محمداسلم
قسط ۱۶
رَدِّ عمل
اکبر کی بدعات کا اگر
اسلامی ذہن سے مطالعہ کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا چنداں دشوار نہیں کہ وہ مُرتد
ہوچکاتھا ، اسلام اور خود مسلمانوں کے لئے یہ بڑا نازک وقت تھا، حضرت مجدّد الف
ثانیؒ رقمطراز ہیں، ‘‘مسلمانان ازاظہار احکام اسلام عاجز بودند واگر میکردندبقتل
میر سید ند’’۱۔
ایک دوسرے مکتوب میں آپ یوں تحریر فرماتے ہیں،‘‘ اگر مسلمانے شعاراز شعائر اسلام
اظہار نماید بقتل میرسد۲۔ایک
اور جگہ آپ اسلام کی کس مپرسی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں:۔
ورقرن سابق کفار برملا
بطریق استیلاء اجراء احکام کفر دروارِ اسلام میکر وند ومسلمانان از اظہار اسلام
عاجز بودند واگر میکردند بقتل می رسید ند، داویلا ،وامصیبتا ،واحسرتا،واحرنا۔محمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ محبوب رب العالمین است مصد قان اوخواروذلیل بودند
ومنکران او بعزت واعتبار ،مسلمانان بادلہای ریش درتعزیت اسلام بودند ومعاندان
سخریہ واستہز برجراحتہائے ایشان نمک پاشید ند، آفتاب ہدایت ورتتق ضلالت مستور بود
ونور حق درحجب باطل منزدی ومعزول۳۔
گذشتہ عہد میں کفار برملا
سینہ زوری سے اس دارالاسلام میں کفر کے احکام جاری کرتے تھے او رمسلمان احکام
اسلام کی ادائیگی سے عاجز تھے، اگر کبھی وہ ایسا کرتے تو قتل کئے جاتے واویلا،وامصیبتا
،واحسرتا، واحزنا، خدا کے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ذلیل
وخوار تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منکروں کی عزت کی جاتی تھی ۔مسلمان اپنے
زخمی دلوں کے ساتھ اسلام کی تعزیت میں مصروف تھے اور دشمن مذاق اور تمسخر سے ان کے
زخموں پر نمک چھڑکتے تھے ۔ہدایت کا آفتاب گمراہی کے پردوں میں چھپا ہوا تھا اور
نور حق باطل کے حجاب میں پنہاں تھا۔
ایک او رموقع پر آپ یوں
فرماتے ہیں:۔
غربت اسلام تاسجدے رسیدہ
است کہ کفار برملا طعن اسلام زوم مسلمانان می نماینددبے تحاشا اجراء احکام کفرو
مداحی اہل آن درکوچہ وبازار میکندومسلمانان از اجراء احکام اسلام ممنوع
اندودرایتان شرائع مذموم ومطعون۔
اسلام کی غربت اب اس حد
کو پہنچ چکی ہے کہ کافر برملا اسلام او رمسلمانوں کو لعن طعن کرنے لگے ہیں ۔ وہ
بلا تردد احکام کفر جاری کرتے اور گلیوں اور بازاروں میں ان کی تعریف کرتے پھرتے
ہیں۔نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو احکام شریعت نافذ کرنے سے روکا جاتاہے بلکہ ان احکام
پر اعتراضات بھی کئے جاتے ہیں۔
پری نہفتہ رُخ
ودیودرکرشمہ وناز
بسوخت عقل زحیرت کہ این
چہ بوالعجبی است
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۔
ایضاً۔مکتوب ۴۷
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبحان اللہ وبحمدہ
‘‘الشرع تحت السیف’’ ۔گفتہ اندورونق شریعت رابسلاطین وابستہ اند، قضیہ منعکس گشتہ
است ومعاملہ انقلاب پیدا کردہ است ،داحسرتا ، وامذامتا، واویلا۴۔
سبحان اللہ بحمدہ ۔شریعت
کو تلوار کے تابع رکھا گیا ہے او راسلام کی رونق کا ذمہ دار سلاطین کو ٹھہرا یا
گیا ہے۔یہاں معاملہ ہی برعکس ہے اور ہر چیز الٹی نظر آتی ہے، واحسرتا، واندامتا،
واویلا۔
آخر میں حضرتؒ کی یہ
تحریر بھی ملاحظہ فرمائیے۔‘‘کفار ہند بے تحاشی بدم مساجد مے نمایند ودرآنجا تعمیر
معبد ہائے خود میسا زند’’۵۔
‘‘صلح کل’’ بادشاہ کے عہد میں کفار کے حوصلے اتنے بڑھ گئے تھے کہ
مسلمانوں کی زندگی اجیرن بن گئی تھی۔حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہوگئے تھے کہ خود حضرت
مجددالف ثانیؒ اس دور میں ظہور مہدی کے منتظر تھے۔ ان حالات میں شیخ سلیم چشتیؒ کے
فرزند شیخ بدرالدین مکہ مکرمہ چلے گئے اوراپنی بقیہ عمر وہیں گزاری۶۔ شیخ عبدالحق محدّث دہلویؒ
جب حدیث کی سند لینے حجاز گئے تو ہندوستان واپس آنے کا ارادہ فسخ کردیا، شیخ
عبدالوہاب متقیؒ کا رہتی دنیاتک ہندوستان کے مسلمانوں پر یہ احسان رہے گا کہ انہوں
نے شیخ موصوف کو دہلی جاکر احیائے شریعت کے لئے کام کرنے کا مشورہ دیا۷۔ ورنہ ہندوستان اس بزرگ
کی دینی خدمات سے محروم رہ جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔
ایضاً،مکتوب۶۵۔ ۵۔
ایضاً ۔جلد دوم،مکتوب ۹۲۔ ۶۔
منتخب التواریخ ،جلد۲،ص
۲۱۲
۷۔
حیات شیخ عبدالحق محدّث دہلوی ،ص ۱۱۹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شریعت کی خاطر سرپر کفن
باندھ کر میدان میں نکلے جونپور کے قاضی ملّا محمد یزدی نے ،جو ایک مانے ہوئے عالم
تھے، یہ فتویٰ دیاکہ اکبر مرتد ہوچکاہے ، اس لئے اس کے خلاف تلوار اٹھاناہر مسلمان
کا فرض ہے۸۔
قاضی بنگال میر یعقوب او رفاضی لان برنی نے بھی اس فتویٰ کی تائید کی ۔پنجاب کے
اکثر وبیشتر علماء نے ملا محمدیزدی کی جرأت کی داد دیتے ہوئے اکبر کے خلاف جہاد
کافتویٰ دے دیا۹۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنگال ، بہار اور اضلاع پورب میں اکبر کے خلاف بغاوت ہوگئی
اور محمد معصوم کابلی، میر معز الملک ، نیابت خان، محمد معصوم خان فرنخودی اورعرب
بہادر جیسے جانباز اکبر کے خلاف صف آراء ہوگئے۱۰۔ بعض امراء نے اکبر کی
بجائے حکیم میرزا کو تخت پر بٹھانے کامنصوبہ تیار کیا اور اس کے ساتھ خط وکتابت
شروع کردی۱۱۔
بنگال او ربہار میں ،جہاں اکبر کے خلاف بغاوت ہوگئی تھی، جمعہ کے خطبہ سے اکبر
کانام حذف کرکے اس کی جگہ حکیم میرزا کا نام شامل کردیا گیا۱۲۔
باغی امراء کی قیادت بابا
خان جباری اور وزیر حنبیل نے کی او رکافی مدّت تک وہ اکبر کے لئے درد سر بنے رہے
،اکبر نے ان کے خلاف فوج کشی کی اور فریقین میں گھمسان کی جنگ ہوئی، لیکن بدقسمتی
سے باباخان عین معرکہ کا ر زار میں کام آیا۱۳۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۸۔
دی کیمبرج ہسٹری آف انڈیا ،جلد ۴،
ص ۱۲۶
۹۔
امام الہند شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسمٰعیل شہیدؒ بھی اکبر جیسے ‘‘کافر ،زندیق
ومرتد’’ حاکم کے خلاف خروج کو جائز قرار دیتے ہیں۔منصب امامت ،ص ۹۷۔
۱۰۔
منتخب التواریخ ،جلد۲،ص
۲۷۶
۱۱۔
مغل نوبلٹی ، ص ۱۷۳ ۱۲۔
ایضاً ۔ ۱۳۔
تاریخ محمدی ،ورق ب ۱۰۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیر میر کی نامی ایک
سردار جو اپنی فوج لے کر باغیوں کی مدد کوآرہا تھا۔شاہی افواج کے ہاتھ لگا ۔اکبر
نے اس کا سرقلم کروادیا۱۴۔
حسین بیگ چتراد قلی بھی اکبر کے خلاف لڑتا ہوا میدان جنگ میں کام آیا۱۵۔ باغی امراء کازور
ٹوٹتے ہی علماء کی پکڑودھکڑ شروع ہوئی۔ قاضی بنگال میر یعقوب بھی گرفتار ہوئے اور
اکبر نے ان کے دست وپا باندھ کر دریائے جمنا میں پھینکوا دیا۱۶۔ ملّا محمد یزدی او
رمیر معزالملک بھی میر یعقوب کی طرح دریائے جمنا میں پھینکے گئے۱۷۔ قاضی لان برنی کو اکبر
کے حکم سے ذبح کیا گیا۱۸۔
لاہور کے اکثر علماء کو اکبر نے مروا ڈالا اور بقیتہ السیف میں سے قاضی صدرالدین
لاہوری ،ملّا عبدالشکور ملّا محمد معصوم اور شیخ منور کو دور دراز علاقوں میں جلا
وطن کردیا۱۹۔معین
الدین الواعظ ہرویؒ کے پوتے شیخ معین سے جوجہ کبرسنی درگذر کیا۲۰۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ
کے خسر شیخ سلطان تھا نیسریؒ کو کسی بہانے سے تختہ دار پر لٹکا دیا۔
ڈاکٹر محمد یٰسین رقمطراز
ہیں کہ وقتی طور پر اکبر باغیوں کو دبانے میں کامیاب ہوگیا لیکن اس کی وفات کے بعد
راسخ العقیدہ مسلمان اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے۲۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۴۔
ایضاً ،درق ۱۰۳
الف
۱۵۔
ایضاً ۔ورق ب ۱۰۳
۱۶۔
منتخب التواریخ ،جلد۲
،ص ۲۷۷
۱۷۔
i۔ ایضاً ۔ ii۔ تاریخ محمدی ،ورق ۱۰۳ الف۔
۱۸۔
ایضاً ،ورق ۸۲
الف
۱۹۔
منتخب التواریخ ،جلد۲
،ص ۲۷۷
۲۰۔
ایضاً۔
۲۱۔
اے سوشل ہسٹری آف اسلامک انڈیا ،ص ۱۴۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکبر کے آخر ایام زندگی
میں اس کے حواریوں میں سے راجہ ٹوڈرمل ایک ایک کرکے راہی ملک بقا ہوئے ۔ ان کے
مرنے سے شاہی دربار میں جو خلا پیدا ہوا اسے پرُ کرنے کے لئے راسخ العقیدہ اُمراء
آگے بڑھے، ان میں شیخ فرید بخاریؒ، قلیچ خانؒ ، میرزا عزیز کوکلتا ش ، میراں صدر
جہاں اور عبدالرحیم حان خانان پیش پیش تھے ۔ ان امراء نے دربار میں اپنی ایک جماعت
قائم کرلی جسے حضرت مجدّد الف ثانیؒ ۔جرگہ ممدّان دولت اسلام۔ کے نام سے یاد کرتے
ہیں۔ ان امراء کی کوشش او رہمت سے اسلام کو کافی حد تک تقویت پہنچی لیکن ان کا اثر
زیادہ تر شاہی دربار اور سرکاری حلقوں تک ہی محدود رہا۔
شاہی دربار سے باہر حضرت
خواجہ باقی باللہ ؒ اورحضرت مجدّد الف ثانیؒ تحریک احیائے دین کے روح رواں تھے، یہ
دونوں بزرگ ان اُمراء کو بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنے اور ترویج شریعت کے لئے
کوشش کرنے کی ترغیب دلاتے رہتے تھے۔ اپنے اور پرائے سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ ان
اُمراء نے یہ عہد کیا تھا کہ اکبر کی وفات کے بعد اس شہزداے کی حمایت کریں گے جو
ملک میں احکام شریعت نافذ کرے گا۔ چنانچہ جہانگیر نے ان کے ساتھ اس بات کا عہد کیا
او ران امراء کی کوشش سے جہانگیر کو اس وقت تخت ملاجب خسرو کی جانشینی کے قریب قریب
تمام مراحل طے ہوچکے تھے۔
جہانگیرکی تخت نشینی سے
گواسلام کو سنبھالا مل گیا تھا، لیکن اکبر کا لگایا ہوا زخم اتنا کاری تھا کہ وہ
اتنی جلدی مندمل نہیں ہوسکتا تھا ۔ اس کام کے لئے کسی مرد حق کی ضرورت تھی۔
آخر آمد آن یارے کہ مامی
خواستیم
اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ
کام حضرت مجدّد الف ثانیؒ سے لیا اور ان کی اصلاحی تحریک سے اسلام کو ہندوستان میں
صحیح مقام مل گیا ،حضرت مجدّد الف ثانیؒ کا کارنامہ بذات خود ایک ضخیم کتاب کا
متقاضی ہے لہٰذا اسے ہم عنقریب ہی قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضمیمہ
آنجہانی مکھن لال رائے
چوہدری کا شمار ان ہندوفضلاء میں ہوتاہے جو علوم اسلامیہ پر ‘‘سند’’ مانے جاتے
ہیں۔ اسلام اورمسلمانوں کے متعلق ان کی وسیع معلومات کی بنا پر ان کے حواری انہیں
‘‘ مولوی مکھن لال’’ کہہ کر پکارا کرتے تھے ‘‘مولوی صاحب’’ نے ۔The
din-i-ILAHi۔۔کے
نام سے انگریزی زبان میں ایک ضخیم کتاب لکھی تھی جو 1941 ء میں کلکتہ سے شائع
ہوچکی ہے ۔ اس کتاب پر تقریظ لکھتے ہوئے پٹنہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے لکھا
تھا اس موضوع پر اتنی مستند او ربلند پایہ تصنیف آج تک دیکھنے میں نہیں آئی ۔ میں
اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہو ں کہ اس موضوع پر اتنی غیر
مستند اور سطحی سی کتاب آج تک دیکھنے میں نہیں آئی۔‘‘ مولوی صاحب ’’ جن کی فارسی
اور تاریخ دانی کا ڈھنڈورا ہندوستانی مؤرخ بڑے زور وشور سے پیٹتے ہیں میرے خیال
میں فارسی او رعلوم اسلامیہ سے بالکل نابلد تھے۔ میں اپنے اس دعوے کے ثبوت میں ان
کتاب سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔
بدایونی نے منتخب
التواریخ میں ایک موقع پر اپنے والد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے،‘‘ والد مرحومی
ومغفوری شیخ ملوکشاہ’’۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔
منتخب التواریخ ،جلد۲،ص
۵۳
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا ترجمہ مولوی مکھن
لال یوں کرتے ہیں۲۔''My
MATERNAL GRAND FATHER SHAIKH MULUK SHAH''
بدایونی نے اکبر کے متعلق
لکھاہے کہ وہ سنسکرت زبان میں سورج کے ‘‘ہزار دیک’’ اسماء کاورد کیا کرتاتھا۳۔ مولوی مکھن لال نے
‘‘ہزار دیک ’’ کا ترجمہ ONE THOUSAND AND EIGHTکیا
ہے۴۔
اسی ‘‘ مولوی صاحب’’ روضۃ الاحباب کو RAWATU - I- AKABپڑھتے
ہیں۵۔
‘‘مولوی صاحب ’’ جن کے متعلق مشہور ہے کہ وہ علوم اسلامیہ پڑ گہری نظر ’’ رکھتے
تھے ،امام اہل سنت، حضرت مالک بن انسؒ کو شیعوں کاامام بتاتے ہیں۶۔ قاضی حسین عرب مالکی
کو اکبر نے دارالحکومت کا قاضی مقرر کیا تھا۔ ‘‘ مولوی صاحب’’ چونکہ امام مالکؒ کو
شیعہ سمجھتے ہیں اس لئے قاضی حسین عرب کے ساتھ ‘‘مالکی’’ کی نسبت پڑھ کر وہ یہی
سمجھے کہ وہ بھی شیعہ ہیں۸۔اس
کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا جب کسی شیعہ کا تقرر عدلیہ میں ہوا تھا
۔ایک دوسرے موقع پر ‘‘مولوی صاحب’’ لکھتے ہیں کہ حضرت حسنؓ سے لے کر امام زین
العابدینؒ تک شیعوں کے بارہ امام ہوئے ہیں، جن میں محمد باقرؒ ،اکبری او رابوقاسم
بھی شامل ہیں۹۔
میرے خیال میں وہ امام حسن عسکریؒ کو اکبری او رامام موسیٰ کاظمہؒ کو ابوقاسم
سمجھتے ہیں ۔ایک اور موقع پر انہوں نے آئمہ اہل بیت کے نام اس ترتیب سے گنوائے ہیں۱۰۔ علی ،حسن، ظفر صادق
موسیٰ قاسم ، علی رضا، تقی اور حسن ۔رحمۃ اللہ علیہم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۔
دی دین الٰہی ،ص ۲۷۱
۳۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲
،ص ۵۳۔
۴۔
دی دین الہٰی ، ص ۳۷۱
۵۔
ایضاً ،ص ۵۹۔
۶۔
ایضاً ،ص ۱۳۱
۷۔
منتخب التواریخ ،جلد ۲
ص ۲۰۹
۸۔
دی دین الہٰی ،ص ۷۹
۹۔
ایضاً ،ص ۱۲۹
۱۰۔
ایضاً ،ص ۱۲۸
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عہد اکبر ی کے مشہور شیعی
عالم ملّا یزدی کو ، جو جونپور میں قاضی کے منصب پر فائز تھے، مولوی مکھن لال قاضی
یزید لکھتے ہیں ۱۱۔
ایک اور جگہ ان کا نام ملّا محمد یزیدبھی دیکھنے میں آیا ہے۱۲۔ اکبر کے ایک باغی
سردار وزیر جنیل کو ‘‘مولوی صاحب’’ وزیر جمیل ۱۳۔ او ردھم خان کو آدم
خان لکھتے ہیں۱۴۔
سید محمد میر عدل امروہہ کے رہنے والے تھے اس لئے عہد مغلیہ کے مؤرخ انہیں ‘‘سید
محمد میر عدل امروہہ’’ لکھتے ہیں۔‘‘مولوی صاحب’’ نے ہر جگہ امروہہ کو AMBOA ہی لکھا ہے۱۵۔ مولوی مکھن لال نے ایک
جگہ OJUکا ذکر کیا ہے میں بادی
النظر میں اس سے کوئی مطلب اخذنہ کرسکا ۔ایک او رموقع پر جب میں نے OJUکے
ساتھ بریکٹ میں ABLUTION BEFORE PRAYER لکھا دیکھا تو سمجھا
کہ ‘‘ مولوی صاحب’’ وضو کا ذکر فرمارہے ہیں۱۶۔ اسی طرح ‘‘مولوی صاحب’’ آیت الکرسی سے A
COMMENTARY ON THE QURAN مراد لیتے ہیں ۱۷۔
‘‘مولوی صاحب’’ نے اپنی کتاب میں متعدد موقعوں پر محمد حسین آزاد کی مشہور تصنیف
‘‘دربار اکبری’’ کے حوالے دئے ہیں لیکن ہر جگہ اسے ‘‘دربار اکبر’’ ہی لکھا ہے۱۸۔ اسی طرح وہ متھرا کے قاضی
عبدالرحیم کو عبدالرحمن ہی سمجھتے رہے ہیں۱۹۔
مستشرقین یورپ کی طرح
مولوی مکھن لال بھی آیات قرآنی کو آگے پیچھے سے حذف کرکے بالکل غلط مطلب اخذ کرتے
او رمسلمانوں کو ظالم اور جابر ثابت کرتے ہیں۲۰۔ ‘‘مولوی صاحب’’ نے شیخ
صفی الدین اروبیلی کو، جوشاہان صفویہ کے جدّا علیٰ تھے ، شیعہ لکھا ہے۲۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۱۔
ایضاً ،ص ۱۳۵۔ ۱۲۔
ایضاً ،ص ۸۹ ۱۳۔
ایضاً ،ص ۹۱
۱۴۔
ایضاً ،ص ۱۳۵۔ ۱۵۔
ایضاً ،ص ۶۳۔ ۱۶۔
ایضاً۔
۱۷۔
ایضاً ،ص ۷۵۔ ۱۸۔
ایضاً، ص ۶۵،۱۰۰ ۱۹۔
ایضاً ،ص ۸۵
۲۰۔
ایضاً ،ص ۲، ۲۱۔ ایضاً ،ص ۲۲۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو حقیقت سے بعید ہے
۔اکبر کی والدہ حمیدہ بانو کو جو روہڑی کے ایک قریبی گاؤں چہار باغ ببرلو کی رہنے
والی اور شیخ احمدجام ژندہ پیل ساکن تربت جام (خراسان) کی اولاد سے تھی، ‘‘مولوی
صاحب’’ ماورأ النہر کے ایک خاندان کی فرد بتاتے ہیں۲۲۔ اسی طرح وہ بابر کی
نواسی ، گلر خ ،بیگم کی بیٹی اور اکبر کی بیوی سلیمہ سلطان کو سلطانہ سلیمہ لکھتے
ہیں ۲۳۔
‘‘مولوی صاحب ’’ نے سندھی زبان کے مشہور شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی
(المتوفی 1752 ء )کو اس عہد کا بزرگ بتایا ہے جس عہد میں مسلمان شمالی ہندوستان پر
حملہ آورہوئے تھے۲۴۔
مولوی مکھن لال نے کہیں سے یہ سن لیا تھا کہ مسلمانوں کے بہتر فرقے ہیں ،چنانچہ
انہوں نے بلاسوچے سمجھے یہ لکھ دیا کہ سولہویں صدی میں ہندوستان میں مسلمانوں کے
بہتر فرقے آباد تھے۲۵۔
غیر مسلم مؤرخوں میں سے
ہم نے مولوی مکھن لال رائے چوہدری کے علاوہ ڈاکٹر سری واستوا ، سری رام شرما،
سرجدوناتھ سرکار، ایشوری پرشاد اور پیٹر ہارڈی کی تحریر یں پڑھی ہیں وہ سب اسی طرح
کی غلطیاں کرتے ہیں۔انڈیا آفس لائبریری کے ایک مخطوطہ کے ساتھ ایک بل منسلک ہے جس
سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایشوری پرشاد چارآنے فی صفحہ دے کر مسلم طلباء سے فارسی
عبارت کاترجمہ کروایا کرتے تھے۔ اکثر غیر مسلم مؤرخ اسی طرح کام کرکے اپنی تاریخ
دانی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مولوی مکھن لال کی مثال آپ کے سامنے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۲۔
ایضاً ،ص ۴۳،۱۲۹۔ ۲۳۔ ایضاً، ص ۱۲۹ ۲۴۔
ایضاً ۔ص ۲۲۔
۲۵۔
ایضاً۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس شخص کی فارسی دانی کا
یہ عالم ہو اور وہ عہد مغلیہ کے‘‘ اصل فارسی مآخذ’’ پڑھ کر اس عہد کی تاریخ لکھے
تو اس جیسے ‘‘ شاہکار’’ کے ‘‘مستند ’’ اور ‘‘بلند پایہ’’ ہونے میں کیا شبہ
ہوسکتاہے:۔
قیاس کن زگلستان من بہار
مرا
مولوی مکھن لال کے بعد
دین الٰہی کے موضوع پر شیخ محمداکرام صاحب نے بھی رود کوثر میں کافی کچھ لکھا ہے۔ہماری دیانتددارانہ
رائے یہ ہے کہ دین الہٰی کے متعلق شیخ صاحب کی تحریروں نے اردو دان طبقہ میں کافی
غلط فہمی پیدا کی ہے ابوالفضل کی طرف داری کرتے ہوئے شیخ صاحب یہاں تک لکھ گئے ہیں
کہ ۔ ‘‘اس کی تصانیف میں بادشاہ کا کوئی ایسا حکم نہیں، جس سے اسلام کی مخالفت یا
تحقیر ظاہر ہو’’۲۶۔ابوالفضل
نے آئین اکبری میں جا بجا آفتاب پرستی ،آگ کی تعظیم چراغ کی عظمت ،مسئلہ تناسخ ،گؤ
درشن، نکاح نابالغان او رایک سے زائد شادی
پر پابندی، قریبی رشتہ داروں میں نکاح کی مخالفت ،بارہ سال سے کم عمر کے لڑکوں کے
ختنہ پرپابندی ،سن ہجری کی منسوخی ذبیحہ بقر پر پابندی اور ترک لحمیات کاذکر
کیاہے۔کیا شیخ صاحب ان خرافات کو شریعت کے عین مطابق سمجھتے ہیں؟ یہ بڑے تعجب کی
بات ہے کہ صاحب رود کوثر کو ان میں سے
کوئی چیز بھی خلاف اسلام نظر نہیں آئی ، حالانکہ شیخ عبدالحق محدّث دہلویؒ اشعتہ
اللمعات میں اکبر کی ان ہی مشرکانہ حرکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر
کوئی شخص کلمہ پڑھنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے خلاف
کوئی کام کرے یا کسی بت کے آگے جھکے یا زنّا ر باندھے ، وہ یقینا کافر ہے۲۷۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۶۔
ردو کوثر، ص ۱۱۲۔ ۲۷۔ اشعۃ اللمعات ،ص ۳۶۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم شیخ صاحب سے یہ پوچھنے
میں حق بجانب ہیں کہ اگر اکبر نے خلاف اسلام کچھ نہیں کیا تو پھر حضرت مجد دّ الف
ثانیؒ نے ‘‘تجدید ’’ کس چیز کی تھی؟
شیخ محمد اکرام صاحب دین
الٰہی کے متعلق لکھتے ہیں کہ ‘‘ یہ ایک مذہب نہ تھا بلکہ ارادت وعقیدت کا سلسلہ
تھا’’۲۸۔
ایک دوسرے موقع پر آپ لکھتے ہیں کہ ‘‘یہ مریدی کا سلسلہ محض عقیدت وخوشامد کا
اظہار تھا’’۲۹۔
اگر شیخ صاحب کایہ بیان درست ہے تو پھر مان سنگھ بھی ‘‘اظہار عقیدت اور خوشامد’’
کرسکتاتھا ۔اگر ہندو دھرم پر قائم رہتے ہوئے وہ بادشاہ کا مرید بن سکتا تھا تو پھر
اس نے ایسا کیوں نہ کیا؟مان سنگھ کا بادشاہ کی مریدی سے انکار ہی یہ ظاہر کرتا ہے
کہ بادشاہ کامرید ہونے سے پہلے ترک دین ضروری تھا۔ اس لئے شیخ صاحب قبلہ کا فرمانا
کہ مریدی سے ‘‘ترک اسلام اخذ کرناصحیح نہیں’’۳۰۔ ہمارے خیال میں نادرست
ہے۔ہماری رائے میں شیخ صاحب نے دین الہٰی کے محض ایک روش (CULT) ہونے کے بارے میں
جو دلائل دئے ہیں وہ زیادہ وزن نہیں رکھتے ۔
شیخ صاحب کو اس بات کا
گلہ ہے کہ عوام الناس کی طرح اہل علم بھی یہی سمجھنے لگے ہیں کہ اکبر ی الحاد کا
قلع قمع حضرت مجدّد الف ثانیؒ نے کیا ہے۳۱۔
شیخ صاحب کے خیال میں یہ
مفروضہ حضرتؒ کے ‘‘غالی معتقدین کی خوش اعتقادی ۳۲۔ ’’ سے زیادہ وقعت نہیں
رکھتا ۔ہم شیخ صاحب سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر یہ کارنامہ حضرت شیخ احمد
سرہندیؒ کے علاوہ کسی او ربزرگ نے انجام دیا ہوتا توپھر اسے ہی مجدّد الف ثانیؒ
ہونا چاہیے تھا۔اگر شیخ احمد سرہندی ، مجدد الف ثانی نہیں تو پھر او رکون اس لقب کا حقدار ہے؟۔ شیخ صاحب
کا خیال ہے کہ حضرتؒ کے ہم عصروں میں سے کسی نے ان کے تجدیدی کا رنامے کا اعتراف
نہیں کیا۳۳۔
لہٰذا اس سے یہ لازم آتاہے کہ وہ اپنے دور کے مجدّد نہیں تھے ۔کیا ملّا عبدالحکیم
سیالکوٹیؒ ،جنہوں نے انہیں اوّل بار مجدّد الف ثانیؒ کے لقب سے یاد کیا ، ان کے ہم
عصر نہ تھے؟ ہمارے خیال میں شیخ صاحب کایہ دعویٰ کہ الف ثانیؒ میں تجدید کاسہرا
فقط حضرت شیخ احمد سرہندیؒ کے سرنہیں ،محل نظر ہے۔اس ضمن میں انہوں نے جو دلائل
دئے ہیں وہ سب ظنی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۸۔
رود کوثر ،ص ۱۲۹ ۲۹۔
ایضاً ،ص ۱۱۹ ۳۰۔
ایضاً ،ص ۱۳۱
۳۱۔
ایضاً ،ص ۲۷۸ ۳۲۔ ایضاً ،ص ۲۷۷۔
۳۳۔ایضاً
،ص ۲۷۹
۔۔۔۔۔۔
Part: 5 – Akbar's Deen-e-Ilahi and Its Background in Urdu by Muhammad Aslam: Part
5 صُوفیائے خام
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism