New Age Islam
Fri Jan 17 2025, 09:02 AM

Books and Documents ( 17 Feb 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islamic Economy During Khilafat-e-Rasheda (Part 10) خلافت راشدہ کا اقتصادی جائزہ حصہ 10

 

خورشید احمد فارق

ترمیمی ضابطہ غنیمت  ، جزیہ و لگان

مصر، شام ، میسور پوٹامیہ ، عراق ، اذربی جان اور فارس میں جہاں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دس سال کے مختصر عرصہ میں اسلام کا سیاسی  و اقتصادی تسلط قائم کیا ، دنیا کی تین تمدن قومیں ۔ عیسائی ، یہودی اور پارسی آباد تھیں چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں شام، مصر اور لبیا کی بزَ نطی عیسائی اور عراق و فارس کی پارسی حکومتیں  فوجی طاقت اور شاہی شان و شوکت میں دنیا کی ساری حکومتوں سے بازی  لے گئی تھیں ۔ ان  حکومتوں  کے تہ در تہ سیاسی اقتدار کے مضبوط قلعوں کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی جس فوجی مشین نے مسمار کیا اس کی تشکیل  بنیادی طور پر انہی مالی وسائل سے ہوئی تھی جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جانشین  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  بندوبست کر گئے تھے اور جن کی بنیادیں مدنی قرآن کے مجوزہ فراہمی دولت  کے ان تین اصولوں پر استوار ہوئی تھیں : مال غنیمت (2) جزیہ اور (3) زکات لیکن یہ مالی وسائل اتنے وسیع نہیں تھے کہ ان کی مدد سے دنیا کی مضبوط ترین قوموں کے قصر حکومت  گرادئے جاتے ۔

مالی وسائل بڑھا کر اپنی فوجی مشین کو زیادہ کارگر بنانے کے لئے عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مدنی قرآن کے مجوزہ اصول اور رسول اللہ کے عمل میں اہم تصرفات کئے جن کی تفصیل ذیل میں بیان کی جاتی ہے۔ مدنی قرآن نے ہارے ہوئے  دشمن  کی منقولہ اور غیر منقولہ املاک کو فاتح مسلمانوں  کے درمیان تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے یعنی جو مال، جائداد یا آراضی مسلمان غازی لڑکر حاصل کریں اس کا 4/5 حصہ ان کے درمیان تقسیم کردیا جائے اور باقی پانچواں اِن پانچ مدوں میں صرف کیا جائے جن کامدنی آیت میں ذکر ہے: واعلموا أنماغنِمتم من شیٔ فإٔن للہ خمُسہ و للرسول ولذوی القربیٰ والیتا میٰ والمساکین و ابن السبیل (انفال) ۔7؁ ھ میں رسول اللہ نے یہودی بستی  وادی القری بزو رشمشیر فتح کی تو اسی آیت  کے بموجب اس کا 4/5 محاہدوں  میں بانٹا اور باقی یعنی پانچواں آیت کی تصریح کردہ مدوں کے لئے اپنے قبضہ میں لے لیا ۔ 14؁ ھ یا 15 ؁ ھ میں فاروقی فوجوں  نے سر حدِ عراق پر بمقام قادسیہّ ایک عظیم الشان فتح حاصل کی جس نے فارسی حکومت کی بنیادیں ہلادیں اور اس کی قسمت پر تباہی کی مہر ثبت کردی ۔ بہمت سی مزروعہ آراضی کی نہروں سے آب پاشی  ہوتی تھی فاتحین  کے قبضہ  میں آئی تو ان کی تیس ہزار سے زائد فوج نے مطالبہ کیا کہ وادی القری کی طرح اس طویل و عریض  اراضی اور اس میں واقع قصبو ں اور شہروں نیز وہاں  کے باشندوں  کو ان کے درمیان تقسیم کردیا جائے ۔ اس مطالبہ کے محرک  وہ بہت  سے بدری  صحابی تھے جنہوں نے جنگ قادِسیّہ میں شرکت کی تھی اور جو تقسیم وادی القریٰ کے واقعہ  سے واقف تھے ۔ کمانڈران چیف سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو مطالبہ بجا معلوم ہوا لیکن سینکڑوں میل میں پھیلے ہوئے قطعۂ ارض  ، اس کے دریاؤں  نہروں، زیر آب زمینوں ، تالابوں  اور ٹیلوں کی تقسیم  انہیں اپنے  بس سے باہر نظر آئی اور انہوں نے مناسب سمجھا کہ اس معاملہ  میں خلیفہ  سے رجوع کیا جائے ۔ آراضی وغیرہ کی مساویانہ تقسیم میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ایک رکاوٹ تو وہی نظر آئی جس کا ابھی ذکر ہوا ، اس کے ماسواوہ عربوں  کو زمیندار بنانے کےبھی خلاف تھے، ان کا خیال تھاکہ زمیندار ہوکر عرب جہاد سے کترانے لگیں  گے اور دولت و فرصت پاکر عیاش ہوجائیں گے اور باہم لڑاکریں گے ، ان کی رائے تھی کہ مفتوحہ اَراضی کو مسلمانو ں کی ملکیت قرار دے دیا جائے تاکہ آنےوالی نسلیں  اس کے زراعتی  محصول سے متمتع ہوتی رہیں، ان مصلحتوں کے پیش نظر انہوں نے مدنی قرآن کی تجویز اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی پیروی  نہیں کی اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ  کو لکھ دیا کہ نہ آراضی تقسیم کی جائے اور نہ وہاں  کے باشندوں  کو غلام بنایا جائے کئی سال بعد مصر کا با بِلیُون نامی وہ مضبوط اور پرُ مصائب قلعہ فتح ہوا جو مصری حکومت کا ہیڈ کواٹر بھی تھا اور جس کے سقوط پر سارے مصر کی فتح کا دارو مدار تھا تب بھی فوج کے با اثر صحابہ نے جن کے لیڈر زبیر بن عوّام رضی اللہ عنہ تھے یہ مطالبہ  کیا کہ مصر کی مزروعہ اراضی جسے نیل سےنکلنے  والی سیکڑوں نہریں سینچتی تھیں ان کے درمیان تقسیم کردی جائے  جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی القریٰ کے فارم اور نخلستان فوج میں تقسیم کئے تھے کمانڈر ان چیف عمر بن عاص رضی اللہ عنہ مصر کی ہزاروں  ایکڑ زمین کو وادی القرسی  کی بستی  پر قیاس کرنے کےلئے تیار نہیں ہوئے اور خلیفہ کو صحابہ  اور فوج کے مطالبہ سے مطلع کیا ۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی سابقہ رائے نہیں  بدلی اور عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ کو لکھا : اَراضی کاشتکاروں کے پاس  رہنے دو تاکہ آنے والی نسلیں  اس کی آمدنی سےجہاد کرسکیں ۔  أ قِرَّ ھا حتی یَغُز وَ منھا حَبَل الحَبَلۃِ   اس طرح کے مطالبات کی خبریں دوسرے محاذوں سےمتعلق بھی رپوٹروں نے بیان کی ہیں ۔ ان دقتوں اور مصالح کے پیش نظر جن کا ابھی ذکر کیا گیا، عراق  ، فارس اور شام میں فوج کشی  کے دوران  جو مزروعہ آراضی، قصبے اور شہر فاروقی  فوجوں  نے بزور شمشیر فتح کئے ان کو جیسا کہ مدنی قرآن کی آیت کا مدعا ہے اور جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی القریٰ میں کیا تھا ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فوج میں تقسیم  نہیں کیا، انہوں نے صرف منقولہ سامان، زروسیم ، ہتھیار ، مویشی اور قیدیوں  کو مالِ غنیمت  قرار دیا جو معرکۂ  کار راز میں لڑائی کے درمیان  یا دشمن کی ہزیمت کے بعد اس کے کیمپ  یا اس کےبھاگتے ہوئے سپاہیوں سے حاصل ہوا تھا ۔ مفتوحہ اَراضی پر جو مدنی قرآن کی منشاء کے مطابق تقسیم ہونا چاہئے تھی، خلیفہ نے زراعتی محصول لگادیا او رمقامی باشندوں کو جو   مالک یا کاشتکار تھے اور جنہیں  مدنی آیت کی رو سے غلام بنالینا چاہئے تھا آزاد چھوڑ دیا اور ان سے جِزیہ وصو ل کیا ۔

غنیمت  کے علاوہ وہ مدنی قرآن نے فراہمی دولت کی دوسری اصل جزیہ قرار دی ہے: قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (توبہ) اس آیت میں اسلام قبول نہ کرنے کی صورت  میں صرف اہل کتاب  یعنی یہود و نصاریٰ سے جزیہ لینے کی ہدایت ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساحل بحرین  ، قَطر، قَطِیف اور عُمان کے پارسیوں سے بھی جزیہ وصول کیا تھا حالانکہ ان پر اہل کتاب  کا اطلاق نہیں ہوتا تھا ۔ مدنی آیت سے  رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تجاوز کی پیروی کر کے عمر فاروق نے صائبہ قوم کو جو میسور پوٹا میہ کے ایک وسیع رقبہ  میں آباد تھی اہل کتاب کا درجہ دے دیا تھا اور ان کے جانشین عثمان غنی نے شمالی افریقہ کے برَ برَ قبائل کو بھی اہل کتاب کے زمرہ میں داخل کر لیا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ کی شرح ایک دینار ( پانچ روپے) فی بالغ مقرر  کی تھی اور اس میں عورتیں  بھی شامل تھیں ۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس شرح میں وسیع تصرف  کر کے اس کے تین گریڈ مقرر کئے ۔ چھ  روپے سالانہ ( بارہ درہم) مزدوروں  ، کسانوں اور چھوٹے دستکاروں  کے لئے ، دوسرا بارہ روپے ( چوبیس درہم) سالانہ متوسط حال ذمیوں کے لئے، تیسرا چوبیس روپے ( اڑتالیس درہم) سالانہ مالدار وں کے لئے ۔ فاروقی جزیہ سے بچے، عورتیں ، دور ازکار بوڑھے اور نادار راہب خارج  تھے ۔ ذمیوں  کے دو طبقے  تھے : ایک وہ جو شہر  وں اور قصبوں  میں بود و باش رکھتا تھا او ر شہری  پیشے اختیار  کئے ہوئے تھا اور دوسرا وہ جو دیہاتوں  میں کاشتکار ی کرتا تھا ۔ جہاں  تک ہمیں معلوم  ہے فاروقی  نظام  اقتصاد میں پہلے طبقہ  پر صرف جزیہ لازم تھا لیکن دوسرے پر جزیہ کے ساتھ لگان بھی واجب  تھا ۔ اگر کسی  شہر یا  قلعہ  کی عملداری  میں دیہات نہ ہوتے تو اس شہر یا قلعہ  کے باشندوں پر  ۔

 وہاں  مقیم عرب  فوجو ں کی خورد و نوش کےلئے جزیہ کے علاوہ غلّہ ، زیتون کا تیل سرکہ اور شہد فراہم کرنا ضروری تھا ۔

URL for part 9:

https://newageislam.com/books-documents/islamic-economy-during-khilafat-e/d/35761

URL for this article:

https://newageislam.com/books-documents/islamic-economy-during-khilafat-e/d/35791

 

Loading..

Loading..