ڈاکٹر
ادس ددریجا، نیو ایج اسلام
اسلامک
سٹڈیز، یونیورسٹی آف میلبورن
(انگریزی سے ترجمہ‑ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
روایتی
اسلامی قانون میں بڑی تعداد میں مخصوص صنفی حقوق، ذمہ داریوں، اور سرکاری / سیاسی قانون، تعلیمی، رسمی، قانونی شعبوں
اور ذاتی طرز عمل کے متعلق معیار شامل ہیں۔
یہ مضمون انہیں پر روشنی ڈالنےکی کوشش کرے گا اور
مختصراً مرد اور عورت کی جنسیت کی قرون وسطٰیفہم کی نو عیت کا جائزہ پیش کرے
گا۔ اس میں آیات 4:34 اور 2:228 کی قرون وسطٰیاور
جدید قرآنی تشریح کی مثالوں کو شامل کیا گیا ہےجو جنسوں کے درمیان اس صنفی درجہ وار
تعلقات کو ظاہر کرتی ہیں اور روایتی مسلم فیملی لاء کے کچھ پہلوئوں کے تعلق سے اس کے
مضمرات کا جائزہ لیتی ہیں۔
1۔ قانون کے سلسلے میں صنفی فرق
ایک
عورت کا وراثت میں حصہ ایک آدمی کے نصف ہوتا ہے۔ اگر ایک عورت اسلام سے ارتداد کرتی
ہے تو وہ ایک مرد مرتد کی صورت کے جیسی قتل نہیں کی جائے گی، اس کے باوجود اب بھی اسے
روزانہ نماز اور واجب روزے رکھنا ہوگا۔ صرف مرد کو یکطرفہ طور پر طلاق دینےکا حق ہے۔
طلاق کی صورت میں بچوں کی تحویل خود بخود شوہر کو منتقل ہو جائے گی۔ صرف نوجوان عورتیں
اگر ان کے مرد ولی اس کی اجازت دیں تب ہی نکاح کر سکتی ہیں۔ ایک عورت کے خون بہا کا معاوضہ ایک آدمی کے مقابلے
نصف ہوتاہے۔ جسمانی چوٹ کے معاملے میں بدلہ کی صورت میں عورت کو مرد کے برابر معاوضہ
تبھی تک ملتا ہے جب تک کہ مالی معاوضہ ایک مکمل خون بہا کی رقم کے ایک تہائی سے زیادہ
ہے، اس کے بعد ایک مرد کا نصف ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جسمانی چوٹ کے معاملے
میں مرد کا معاوضہ جس قدر بڑھتا ہے عورت کا ویسے ہی کم ہوتا ہے۔
2۔
عام ذاتی ضابطہ اور تعلیم کے تعلق سے صنفی امتیاز
عورت
عوامی غسل خانوں میں نہیں جاتی ہے۔ عورتوں کو بیماروں کے پاس جانے کو مستحب نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اکوٗی عورت گھوڑے کی
کاٹھی پر سواری نہیں کرسکتی ہے جب تک کہ بالکل
ضروری نہ ہو یا پھر سفر پر ہو۔ عورتوں کو فٹ
پاتھ کے بیچ میں نہیں چلنا چا ہئے لیکن اس کے دونوں کناروں پر چل سکتی ہے۔ عورت گھر
کے ایسے کمرے میں نہیں رہ سکتی ہے جہاں سے سڑک نظر آتی ہو۔ عورت کسی غیر رشتہ دار مرد کے ساتھ مصافحہ نہیں
کر سکتی ہے یا اس کے ہاتھ پر عہد وفاداری نہیں
کرسکتی ہے، جب تک کہ اس کے ہاتھ ڈھنکے
ہوئے نہ ہوں۔ مرد کو کسی ایسی جگہ نہیں بیٹھنا
چاہئے جہاں سے ایک عورت کچھ پلوں قبل اٹھی ہو ، جب تک کہ اس کے جسم سے چھوڑی گئی حرارت
ضائع نہ ہو جائے۔ اس کی صلاح نہیں دی جاتی ہے کہ عورتوں کو لکھنا سکھایا جائے، ہاں
یہ صلاح دی جاتی ہے کہ انھیں کتائی کیسے کی جاتی ہے سکھایا جائے۔ خواتین کو قرآن کی
آیت نمبر 24 پڑھائی جانی چاہئے جس میں خواتین
کے لئے طرز عمل کے قوانین کو واضح کیا گیا ہے لیکن آیت نمبر 12 نہیں پڑھائی جانی چاہئے
جس میں مصری خواتین کی حضرت یوسفؑ سے محبت کی کہانہ کا ذکر ہے۔ بچے کی پیدائش کے وقت
پر، کسی بھی [غیر ضروری] خواتین کوکمرے سے نکل جانا چاہئے تاکہ وہ بچے کے پیدائش کے
دوران عورت کی شرمگاہ نہ دیکھ سکیں۔ ایک عورت کے لئے مقدس جہاد اپنے شوہر کی مناسب
دیکھ بھال کرنا ہے۔ شوہر کے حقوق ایک عورت کی ترجیحات کی تشکیل کرتے ہیں۔ کسی مسلمان
عورت کو یہودی یا عیسائی عورت کے سامنے اپنے کپڑے
نہیں اتارنے چاہئے۔ ا عورتوں کو خوشبو کا استعمال نہیں کرنا چاہئے جب وہ باہر
جا رہی ہو۔ عورتوں کو اپنے آپ کو مردوں کی
طرح نہیں بنانا چا ہئے کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مردوں جو خود کو
خواتین اور ایسی خواتین جو اپنے آپ کو مردوں کی طرح نظر آئیں بناتی ہیں ان پر لعنت
بھیجی ہے۔ ایک عورت فرائض منصبی سے زائد روزے کو سوائے اپنے شوہر کی اجازت کے ، نہیں رکھ سکتی ہے۔ بیوی کو اپنے شوہر کی جنسی ضرورت
کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے، لیکن وہ خود ہی کوئی مخصوص جنسی حقوق نہیں رکھتی ہے۔
3۔ عدلیہ کے معاملات میں صنفی امتیاز
اکثریت
کی رائے یہ ہے کہ خواتین ججوں کے طور پر کام نہیں کر سکتی ہیں۔ عورتوں کی بطور گواہ
فوجداری قانون کے معاملات میں، اور نہ ہی طلاق یا چاند دیکھنےکے مسائل میں شہادت درست
نہیں ہے۔ تاہم، یہ درست ہے کہ مردوں کو بچے
کی پیدائش کے جیسے معاملات کی براہ راست تفتیش کی اجازت نہیں ہے۔
4۔ ان صنفی امیازات کے اسباب
ان میں
سے زیادہ تر صنفی امتیازات کو عورت اور مرد کی مخصوص جنسی فہم یا صنفی مکمل کے تصور میں جو دلیل دیتی ہے کہ عورتیں،
مردوں کے برعکس، کمزور اور آسانی سے الجھائی جا سکنے والی انتہائی جذباتی مخلوق ہیں
یا بعض لوگوں کے مطابق کم عقل والی ہیں، جیسے خیالات میں تلاشا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلا
مفروضہ جو روایتی یا قرون وسطٰیخیالات کی رہنمائی
کرتا ہے کہ عورت اور مرد کی جنسیت ان کا بنیادی فرق ہے۔ اس قول کے مطابق جنسیت مردانگی
اور نسوانیت کی تعمیر کی درجہ بندی کرنے والی
ہے۔ ان جنسی اختلافات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حیاتیاتی اور ذہنی افعال اور صلاحیتوں
پر پبنی ہوتے ہیں جو صنفی دہرے پن کے خیال میں مجسم جنسوں کے فرق کو الگ کرتا ہے۔ یہ 'صنفی دہراپن' یہ بھی تصور کرتا
ہے کہ خواتین کی طبیعت مردوں کے مقابلے اخذ
کی ہوئی ہے جس کی برتری وجودیاتی اور سماجی و اخلاقی دونوں ہے۔ اس کے علاوہ عورت کے
جسم کو جنسی اور اخلاقی طور پر بگاڑ پیدا کرنے
والا سمجھا جاتا ہے۔ مردوں کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ ان میں عورتوں کو دیکھ
کر، ان کی بو یا انکی آواز سے جنسی خواہش پیدا ہو تی ہے اور اس طرح
مردوں کو ان کے اہم مذہبی اور عوامی فرائض سے ان کی توانائی کا رخ بدلتی ہیں۔
مزید برآں، خواتین کے بارے میں قرون وسطیٰ خیالات (مصنوعی طور پر) جسم اور دماغ، جنسیت اور روحانیت کے درمیان تقسیم
پر قائم ہے۔ خواتین کے جنس کے زمرہ بندی بنیادی طور پر جنسی بنیادوں پر تعمیر کی گئی
ہے۔ خواتین کو جنسی جذبہ کے 'غیر مذہبی' دائرے کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو انسانی فطرت کے پست طر خیثیت کا انبار ہے، مردوں
کاعلم (مذہبی) کے روشن دائرے کے خیال کے بر عکس ہے اور جو مذہبی اتھارٹی کے واحد ذمہ
داران ہیں۔ خواتین اور ان کی فعال جنسیت کو سماجی و اخلاقی افراتفری، بہکائو کے ذرائع
اور ایک صحت مند سماجی نظام کے لئے خطرہ کے طور پر تعمیر کیاجاتا اور دیکھا جاتا ہے۔
ان سب نے خواتین کی جنسی خواہشات کو قابو میں
کرنے کی ضرورت کے طور پر بیرونی احتیاطی نگرانی جیسے پردہ، اکیلے رکھا جانا، صنفی طور پر
الگ کرنے اور مسلسل نگرانی کے ذریعہ لازمی کر دیا۔ یہ قابل غور ہے کہ عورتوں (اور مردوں)
کے اس طرح کے نظریات کئی احادیث میں بھی سامنے آئی ہیں جنہیں قرون وسطٰینقطہ نظر کے
لوگ معیاری تصور کرتے ہیں۔
یہاں
پر کئی نمائندہ مثالیں پیش ہیں:
1۔ ابو سعید الخدری رضي اللہ تعالی سے
روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرامایا ہے کہ: ... جب اس دنیا کا لالچ آئے تو احتیاط کرو،
اور ایسے ہی عورتوں کے معاملہ میں اور جو پہلا فتنہ بنی اسرائیل پر واقع ہوا وہ (فتنہ)
عورت تھی۔
2۔ عبد اللہ ب. مسعود رضي اللہ تعالی بیان
کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ، [کی ساری] خواتین ہیں عورتیں ہیں
اور اگر وہ باہر جاتی ہیں تو شیطان انہیں بہکانے کا ذریعہ بناتا ہے۔
3۔ عبد اللہ ب. عمر رضي اللہ تعالی بیان
کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ، میں نے اپنے لوگوں میں مردوں کے لئے عورتوں کے مقابلے نقصان
دہ فتنہ کو نہیں چھوڑا ہے۔
قرآن
کی سورۃ یوسف کے کردار کو بھی یہاں جوڑا جانا
چاہئے اور خاص طور عوامی حکایات میں اس کی کس طرح تشریح اور پیش کیا گیا جو بائبل کی
معروف مصر کی خواتین کے ساتھ جوزف کی آزمائش کی کہانی کو پیش کرتا ہے جس میں ان کی
چالاکی، خواتین کی وہ جنسی خواہشات جن پر وہ قابو نہیں کر سکتی ہیں،، ان کی تکمیل کے
لئے کچھ بھی کرنےکے لئے تیار پیش کیا گیا ہے اور اس کی مثالوں کو ہر زمانے اور ہر جگہ
کی تمام خواتین کے لئے عام کی گئی ہیں۔
5۔ روایتی قرآنی تفسیر میں صنفی تعلقات
روایتی
مسلم قرآن تفسیر اس طرح کی صنفی درجہ بندی
کرنے والی فکر کو بخوبی ظاہر کرتی ہے جو قرآن کی آیت 4:34 اور 2:228 کی قرون وسطٰی اور بعض جدید تفاسیر میں عیاں ہوئی ہے۔ مثال کے طور
پر
الذ
مخشری ((d.1143/1144 آیت 4:34 کے سلسلے میں
تفسیر
"مرد (حق کے) حاکم اور (باطل کو)
معاف کرنے والے ہیں جس طرح ایک گورنر لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے، ان میں سے بعض
"کچھ" سے مراد تمام مرد اور تمام عورتیں لیتے ہیں۔
اس کا
مطلب یہ ہے کہ مردوں کو عورتوں پر محافظ بنایا
گیا ہےکیونکہ خدا نے ان میں سے کچھ کو بہتر بنایا ہے اور یہ مرد ہیں اور دوسروں کے
لئے یہ عورتیں ہیں۔ یہ ثبوت ہے کہ انتظامیہ کا مستحق صرف فضیلت کے ذریعہ ہے نہ کہ فوقیت،
متکبّرانہ رویّہ یا محکوم بنانے کے ذریعہ ہے۔
عورتوں پر مردوں کی برتری کے بارے میں، ماہر تفسیر عقل، اچھا فیصلہ (حزم)، عزم، طاقت کا حوالہ دیتے ہیں
اور مردوں کی اکثریت کے لئے‑ گھڑ سواری، تیر اندازی، چونکہ مرد ہی پیغمبر ہیں، علماء کرام ہیں، ان کی ذمہ داری امامت، جہاد، نماز کی دعوت، نماز جمعہ کے خطبے، اعتکاف،
تعطیلات کے دوران نماز کی ہے۔امام ابو حنیفہؒ کے مطابق وہ چوٹ یا موت (حدود یا قصاص)کے
معاملے میں گواہی دیتے ہیں، ورثے میں ان کا
حق زیادہ ہے، ایک حلف کا 50 بار اعلان جو قتل
کے معاملے میں جرم یا معصومیت کو ثابت کرتا ہے۔ شادی، طلاق اور نقابل منسوخی طلاق کے بعد بھی بیوی سے رجوع کرنے
کا اختیار ہوتا ہے، ایک سے زیادہ تعداد میں
بیویاں، شجرہ نسب مرد سے آگےبڑھتا ہے اور ان کے داڑھی اور پگڑی ہوتی ہے "۔
ابن
کثیر (ڈی 1373)
آیت
2:228 کے حوالے میں کہتے ہیں کہ یہ آیت اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جسمانی طور
پرمرد عورتوں کے مقابلے زیادہ فائدہ مند پوزیشن میں ہیں، ان کی آداب پرستی، حیثیت،
اطاعت (خواتین کے ذریعہ ان کی)، اخراجات، تمام امور کی دیکھ بھال اور عام طور پر اس
زندگی میں اور آخرت میں بھی اور اسے آیت
4:34 سے جوڑتے ہیں جس کا وہ اس طرح ترجمہ کرتے ہیں" مرد عورتوں کے محافظ اور منتظم
ہیں، کیونکہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور کیونکہ وہ اپنے مال میں سے (ان
کی مدد) ان پر خرچ کرتے ہیں۔
الطبری
(ڈی 923 سی ای)
الطبری
کے ذریعہ آیت 4:34 کی تفسیر درج ذیل ہے:
" مرد، عورتوں کے محافظ ہیں، خدا
کا مطلب ہے کہ مرد عورتوں کے ولی ہیں تاکہ وہ ان کو اطاعت سکھا سکیں اور ان چیزوں سے باز رکھ سکیں جنہیں
خدا نے عرتوں اور ان پر (مردوں) واجب کیا ہے۔ خدا نے بعض کو بعض پر فضیلت
دی ہے اس کا مطلب ہے کہ خدا نے مردوں کو عورتوں سے مہر ادا کرنے، اپنے مال مین سے عورتوں
پر خرچ کرنے اور ان کے لئے خرچ کانظم کرنے کے معاملات میں بر تر بنایا ہے۔ یہی وہ فضیلت ہے جو خدا نے مردوں
کو عورتوں کے مقابلے میں عطا کی ہے اور اسی کے سبب مردوں کو عورتوں کا کحافظ بنایا
گیا ہے، اور خدا نے عورتوں کے جن معاملات کو مردوں کو عطا کیا ہے ان میں مردوں کو ان
پر حکم چلانے والا بنایا گیا ہے۔
مودودی
آیت
4:34 کے متعلق ان کی تفسیر مندرجہ ذیل ہے:
مردوں
کو عورتوں پر اس معنی میں فضیلت حاصل ہے کہ بعض قدرتی خصوصیات اور اختیارات عطا کئے
گئے ہیں جو کہ خواتین کو نہیں عطا کی گئی ہیں یا کم درجے میں عطا کی گئی ہیں اور اس
معنی میں فضیلت نہیں ہے کہ وہ غیرت اور برتری
کے معاملے میں عورتوں سے اوپر ہیں۔ آدمی کو اس کی قدرتی خصوصیات کی بناء پر خاندان
کامحافظ بنایا گیا ہے اور عورتوں کو ان کی قدرتی کمیوں کی وجہ سے ان کی حفاظت کے لئے
مردوں پر منحصر بنایا گیا ہے۔
میاں
بیوی دونوں کے درمیان تعلقات پر قرون وسطٰی نظرئے کی انتہائی قسم کی مثال جنوبی افریقہ
کے علماء کی کونسل کی طرف سے جاری کردہ مندرجہ ذیل بیانات میں پایا جا سکتا ہے:
"اسے (بیوی) خود کو دل و جان سے اس
کی خواہشات اور پسند کے مطابق تبدیل کرنا چاہئے۔ اس (مرد) کی پسند اس (عورت) کی پسند
اور اس (مرد) کی ناپسند اس کی (عورت) کی ناپسند بن جانا چاہئے۔ اسے (عورت) مرد کی تکلیف
اور تشویش ناک صورتحال میں سکون اور تسلّی فراہم کرنی چاہئے۔ اس کی تمنائیں اور خواہشات
اس کی (مرد) مرضی اور حکم سے مسخر ہیں .... آخر کار خدا نے اسے اس کے شوہر کے سکون
اور راحت 'کے لئے پیدا کیا ہے۔کونسل مزید یہ کہتی ہے کہ،'شریعت نےشوہر کو اس کی بیوی
پر سب سے زیادہ درجے کا حق عطا کیا ہے۔ اسی طرح بیوی اپنے شوہر کے لئے سب سی اعلیٰ
درجے کی اطاعت کا اظہار کرے گی... عاجزی اور صبر کے ساتھ وہ اس کی کمیوں اور ناانصافیوں
کو بھی برداشت کرے گی ... مردعورتوں کے حکمراں ہیں اور ان کا اعلی درجہ ہے ... (مثلا)
غلبہ حاصل کرنا اور حکم دینا شوہر کا حق اور کردار ہے (اور) یہ اس (بیوی) کا فرض ہے کہ وہ اس کی اطاعت
اورخدمت کرے۔ بیوی کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ مقابلے یا خود کو ان کے برابر
یا بر تر بتانے کی کوشش کے کے ذریعہ اپنے شوہر
کو جیت نہیں سکتی ہے۔ "
اور
"یہ بہت اہم ہے کہ بیوی اپنے شوہر
کی دولت کا واحد مالک ہونے کے باوجود ... (اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے) وہ اپنی
دولت شوہر کی خوشی اور رفع حاجت کے لئے ہو۔
خود کو اس کے مالی معاملات کے کنٹرول کرنے والے کے طور پر مقرر کرنے کی کوشش
نہیں کرنی چاہئے۔ اس سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ اس کا شوہر کس پر اپنا مال
خرچ کرتا ہے۔' 'اسے اپنے شوہر سے اپنے قانونی حق کی مکمل تکمیل کے لئے مطالبہ کرنے
کے معاملے میں قانونی رخ اور تکنیکی رویہ نہیں اپنانا چاہئے .... بیوی کو یاد رکھنا چاہئے
کہ اس کے شوہر کے ذریعہ اس کے تئیں ذمہ داریوں کو پوارا کرنے میں ناکامی کے باوجود،
اسے اپنے شوہر کی اطاعت کرنا اس کی ذمہ داری ہے ... شوہر کی اطاعت اس کے لئے لازوال
خوشی کو یقینی بنائے گا ... "۔
آخر
میں،
"ایک سچّی مسلمان بیوی کی سب سے بڑی
نیکی اپنے شوہر کے تئیں اس کی وفا داری ہے۔اس کا دماغ، اس کا دل، اس کی نظر اور اس
کا جسم صرف اس کے شوہر کے لئے ہے .... یہ مسلمان بیوی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے
شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کی طرف نظر اٹھائے... یہاں تک کہ کسی دوسرے مرد پر ایک
نظر ڈالنا بھی کفر اور بے وفائی کا عمل تصور
کیا جاتا ہے ... ذہن میں کسی دوسرے مرد کا خیال لانا بھی اسلام میں کفر ہے، دوسرے مردوں
پر نظر ڈالنا بھی کفر ہے، دوسرے آدمیوں سے بات کرناکفر ہے۔ شوہروں کے لئے کفر اور بے
وفائی بد کاری تک ہی محدود نہیں ہے۔ "
مندرجہ
بالا تمام تفسیری ثبوت میں اکثر قدرتی قانون
یا جنسوں کی قدرتی خصوصیات (جسمانی طور پر مضبوط بمقابلہ جسمانی طور پر کمزور، عقلی
بمقابلہ انتہائی جذباتی) یا بعض سماجی، ثقافتی
خیالات کے لحاظ سے مناسب مرد/ عورتوں کے عمل (مہر دینے یا لینے والے، ملی خرچ دینے
والا یا مادّی مدد حاصل کرنے والا) اور برتائو (مرد کی طبیعت بمقابلہ خواتین کی جنسیت)
کے نتیجے میں آیت4:34 اور 2:228 کے پدرانہ قرآنی تسفیر کی شکیل پائی اور
جو قرون وسٰطی اسلامی فیملی لاء کی بنیدوں
کو بناتا ہے۔
اس لئے
قرون وسطٰی اسلامی قانون میں بہت زیادہ صنفی امیتیازات ہیں جو خاص طور پر مسلم فیملی
لاء کی نوعیت پر اثرات مرتّب کرتا ہے، کیونکہ یہ صنفی امیازات شوہر اور بیوی کے حقوق
اور ذمہ داریوں پر لاگو ہوتے ہین اور انس کے ان پر مضمرات ہیں۔ مثال کے طور پر، روایتی مسلم شادی قانون کے مطابق ی بیوی کے مذہبی
اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلسل جنسی طور
پر حاضر رہے اور وہ بھی اس حد تک کی اس کے جنسی اعضاء شوہر کی ملکیت ہیں اور اسے کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے (یہاں تک
کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے بیمار والدین کے گھر نہیں جا سکتی ہے کیونکہ
شوہر کو جنسی تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے)۔ بدلے میں شوہر قانونی طور پر
اپنی بیوی کے لئے مادّی ٖضروریات فراہم کرنے اور شادی کے وقت مہر ( جس کا ایک حصہ بعد
میں دیا جا سکتا ہے) فراہم کرنا واجب ہے۔ بیوی کو
قانونی طور پر جنسی تسکین حاصل کرنے کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ بیوی
اگر شوہر کی مرضی پر جنسی ضروریات کی تکمیل کے لئے حاضر نہیں ہوتی ہے تو وہ اپنے مادّی
ضروریات کو پورا کئے جانے سے محروم ہو جائے گی۔
ڈاکٹر
ادس ددریجا میلبورن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک
اسٹڈیز میں ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/the-relationship-between-male-female/d/6692
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/relationship-between-men-women-islamic/d/6942