے مطابق ضابطہ میں رکھے ۔ اس معیار کی سند بھی ضمیر آپ ہی ہوتی ہے۔ (120)

اسی بنا پر مس وہائٹ لکھتی ہے کہ جسے ہم ضمیر کی آواز کہتے ہیں وہ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کرتی کہ :۔

جب ہم کسی شدید جذباتی کشمکش میں گرفتار ہوتے ہیں تو جس بات کو ضمیر اچھا سمجھتی ہے اس کے متعلق بہت سی گزری ہوئی باتوں کی یاد تازہ کردیتی ہے تاکہ وہ اس کی تائید کا کام دیں ۔۔۔ اگر کسی شخص کی ابتدائی تربیت مذہبی ماحول میں ہوئی ہے تو ان میں بہت سی یادداشتیں مذہب کا لباس پہن کر سامنے آجائیں گی۔۔۔ ضمیر کا یہ کام ہیکہ وہ انسان کے خیر وشر سے متعلق تصورات کا عملاً نفاذ کردے۔ یہ تصورات جیسے بھی ہوں ضمیر انہیں نافد کردے گی چونکہ یہ تصورات ہر انسان میں مختلف ہوتے ہیں۔ ا س لئے ہم اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ خیر و شر کے متعلق ضمیر کا فیصلہ قابل اعتبار نہیں ہوسکتا ۔اگر انسان خیر و شر کی تمیز میں غلطی کرتا ہے تو اس کا الزام ضمیر کے سر نہیں تھوپنا چاہئے یہ تو ان تصورات کا قصور ہے جو انسان نے اپنے اندر قائم کررکھے ہیں اور جنہیں نافذ کرنے کیلئے ضمیر مجبور ہے۔(Ethics For Unbelievers: p.57)

وائیکونٹ سیموئیل لکھتا ہے :۔

اگر یہ صحیح ہوتاکہ انسان کے اندر ایک ایسی فطرح حیلّت ہے جو آزادانہ فیصلے کرتی ہے اور حق و باطل کی تمیز میں کبھی غلطی نہیں کرتی تونیک عمل کے ہر معاملہ میں انسان ہمیشہ ہوا کرتے اورآج بھی متفق نظر آتے ۔لیکن یہ ظاہر ہے کہ اس قسم کی ہم آہنگی نہ کبھی پہلے ہوئی ہے او رنہ آج ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ کسی شخص کا یہ کہنا کہ ‘‘میں نے فلاں بات کو نہایت دیانتداری سے حق سمجھ کر اختیار کریا ہے’’۔ اس بات کو فی الحقیقت حق نہیں بنا سکتا ۔(Belief And Action)

ان تصریحات ہم نے دیکھ لیا کہ اخلاقیین کے نزدیک:۔

(i) انسان کے اندر کوئی قوت ایسی ہے جو اخلاقی شعور (Conscience) کی حامل ہے یعنی انسان بعض چیزوں کو اچھا او ربعض کوبُرا سمجھتا ہے ۔بالفاظ دیگر ہر انسان اقدار (Values) کا کچھ نہ کچھ تصور رکھتا ہے ۔۔۔۔لیکن

(ii) یہ قوت ایسی نہیں جو اچھے او ربُرے کا معیار بن سکے۔

لہٰذاضمیر ،خیر وشر اور حق و باطل کامعیار مطلق نہیں بن سکتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔xxxxxxxxxxx۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( جاری)

---------------

Part: 1- 'What did the man think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Preface—Part 1 انسان نے کیا سوچا

Part: 2 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: First Chapter on Mechanical concept of life—part 2 انسان نے کیا سوچا: باب اوّل،میکانکی تصوّر حیات

Part: 3 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 3 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 4 – 'What Did The Man Think?' By Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 4 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 5 – 'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 5 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

Part: 6 –  'What did the man think?' by Ghulam Ahmad Parwez: Chapter 2, Modern Materialist Research—Part 6 انسان نے کیا سوچا :باب دوم، عصر حاضر کے مادّیئین کی تحقیق

URL: https://newageislam.com/books-documents/ghulam-ahmad-parwez-man-think-ethics--part-7/d/130699

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..