سیف شاہین، نیو ایج اسلام
یہ حیرت انگیز ہے کہ کس طرح
تہذیبی تصادم کے دونوں اطراف کےلوگوں کی نفرت اور انتقام کی اس طرح کی کہانیاں ایک
دوسرے کے عین یکسانیت کو سامنے لا رہی ہیں۔ رابرٹ بیلس اور محمد میراہ کے تمام نسلی
اور مذہبی اختلافات کے باوجود ان کو ایک دوسرے کے ساتھ تبدیل کر سکتے ہیں، اورکسی سوال
کے پوچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے اختلافات کی یکسانیت میں ہی المیہ ہے، اور گزشتہ
دو ہفتوں‑
اور گزشتہ دو دہائیوں کا سب سے شدید حادثہ ہے۔
رابرٹ بیلس اور محمد میراہ
کے درمیان بہت کم ایسا ہے جو یکساں ہے اور
شاید ایک دوسرے کے بارے میں کبھی نہیں سنا ہوگا۔ ان میں سے ایک 37 سالہ امریکی فوج
کا سارجنٹ اور دسرا الجزائر نژاد ایک 23 سالہ فرانسیسی ہے۔ اور اس کے باوجود بھی، گزشتہ
چند دنوں کے دوران، انہوں نے دنیا کو اپنے
اعمال، اس سے متاثرین لوگ اور وہ لوگ جنکی وہ نمائندگی کرنے کا خیال کرتے تھے، انکی پر اسرار طور پر یکاسانیت کو بتاتا ہے۔
11 مارچ کی رات کو، بیلس نے افغانستان کے قندھار میں بالانڈی اور الکوزئی
میں 17 دیہاتیوں کو ان کے گھروں میں گولی مار کر ہلاک کر دیا، ان میں کئی بچے بھی شامل
تھے۔ اس نے بے رحمی سے قتل کیا اور بعد میں لاشوں کو جلا دیا۔ اقبال جرم کے بعد اسے
حراست میں رکھا گیا تھا، اور اب وہ قتل کے الزام کا سامنا کر رہا ہے۔
اسی دن اور چند ہزار کلومیٹر
دور، میراہ نے ٹولوس میں ایک جم کے باہر ایک فرانسیسی مسلم پیرا ٹروپر (سپاہی) کو مار
ڈالا۔ چار دن بعد اس نے مزید دو فرانسیسی فوجی مسلمانوں اور اپنی طرح
کےشمالی افریقی نسل کے مرد بھی مار ڈالا. اس کے بعد 19 مارچ کو اس نے ایک سکول
کے باہر تین بچوں سمیت چار یہودیوں کو ہلاک کر دیا۔ فرانسیسی پولیس نے اس کے اپارٹمنٹ
پر چھاپہ مارا اور 32 گھنٹے کی گھیرا بندی کے بعد ایک اسنائپر نے اسے گولی مار کر ہلاک
کردیا۔
جبکہ بیلس نے واضح نہیں کیا
ہے کہ اس نے گائوں والوں کو کیوں ہلاک کر دیا، اور حقیقت یہ ہے کہ اس نے اس کے بعد
لاشوں کو جلا دیا‑
اسی طرح کا اشتعال افغانستان میں اس کے ساتھی فوجیوں کےذریعہ اسی طرح کی بے ادبی کرنے
والے عمل کے تحت مقدس قرآن کریم کی کاپیاں نظر آتش کئے جانے کے بعد پیدا ہوئی تھیں‑ یہ اس کی منشا پر
کچھ روشنی ڈالتا ہے۔ میراہ نے اپنی گولی باری کی ویڈیو ریکارڈنگ کی جس میں اس نے فرانسیسی
فوج کو افغانستان میں مسلمانوں کے قتل کرنے اور یہودیوں کو فلسطینی بچوں کو قتل کرنے
کا کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
ان دو المناک حادثوں میں عام
وجہ نفرت، انتقام اور بچے ہیں۔ "دوسروں" کے لئے نفرت دونوں بیلس اور میراہ میں بہت زیادہ
تھی اور کسی کو نہیں پتہ یہ نفرت کب سے تھی۔ بیلس نے جو عراق میں تین جنگی مشن کے بعد افغانستان میں
چوتھے جنگی مشن پر تھا، شاید "مسلم افغانیوں" کے مخصوص افراد کو نہیں بلکہ
ان میں سے سب کو اپنے دشمن کے طور پر دیکھا۔میراہ کے لیے، بظاہر پوری یہودی‑ عیسائی دنیا شیطان کا روپ تھی، اور جو اسلام اور مسلمانوں کو تباہ کرنے پر امادہ ہے۔
اگر ان کی نفرت انہیں ایسے
مقام پر لے گئی جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی تو
انتقام نے انہیں اس کے آگے جانے کا اشارہ دیا۔ قرآن کریم کی افغانستان میں
بے حرمتی کے سبب مارے گئے امریکی فوجیوں کے بعد شاید بیلس یہ سوچ رہا ہو کہ اس کا بدلا
لے رہا ہے۔ میراہ نے اپنی منشا کے بارے میں
کوئی شک نہیں چھوڑا ہے، ویڈیو ریکارڈنگ میں اس نے متاثرین کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے
کہ: "تم نے میرے بھائیوں کو مارا۔ میں
تمہیں جان سے ماروں گا۔ "
ان دونوں میں سے کسی پر بھی یہ فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ افراد جنہیں
یہ قتل کر رہے تھے یہ وہ لوگ نہیں تھے جنہوں نے "جرائم" کئے تھے اور جن سے
وہ بدلہ لینا چاہتے تھے۔ لیکن جو اہم تھا وہ تھا بیان: "ان لوگوں " نے "میرے بھائیوں" کو قتل کیا ہے اس لئے
میں "ان لوگوں" کو ماروں گا۔ اس
قتل کے عام متاثرین سے خاص طور سے یہ واضح ہے: بچے، جن کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں
تھا، اس نے ان لوگوں کے قتل کرنے کی منشا کی ترغیب دی۔
یہ حیرت انگیز ہے کہ کس طرح
تہذیبی تصادم کے دونوں اطراف کےلوگوں کی نفرت اور انتقام کی اس طرح کی کہانیاں ایک
دوسرے کے عین یکسانیت کو سامنے لا رہی ہیں۔ رابرٹ بیلس اور محمد میراہ کے تمام نسلی
اور مذہبی اختلافات کے باوجود انہیں ایک دوسرے کے ساتھ تبدیل کر سکتے ہیں، اورکسی سوال
کے پوچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی سوچ ایک تھی، ان کی طرز زندگی یکساں تھی، ان
دونوں نے ایک جیسا عمل کیا اوروہ بھی ایک جیسی ہی وجوہات کے لئے۔
۔ ان کے اختلافات کی یکسانیت میں ہی المیہ ہے، اور گزشتہ دو ہفتوں‑ اور گزشتہ دو دہائیوں
کا سب سے شدید حادثہ ہے۔
اوسطاً شاید روزانہ سینکڑوں
لوگ تہذیبی تصادم میں مارے جاتے ہیں اور جو کم ہونے کا کوئی اشارہ نہیں دے رہا ہے۔
کوئی غور نہیں کرتا ہے کہ جس طرح سے ہم ضروری یکسانیت کے ساتھ تصادم میں شرکت کرتے
ہیں وہ تصادم کی اہم بنیاد کی ہی نفی کرتا ہے۔ مسلمانوں نے پہلے مارے گئے ہزاروں مسلمانوں
کا بدلہ لینے کے لئے 9/11 میں ہزاروں کی تعداد میں "مغربی لوگوں" کو ہلاک
کیا اور اس کے بعد مغربی ممالک کے لوگوں نے سینکڑوں مسلمانوں کو اس طرح کے حملے کی ' روک تھام'کے لئے لاکھوں مسلمانوں
کو قتل کرنا شروع کر دیا، لیکن یہ دنیا بھر کے مغربی نشانوں پر بدلے کے تحت حملے کا ایک سلسلہ قائم کرنے میں کامیاب
ہوا۔
اگر ہم اس طرح سوچتے، محسوس
کرتے یا یکساں طور پر ایک دوسرے کو جواب دیتے ہیں تو ہم مختلف کیسے ہو سکتے ہیں، یا
ہم کس قدر مختلف ہو سکتے ہیں؟ زیادہ نہیں، صرف اگر ہم جو واضح ہے اسے دیکھ سکیں۔ شاید
جو واضح نظر آ رہا ہے اسے نہ دیکھ پانے کی دونوں طرف کی کمزوری بھی اس یکسانیت کی
ایک اور مثال ہے۔
اس نقطہ پر یہ رحجان ابھرتا
ہے کہ یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے درمیان جو کچھ بھی یکساں ہے اس کی فہرست کی طرف
اشارہ کرتا ہے، جیسا کہ بلاشبہ تمام عقائد کے درمیان ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت یہ بھی
ترغیب دینے والی ہے کہ قرآن کی ان آیات کا ذکر کروں جو بتاتی ہیں کہ اسلام اسی عقیدے کے ایک تسلسل ہے جسے حضرت عیسی علیہ السلام،
حضرت موسی علیہ اسلام اور ہزاروں دیگر انبیاء کرام نے پیش کیا اور جو ان کے قیاس کردہ مذہبی اختلاف کی بنیاد پر مسلمانوں کو
لڑنے یا ہلاک کرنے سے روکتی ہیں۔
لیکن اس مارچ میں امن کے انبیاء
سے بحث کرنے کےالتجا نہیں کروں گا کہ خون کی
اس پیاس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ بلکہ میں اس
کی جگہ نفرت کے انبیاء سے اسے بتانے کے لئے کہوں گا۔
جہاں حضرت عیسی علیہ السلام اور
حضرت محمد صلی علیہ وسلم ناکام رہے ہیں، کیا
بیلس اور میراہ ہمارے باہمی پاگلپن کو دور کرنے کا راستہ نکال سکتے ہیں؟
سیف شاہین، آسٹن، میں
واقع ٹیکساس یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔
URL
for English article: http://newageislam.com/islam-and-politics/saif-shahin/toulouse-or-to-gain-from-two-tragedies؟/d/6916
URL: