خورشید احمد فارق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ اقتصادی نظام میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے تصّرفات
ذیل میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے اقتصادی نظام میں (1) کیا کیا تصرفات کئے اور کیوں (2) ان کے عہد میں اقتصادی ترقی کے وسائل کیا تھے اور (3) ابو بکر صدیق نیز مسلمانوں کی اقتصادی حالت کیسی تھی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتصادی نظام کی عمارت ان بنیادوں پر قائم تھی :
(1) مدینے سے نکالے ہوئے یہودی قبیلوں کی غیر منقسم منقولہ اور غیر منقولہ دولت ( زروسیم ، ہتھیار، گھوڑے ، اونٹ ، مکانات، گڑھیاں، اراضی، نخلستان)
(2) مُخیریق یہودی کے موہوبہ سات نخلستان ۔
(3) نصف خیبر کے نخلستان اور زراعتی فارم ۔
(4) نصف خیبر اور نصف وادی القریٰ کا خمس ( جو نخلستانوں اور زراعتی اراضی کی شکل میں تھا )
(5) نصف فَدَک کے نخلستان اور زراعتی فارم ۔
(6) مال غنیمت کا خمس ۔
(7) جزیہ ۔
(8) زکاۃ۔
زکاۃ کو چھوڑ کر باقی مدوں کی آمدنی کا کچھ حصہ رسول اللہ اپنے اور اپنے متعلقین نیز اپنے ہاشمی اقارب پر صرف کرتے تھے اور باقی ماندہ بڑا حصہ جہادی سرگرمیوں اور فوجی طاقت کی توسیع کے لئے مخصوص تھا ۔ عام بغاوتوں کے پیش نظر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان مدوں کی آمدنی رسول اللہ کی نسبت زیادہ بڑے پیمانے پر فوجی تیاری اور مفاد اسلام کے کاموں پر صرف کی او راپنی نیز اپنے متعلقین کی ضروریات بھی اس سے پور ی کیں لیکن جہاں تک ہم تحقیق کرسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُ ن سینکڑوں من غلے اور کھجور کے سہام کے علاوہ جو انہو ں نے خیبر کے خالصہ پیداوار سے اپنے ہاشمی اقارب کے لئے مقرر کردیئے تھے اور غنیمت و جزیے کے ان حصوں کے علاوہ جو عہد صدیقی میں اہل مدینہ میں تقسیم ہوتے رہتے تھے ابوبکر صدیق نے ہاشمیوں کو سرکار ی املاک اور آمدنی سے او رکچھ نہیں دیا ۔ عن عروۃ (بن الزبیر) : أرادت فاطمۃ فدک و سہم ذوی القربی فإ بی أبو بکر علیہا و جعلہا فی ما ل اللہ (یعنی فی السلاح دا الکُواع) من عائشق إ ن فاطمۃ سألت أ با بکر بعد وفاۃ رسول اللہ أن یقسم لہا میرا ثہا مما ترک رسول اللہ مما أ فاء اللہ علیہ ، فقال لہا أبو بکر إن رسول اللہ قال ، لا نُورِث ماتر کناہ صَدَقۃ فغفِبت فاطمۃ و عاشت ستۃ أشہر بعد وفاۃ أبیہا 2؎ دلم تکلمہ حتی تُوُ فیت ، فلما تُوُ فیت دفنہا علیُّ لیلاً ولم یُؤ ذِن بہا أ با بکر 3؎
خمس کا پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات مدنی قرآن کے بموجب ذوی القربیٰ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاشمی اقارب کے لئے مخصوص تھا، یہ حصہ ہاشمی مردوں ، عورتوں اور بچوں میں ان کی خوش حالی اور ناداری سے قطع نظر کر کے تقسیم کردیا جاتا تھا ۔ خمس الخمس کا وہ حصہ جو مدنی آیت ۔دأ علمو ا أنَّ ما غنہتم من شیٔ فإ ن للہ خمسہ و للرسول و لذی القُربیٰ و الیتا میٰ و المساکین و ابن السبیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص کیا تھا وہ بالعموم اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتے تھے بلکہ یا تو ذوی القربیٰ کو دے دیتے تھے پورا یا ادھورا ، یا جہاد سے متعلقہ کاموں میں لگا دیتے تھے ۔ ابن عباس : فما کان للہ و اللنبی فہر لقرابۃ النبی و لم یأ خذا النبی من الخمس شیئا 1؎ ۔ عن عطاء (بن أبی رَباح) : خمس اللہ و رسولہ واحد وکان رسول اللہ یحمل منہ (جہاد کے لئے سواری اور ہتھیار وغیرہ فراہم کرتے تھے ) و یُعطیٰ (ذوی قرابتہ) ویضعہ حیث شاء ویصنع بہ ماشاء 2؎ ۔ خمس کے باقی حصے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر نادار مسلمانوں کو مسلح کرنے، ان کی جہادی ضروریات مہیا کرنے اور اسلامی اشاعت و تقویت کے کاموں پر صرف کرتے تھے بالفاظ دیگر ان حِصَص کی تقسیم آیت الخمس کے چاروں اصناف ۔ اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، یتامیٰ ، مساکین اور ابن سبیل پر الگ الگ اور خُمس الخمس کی حد تک صرف نہیں ہوتی تھی بلکہ نادار اور ضرورت مندوں ( ذوی القربی، یتامیٰ مساکین اور ابن سبیل ) کو جہاد پر قادر بنانے کے کاموں پر خرچ ہوتی تھی ۔ عن عطاء (بن ابی رباح) : خمس اللہ و رسولہ واحد وکان النبی یحمل منہ ویصنع فیہ مایشاء 3؎
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خمس کا وہ حصہ بند کردیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پابندی کے ساتھ زوی القربی کو دیا کرتے تھے ۔ ابن عباس : فلما قُمض النبی ردّ أبوبکر نصیب القرابۃ فی المسلمین فجعل یَحمِل فی سبیل اللہ 1؎ اس کے کئی سبب تھے ، ایک یہ کہ سارے ملک میں پھیلی ہوئی بغاوتوں کو دفع کرنے کے لئے روپیہ کی ضرورت بڑھ گئی تھی ، دوسرے 2 ھ کے مقابلہ میں جب آیۃ الخمس نازل ہوئی تھی اور جب ذوی القربی بُری طرح مالی مشکلات میں مبتلا تھے اب یعنی 11 ھ میں ان کی اقتصادی حالت اتنی بہتر ہوگئی تھی کہ وہ اسلام کا سب سے زیادہ مرفہ الحال اور صاحب جائداد طبقہ تھے تیسرے یہ کہ ابو بکر صدیق اور ان کے رفقا ئے کار کا دل ہاشمیوں کی بڑھتی ہوئی رعونت اور اس کے زیر اثر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت سے انکار و انحراف نیز عدم تعاون کے باعث مکدر ہوگیا تھا اور وہ خُمس الخمس روک کر ہاشمیوں کی رعونت اور انحراف کے خلاف احتجاج کرنا چاہتے تھے ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ذوی القربی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، تیامیٰ مساکین اور ابن سبیل کے پانچوں حصے جہادی تیاریوں کے لئے کم و بیش وقف کردئے تھے ۔ ابن عباس : فلما قُبض رسول اللہ رَدّ ابو بکر نصیب القرابۃ فی المسلمین فجعل یحمد بہ فی سبیل اللہ 2؎ ۔ شرح نہج البلا غۃ 3؎ منع أبوبکر فاطمۃ وبنی ہاشم سہم ذوی القربی وجعلہ سبیل اللہ ( یعنی السلاح و الکُراح) فتح الباری 4؎ : وکان أبوبکر یقسم الخمس نحو قسم رسول اللہ غیر انہ لم یکن یُعطی قربی رسول اللہ صلی یاللہ علیہ وسلم ۔
زکاۃ کا آٹھواں حصہ مدنی قرآن نے مؤ لفۃ القلوب کے لئے مقرر کیا تھا، یہ حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی درجن بد اندیش لیکن بظاہر ہر دوست عرب اکابر کو اپنا وفادار اور اسلام کا پابند بنانے کے لئے فی کس سو یا پچاس اونٹ کے حساب سے دیا کرتے تھے، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ حصہ بند کر دیا۔ عامر (بن سعد بن ابی وقاص الزہری المدنی ) : إنما کانٹ المؤ لفۃ قُلو بھم علی عہد النبی فلما وَلِیَ أبوبکر انقطعت الرُّشی 1؎ مؤ لفۃ القلوب عہد نبوی میں تھے ( اور انہیں عطیّے دئیے جاتے تھے) ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو ( یہ) رشوتیں بند ہوگئیں ۔ مؤلفۃ القلوب اور زکاۃ عملہ پر خرچ کرنے کے بعد باقی چھ مدوں کا بیشتر حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقویت اسلام کے کاموں پر صرف کرتے تھے2؎ ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک طرف زکاۃ کی مد سے حاصل ہونے والی آمدنی کو عہد نبوی سے زیادہ برے پیمانے پر جہادی سر گرمیوں میں صرف کیا اور اس کی وجہ یہ تھی جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ ملک کے گوشے گوشے میں پھیلی ہوئی بغاوت و سرکشی سے عہدہ برآ ہونے کے لئے عہد نبوی سے زیادہ بڑے پیمانے پر سپاہیوں ، ہتھیاروں، گھوڑوں اور اونٹوں کی ضرورت تھی ۔
URL for part 3:
https://newageislam.com/books-documents/islamic-economy-during-khilafat-e/d/35654
URL for this article:
https://newageislam.com/books-documents/islamic-economy-during-khilafat-e/d/35661