خورشید احمد فارق
لگان
فاروقی فتوحات (عراق ، شام ،میسوپوٹامیہ، فارس اور مصر) میں صرف عراق کےزراعتی لگان کی تفصیل ہم تک پہنچی ہے جو یہاں پیش کی جاتی ہے۔
عراق کی پہلی فاروقی لگان بندی اس کی فتح کے فوراً بعد عمل میں آئی اور یہ انہی خطوط پر تھی جن پر فارس کے ساسانی بادشاہ نو شیرواں کے زمانے سے چلی آرہی تھی ۔نوشیرواں نے ان اصناف ، پیدا وار پر لگان وصول کیا تھا مع شرح حسب ذیل ہیں:
(1) گیہوں ۔ آٹھ آنے ( ایک درہم) فی مربع جریب ( چالیں گز لمبی اور اتنی ہی چوڑی زمین)
(2) جو ۔ آٹھ آنے ( ایک درہم) فی مربع جریب ( چالیں گز لمبی اور اتنی ہی چوڑی زمین)
(3) چاول ۔ شرح نہیں دی گئی
(4) انگور ۔ چار روپے ( آٹھ درہم) فی مربع جریب
(5) سبزی ۔ ساڑھے تین روپے ( سات درہم) فی مربع جریب
(6) زیتون کے چھ درختوں پر ۔ آٹھ آنے ( ایک درہم)
(7) نخلستانوں میں اچھی کھجور کے چار اور گھٹیا کےچھ درختوں پر ۔ آٹھ آنے
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان اصناف کو مع شرح لگان بر قرار رکھا لیکن ایک بڑی ترمیم یہ کی کہ زیر کاشت اراضی کے علاوہ قابل کاشت اراضی پر بھی لگان لگا دیا خواہ عملاً اس پر کاشت نہ ہوتی ہو اور دوسرا تصرف یہ کیا کہ گیہوں اور جو کی ہر مربع جریب پر آٹھ آنے کے ساتھ عراق پر قابض عرب فوجوں کی خوراک کے لئے ایک فقیر کا بھی اضافہ کردیا ۔ایک ؟ کا اطلاق سولہ سو مربع گز زمین پر ہوتا تھا اور اتنی زمین پر پیداوار ہونے والے غلّہ کو بھی عرب ایک جریب کے نام سے یاد کرتے تھے ۔ عام طور پر فقیر 1؎ اڑتالیس سیر کے بقدر ایک پیمانہ تھا لیکن فاروقی فقیر کی مقدار قریب ساڑھے تین سیر ( ایک صاع)تھی ۔ عراق کی دوسری لگان بندی 21 ھ کے لگ بھگ عمل میں آئی جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عمّار بن یا سر رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا گورنر ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نگران خزانہ و معلم قرآن اور عثمان بن حُنیف رضی اللہ عنہ کو کمشنر لگان بندی مقرر کیا، عثمان بن حُنیف رضی اللہ عنہ کے نافذ کردہ لگان کی تفصیل 2؎ ۔ یہ ہے:
(1) گیہوں ۔ دو روپے ( چار درہم) فی مربع جریب
(2) جو ۔ ایک روپے ( دو درہم) فی مربع جریب
(3) انگور ۔ پانچ روپے ( دس درہم ) فی مربع جریب
(4) کھجور ۔ پانچ روپے ( دس درہم ) فی مربع جریب
(5) گنا ۔ تین روپے ( چھ درہم ) فی مربع جریب
(6) سبزی ۔ ڈھائی روپے ( پانچ درہم) اور بقول بعض ڈیڑھ روپیہ ( تین درہم)
(7) چاول ۔ شرح نہیں دی گئی
(8) روٹی ۔ ڈھائی روپے ( پانچ درہم)
(9) تل ۔ ڈھائی روپے ( پانچ درہم)
یہ ترمیمی لگان بندی پہلی سے دو طرح سےمختلف تھی، ایک یہ کہ نقد کےعلاوہ جوار اور گیہوں کی ایک ایک قفیز ( ساڑھے تین سیر) جو پہلی لگان بندی میں عرب فوجوں کی خوراک کے لئے مقرر کی گئی، ساقط کردی گئی اور اس نقصان کی تلافی کے لئے گیہوں اور جو پر لگان آٹھ آنے سے بڑھا کر دو اور ایک روپے کردیا گیا ، دوسرے یہ کہ پیداوار کی کچھ نئی صنفوں کا جو کسروی لگان بندی میں داخل نہیں تھیں اضافہ کردیا گیا ۔ کسر وی اور فاروقی جزیہ سے اخذ کئے تھے ۔ کسروی جزیہ کے چار گریڈ تھے ، چھ روپے ، چار روپے ، تین روپے اور دو روپے سالانہ فی کس ۔ اس کے مقابلہ میں فاروقی جزیہ کے تین گریڈ تھے اور زیادہ بھاری ۔ چوبیس روپے ، بارہ روپے اور چھ روپے ۔ کسروی جزیہ سے شاہی اور بڑے گھرانوں کے افراد ، فوج، مذہبی اکابر اور حکومت کا دفتری عملہ مستثنیٰ تھا 1؎ بیس سال سے کم اور پچاس سال سے زیادہ عمر والے افراد بھی ۔ فاروقی جزیہ سے عورتیں، بچے، کلیسا کے نادار پادری اور راہب ، دوراز کابوڑھے اور جسمانی طور پر معذور لوگ خارج تھے ۔
جزیہ اور لگان کے علاوہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عراق کے ذمیوں پر مالی مُواخذ ات بھی عائد کئے اِن کی ایک مزید مالی ذمہ داری یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان یا مسلمان پارٹی یا فوج ان کے دیہاتوں سے گذرے تو تین دن تک او ربقول بعض ایک دن رات ان کی رہائش اور خورد و نوش کا اپنے خرچہ سے انتظام کریں ۔ مالک بن أنس عن نافع عن أسلم مولی عمران عمر ضرب الجِزیۃ علی أ ھل الذھب أ ربعۃ و تانیرو علی أھل الورِق أر بعین در ھما و مع ذلک أر زاق المسلمین وضیا فتھم ثلاثۃ أیام 2؎ ذمیوں کی ایک دوسری ذمہ داری یہ تھی کہ اپنے اپنے علاقوں کے راستوں اور پلوں کی نگرانی کریں او راپنے خرچہ سے ان کی مرمت کرائیں ۔ اگر مسلمان افواج کی نقل و حرکت سے اُن کے کھیتوں یا باغوں کو نقصان پہنچتا یا مسلمان مجاہدان کے باغوں سے پھل توڑ لیتے تو اس نقصان کی تلافی جزیہ یا لگان میں تخفیف کر کے نہیں کی جاتی تھی ۔ کان الفلاّحون اللطرق والجسور والأ سواق والحرث والد لا لۃ مع الجزاء وکانت الد ھا قین اللجِزیۃ عن أ ید یھم و العِما رۃ و علی کل إرشاد وکان صلح عمرالذی صالح علیہ أھل الذ مۃ أ نھم إن غَشُّو ا المسلمین لعد و ھم بُر ئت منھم الذمۃ وإن سَبُّو امسلما أن ینھکوا عقو بۃ اإن قاتلو ا مسلما یُقتلواو علی عمر منعتھم و بَرِیٔ عمرولی کل ذی عھد من مَعَرَّ ۃ الجیوش 2؎
عراق، شام، جزیرہ اور فارس میں عمر فاروق نے جزیہ اور لگان زر وسیم اور سامان خورد و نوش تک محدود رکھا تھا ، 20 ھ میں ان کے سالار اعلی عمرو بن عاص نے مصر فتح کیا تو نقد اور جنس کے علاوہ عرب فوج کے لئے لباس بھی جزیہ میں داخل کر دیا ۔ مصریوں پر مفروضہ جزیہ او رلگان کی تفصیل اخبار و آثار کے دو قدیم ترین ماخذوں سے پیش کی جاتی ہے: عمر و بن عاص نے فقراء کو چھوڑ کر ہر بالغ پر دو دینار ( دس روپے)جزیہ لگایا گیا اور ہر صاحبِ زمین پر دینار وں کے علاوہ تین اردب ( چھ من پانچ سیر کے قریب ؟) گیہوں ، دو قسط ( ساڑھے تین سیر) روغن زیتون ، دو قسط ( ساڑھے تین سیر) شہد اور دو قسط ( ساڑھے تین سیر) سر کہ مسلمان فوجوں کی خوراک کے لئے ( ہر ماہ) واجب کردیا خورد و نوش کاسامان دارالرزق میں جمع ہوجاتا اور وہاں سے فوج میں تقسیم کر دیا جاتا ۔ (مصر کی ) ساری عرب فوج کا شمار لیا گیا اور مصریوں پر ہر فوجی کے ایک اُونی گاؤن ( جُبہ) ایک برُ نُس ( لمبی نکیلی ٹوپی) عمامہ، شلوار اور ایک جوڑ چرمی موزہ ( خُف) یا گاؤن کی بجائے اس کا ہم قیمت قبطی کپڑا لازم کردیا گیا ۔ عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ نے ان مواخذات پر مشتمل ایک تحریر لکھ دی جس میں تصریح تھی کہ اگر مصریوں نے ( بے کم وکاست) تحریر کی پابندی کی تو ان کی عورتوں بچوں کو نہ تو بیچا جائے گا ، نہ غلام بنایا جائے گا اور نہ ان کے روپیہ پیسہ اور دفینوں سے تعرض کیا جائے گا، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس قرار دار کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے اس کی توثیق کردی ۔ فوضع عمر رضی اللہ عنہ علی کل حالم دینارین إلأ ان یکون فقیر ا واُلزم کلّ ذی أرض مع الدینار ین ثلاثہ أرادب حِنطۃً و قِسطی خل و قِسطی عَسَل رز قاللمسلمین تجمع فی دارالرزق و تقسم فیھم وأ حصی المسلمون فأ لزم جمیع أھل مصر لکل رجل منھم جبۃ صوف و برُ نُسا أ و عمِامۃ و سرا ویل و خفین فی کل عام أ و عِدل اجبۃ الصوف ثوبا قیِطیّاً و کتب علیھم بذ لک کتاباد شرط لھم إ ذا وَ فَوا بذ لک أن لا تباع نساؤ ھم ؤ ابنا ؤ ھم ولا تَسبَو ا وأن تُقرّ ا موالھم و کنوزھم فی أ ید یھم فأ جاز عمر ذلک 1؎ ۔
(2) أ سلم مولی عمر کا بیان ہے کہ میں نے ( عمر فاروق کے حکم سے) عرب چھاؤ نیوں کے حاکموں کو لکھا کہ جزیہ صرف بالغوں سے وصول کیا جائے ۔ جزیہ کی شرح شام و عراق کے اُن ذمیوں پر جو چاندی میں ( جزیہ) ادا کرنا چاہیں بیس روپے ( چالیس درہم ) ہے اور جو سونے میں ادا کرنا چاہیں چار دینار ( بیس روپے ) ہے، اس کے علاوہ اُن پر واجب ہے کہ مسلمان فوجوں کی خوراک کے لئے ہر ماہ فی کس پینتالیس سیر ( دو مدِی) گیہوں اور سوا پانچ سیر ( تین قِسط) روغن زیتون دیا کریں، ۔ شہد کی مقدار مجھے نہیں معلوم ، نقد جزیے کے علاوہ مصریوں پر واجب ہے کہ وہ ہر سپاہی کے لئے ہر ماہ دو من چار سیر ( ایک اردب) گیہوں ادا کریں ، چربی اور شہد کی مقدار مجھے نہیں معلوم ، اس کے علاوہ ان پر لازم ہے کہ ایسا کپڑا اور لباس بھی دیں جیسا کہ خلیفۃ المسلمین صحابہ کے لئے تیار کراتے ہیں جو مسلمان ان کے دیہا توں یا شہروں سے گذریں گے اُن کی تین دن تک ضیافت بھی اُنہیں کرنی ہوگی۔ عن أسلم مولی عمر أ نہ حدّث علیہ الَمواسی و جِزیتھم أ ر بعون در ھما علی أ ھل الوَ رِق منھم و أ ربعۃ دنا نیر علی أھل الذھب و علیھم أ رزا ق المسلمین من الحنطۃ والزیت مُد یان من حنطۃو ثلاثہ اُقساط من زیت فے کّل شہر لکل إنسان کان من اُھل الشام والجزیرۃ و وَدَک و عَسَل لا أدری کم ھو و من کان من أھل مصر فإ ردب کل شہر لکل إنسان لا أدری کم من الوَدَک والعَمَل و علیھم من البزّ و الکسوۃ التی یکسوھا أ میر المؤمین الناس و یُضیفون من نزل بھم من أھم الا سلام ثلاث لَیا ل 1؎
URL for part 10:
https://newageislam.com/books-documents/islamic-economy-during-khilafat-e/d/35791
URL for this article:
https://newageislam.com/books-documents/islamic-economy-during-khilafat-e/d/35830