سلطان شاہین ، فاؤنڈنگ ایڈیٹر نیو ایج اسلام
11 مارچ 2019
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل جینوا کے 40 واں ریگولر اجلاس ، منعقدہ 25 فروری سے 22 مارچ 2019 سے خطاب
ایجنڈا آئٹم 3 پر عام مکالمہ: "حق ترقی سمیت شہری، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق جیسے تمام انسانی حقوق کا فروغ اور ان کا تحفظ۔"
پیش کردہ منجانب ایشین یوریشین ہیومن رائٹس فورم
جناب صدر،
امریکہ اب افغانستان ، عراق اور شام سے اپنا انخلاء کر رہا ہے۔ طالبان کی کامیابی کے اعلان سے متاثر ہو کر پاکستان کی ایک اسلامسٹ دہشت گرد تنظیم سے حمایت یافتہ ایک انتہاپسند دہشت گرد نے ریاست جموں و کشمیر میں ایک فوجی دستے پر حملہ کیا جس میں 40 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے۔ اسی طرح کے ایک اور خودکش حملہ میں ایران کے سستان میں 27 الیٹ ریولیوشنری گارڈز کی بھی جانیں تلف ہوئیں ۔ یہ سفاک جہادی ضرور مستقبل میں بھی مزید ایسے حملے انجام دیں گے۔ اسلامسٹ حلقوں میں سوویت یونین اور ریاستہائے متحدہ امریکہ جیسے دونوں سپر پاورکو ، "شکست خوردہ" کر دینے کا غرور اپنے عروج پر ہے۔
جناب صدر،
ہمارے ذہنوں میں اب بھی وہ منظر تازہ ہے کہ جب 1989 میں بین الاقوامی برادری نے افغانستان کو چھوڑ دیا تھا تو کیا معاملات پیش آئے تھے ۔ اس وقت طالبان کی حکمرانی تھی اور اس کے سائے میں القاعدہ کو ایک محفوظ پناہ حاصل تھی۔ اس کے بعددہشت گردی اور ظلم و بربریت کا ایک سلسلہ چل پڑا جس کا ایک باب 11/9 کا جانکاہ حادثہ اور داعش کا معرض وجود میں بھی آنا ہے۔
اس پس منظر میں، طالبان کو افغانستان پر حکومت کی اجازت دئے جانے میں عالمی برادری کی دلجمعی ناقابل فہم ہے۔ جہاد یوں کو توانائی ان کے فوجیوں اور خطوں سے نہیں حاصل ہوتی ۔ بلکہ یہ نظریات سے حاصل ہوتی ہے اور نظریات کو عسکریت پسندانہ اقدام سے شکست نہیں دیا جا سکتا۔
جناب صدر،
جہادی نظریہ کی جڑیں اسلامی تاریخ، کتب اور نظریات و معتقدات کی مضبوط بنیادوں میں پیوستہ ہیں۔ تشدد اور علیحدگی پسندی کی موجودہ اسلامی نظریہ کو چیلنج پیش کرنے کے لئے اب تک اعتدال پسند مسلمان امن اور تکثیریت پسندی پر مبنی ایک تسلی بخش متبادل مذہبی نظریہ کی بنیاد رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اور جب کبھی ایسا کوئی مذہبی نظریہ تیار کر لیا جاتا ہے تب بھی اسے مروج اور مستحکم ہونے میں وقت اور کوشش دونوں درکار ہوتے ہیں ۔ مین اسٹریم مسلمانوں کو ایک جوابی بیانیہ پر کام کرنے اور اسے پھیلانے کے لئے مزید وقت اور گنجائش فراہم کی جانی چاہیئے ۔ لہذا، میں بین الاقوامی برادری سے یہ التجاء کرنا چاہوں گا کہ وہ 1989 کی غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرائیں اور دہشت گردی کی مزید بلاؤں کو مدعو نہ کریں۔
جناب صدر،
عالمی برادری کے لئے یہ سوچنا غلط ہو گا کہ اسلامسٹ شکست خوردہ ہو چکی ہے کیونکہ نام نہاد اسلامی ریاست اپنے زیادہ تر علاقے کھو چکی ہے۔ کئی سیکورٹی ماہرین کی یہ رپورٹ ہے کہ تقریبا 30،000 غیر ملکی جنگجوؤں میں سے داعش کے پاس اب بھی تقریبا 10000 جنگجو موجود ہیں ، جو عراق اور شام کے مختلف حصوں میں چھپے ہوئے ہیں ، 10،000 لوگ اپنے وطن واپس لوٹ چکے ہیں اور جنگ میں صرف 10،000 جنگجو ہی مارے گئے ہیں ۔ تاہم، مقامی عرب فوجیوں کا کوئی بھی اعداد و شمار موجود نہیں ہے لیکن بظاہر ان کی تعداد کافی چھوٹی ہے جنہیں اپنی پناہ گاہوں میں گزر بسر کرنے کے لئے مقامی لوگوں کی وافر حمایت حاصل ہے ۔ یہ بات مشہور ہے کہ صدام حسين کی سابق فوج سے کئی ہزار سنی افراد نے نام نہاد اسلامی ریاست میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ داعش کو اب بھی دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں کی ہمدردی حاصل ہے جس میں ہیکر اور آن لائن ریکروٹر بھی شامل ہیں ۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جہادی اب بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں اور اپنے بیانیہ کی تبلیغ و اشاعت کر رہے ہیں ۔
جہاں تک طالبان کی بات ہے تو کئی سیکورٹی ماہرین یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہاں سے اب امریکہ کے انخلاء کے بعد کابل کے راستے وہ دوبارہ پھر سے اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں ، باوجود اس نظم و نسق کے جس کی تیاری مکمل ہو چکی ہے ۔ مذاکرات کی میز پر اب طالبان جس جمہوری نظام حکومت پر چلنے کا وعدہ کر رہے ہیں وہ بے وقعت و بے معنی ہے۔ نوائےافغان جہاد جیسی اپنی مطبوعات میں وہ کئی دہائیوں سے یہ کہہ رہے کہ جمہوریت حاکمیت خدا کےاسلامی فرمان کے خلاف ہے۔
11/9 حملوں کا جواز پیش کرتے ہوئے طالبان عالم شیخ یوسف العبیری نے ایک طویل فتویٰ دیا جو طالبان کے ماہانہ میگزین نوا ئے افغان جہاد کے 2013-2012 تک کے شماروں میں ماہ در ماہ آٹھ قسطوں میں شائع ہوا ، جس میں انہوں نے مخصوص حالات کے تحت معصوم شہریوں کے بے دریغ قتل کی حمایت کی ہے ۔ اپنے فتویٰ کے اختتامی حصے میں شیخ یوسف العبیری نے مکمل طور پر "دشمن کے سفاکانہ اور بے دریغ قتل" کی اسلامی اباحت پر روشنی ڈالی ہے۔ اس میں انہوں نے "دشمن کو نذر آتش کرنے " یا کسی قلعہ کے مکینوں کو یا کسی محصور شہر کو ڈبونے کے لئے "دریاؤں اور جھیلوں کے باندھ کھولنے " ان پر توپوں سے حملے کرنے اور "دشمنوں پر سانپوں اور بچھو چھوڑنے’’ کا بھی جواز پیش کیا ہے اگر چہ ان میں غیر جنگجو خواتین اور بچے ہی کیوں نہ شامل ہوں۔" اس کے بعد اس فتویٰ میں ان اقدامات کی حلت بھی بیان کی گئی ہے بشمول 'ان کی عمارتوں کو تباہ کرنے، زہر اور دھواں پھیلانے کے' اگر ان طریقوں کو آزمائے بغیر دشمن کو بندی بنانا یا ان پر غالب ہونا ممکن نہ ہو۔ اس طرح "شہریوں" کے خلاف دہشت گردانہ حملے کی توثیق کرنے کے بعد طالبانی عالم امریکی شہروں کے قتل کا جواز پیش کرتے ہیں اور ایسے کسی بھی مسلمان کی سوجھ بوجھ پر سوال کھڑے کرتے ہیں جو "نیو یارک اور واشنگٹن میں امریکیوں کے قتل کو غیر قانونی"، قرار دیتا ہے۔
یہ دلائل امام نووی ، علامہ ابن قدامہ المقدسی ، امام بیہقی اور صحیحین جیسے قرون وسطی کے کئی معروف فقہاء اور ان کی کتب کے حوالے سے پیش کئے گئے ہیں ۔ (صحیحین سے مراد صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہے جو اسلامی عقیدے کے باب میں قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ مستندماخذ مانی جاتی ہے)۔
طالبانی عالم یوسف العبیری یہ خلاصہ کرتے ہیں: "لہذا، شریعت کے دلائل کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس کسی نے بھی یہ کہا ہے کہ نیو یارک اور واشنگٹن میں امریکیوں کو قتل کرنا غیر قانونی ہے وہ شریعت کی باریکیوں سے نا آشنا ہے اور اندھیرے میں تیر چلا رہا ہے۔ اس کی یہ بات جہالت اور بے خبری پر مبنی ہے۔ دشمنوں کو جلا کر یا ڈبو کر مارنے اور انہیں قید کرنے کے لئے عمارتوں کو تباہ کرنے یا نقصان پہنچانے یا دشمنوں کو خوفزدہ کرنے سے اکثر علمائے اسلام اتفاق رکھتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا بھی یہی عمل رہا ہے ۔ پھر کس طرح امریکیوں کی محبت میں کوئی اندھا شخص کسی ایسے مسئلہ کو سوالات کی زد میں لا سکتا ہے جو قرآن اور حدیث سے مصدق و مؤئد ہے ۔ "( نوائے افغان جہاد، جنوری 2013)
مجھے اس بات میں شک ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے امریکی اور روسی سفارتکار ان سے اسلام کی انتہا پسند تعبیر و تشریح ترک کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ اگر طالبان ان نظریات سے دست برداری کا دعوی کریں تب بھی ان پر یقین کرنا حماقت ہوگی ، کیونکہ وہ مصلحت اور تقیہ کے فقہی اصولوں کے تحت کسی بھی جھوٹے وعدے کو جائز ٹھہرا سکتے ہیں ۔ طالبان کو افغانستان پر حکومت کے لئے واپس آنے یا انہیں ابتدائی طور پر اقتدار میں حصہ دار بننے کی اجازت دینا تباہی کا شاخسانہ ہے۔ ایسا صرف اس وجہ سے کرنا کہ بین الاقوامی برادری اس خطے سے اپنی دلچسپی کھو چکی ہے ، فہم و ادراک سے باہر ہے - جیسا کہ 1989 میں افغانستان سے سوویت افواج کی واپسی کے بعد بھی عالمی برادری نے ایسا ہی کیا تھا ۔
جناب صدر،
اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ داعش اور طالبان یا دیگر اسلامسٹ دہشت گرد تنظیمیں جو کچھ بھی کریں وہ قرون وسطی کے فقہی نظریات کی بنیاد پر اس کا جواز پیش کر سکتے ہیں جو مسلم عوام اور بلا شبہ ان علماء میں مقبول ہیں جو اپنے اداروں میں یہ کتابیں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں ۔ اعتدال پسند مسلم اہل علم و دانش ان خیالات کو چیلنج کر رہے ہیں لیکن مذہبی نقطہ نظر سے وہ اپنے خیالات کی خوبصورتی مسلم معاشرے کے سامنے رکھنے سے قاصر ہیں ۔
یہ اتنا مشکل کیوں ثابت ہو رہا ہے؟ طالبان کے مندرجہ بالا ایک عالم کے مختصر اقتباس میں بھی ہم نے یہ دیکھا کہ یہ جہادی اپنے دلائل کی بنیاد قرون وسطی کے اسلامی فقہاء کے اجماع اور حدیث پر رکھتے ہیں ۔ وہ قرآن کریم کی جنگی حالات سے متعلق آیتیں بھی پیش کرتے ہیں ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ثابت شدہ تاریخی واقعات کا حوالہ پیش کرتے ہیں ۔
اسلامی صحیفوں کی از سر نو تعبیر و تشریح کرنا اور اجماع کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنا اگر چہ آسان ہے لیکن ثابت شدہ تاریخی حقائق پر سوالات کھڑے کرنا مشکل ہے۔ جیسا کہ اس طالبانی عالم نے کہا کہ، " پیغمبر اسلام ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام نے ایسا ہی کیا ہے۔" اس سے ہر زمانے میں مسلمانوں کے لئے ایک مثال قائم ہو جاتی ہے اور ایک نقش قدم متعین ہو جاتا ہے ۔ وہ اسی نقش قدم پر چلنے اور اسی طرح کی کامیابیاں بھی حاصل کرنے کا دعوی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ سوویت یونین اور امریکہ جیسے دونوں سپر پاور کو شکست دینے میں بزعم خویش کامیابی کا موازنہ بے سرو ساماں عرب بدوؤکے ہاتھوں ساتویں صدی عیسوی کے دو سپر پاور باذنطینی اور ساسانی حکومت کی شکست سے کر رہے ہیں ۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہادی عناصر کے دلائل پر سوالات کھڑے نہیں کئے جا سکتے اور ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ ان پر سوالات کھڑے کئے جا سکتے ہیں اور ان کا مقابلہ کیا بھی جا رہا ہے ۔در اصل مسئلہ یہ ہے کہ کامیابی کے ساتھ ان کو چیلنج کرنے کے لئے سب سے پہلے اعتدال پسند علماء کو خود اپنے ہی نقطہ نظر میں انقلابی تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ابھی تک وہ ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ناقدانہ نظر ڈالتے وقت وہ ائمہ اربعہ -امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے ذریعہ قائم کردہ شریعت کے اصولیاتی فریم ورک کے اندر ہی رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے حدود سے تجاوز کرنے سے کتراتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اعتدال پسند علما بھی انہیں نظریات پر اپنی گفتگو کی بنیاد رکھتے ہیں جن پر جہادی افکار و نظریات کی عمارت تعمیر ہے۔
میں اس ضمن میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ خود ساختہ خلیفہ البغدادی کا پوری دنیا کے ہزاروں نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی دعوت جو کہ اب غلط ثابت ہو چکی ہے احادیث یعنی پیغمبر اسلام ﷺ کے نام نہاد اقوال پر مبنی تھی جن کی تدوین آپ ﷺ کی وفات کے صدیوں بعد عمل میں آئی تھی۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف 600 صفحات پر مشتمل فتوی لکھنے والے ایک اعتدال پسند صوفی عالم دین مولانا طاہرالقادری نے جب بغدادی کے نظریات کا رد کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے بھی پیغمبر اسلام ﷺ کی وفات کے صدیوں بعد مدون کی گئی احادیث کی معتبریت پر سوال کرنے کے بجائے اپنے دلائل کا انحصار مکمل طور پر احادیث پر ہی کیا اگرچہ وہ احادیث مختلف نوعیت کی تھیں۔ جو 6 لاکھ حدیثیں جمع کی گئی تھیں ان میں سے تقریبا 10 ہزار کے قریب یا تو یکسر موضوع پائی گئیں یا انتہائی غیر معتبر اور غیر مستند نکلیں ۔ باقی 10 ہزار حدیثوں میں سے جنہیں مستند کہا جاتا ہے، ان کی کئی کی معتبریت کے مختلف زمرے اور مختلف سطحیں ہیں۔ صرف متواتر احادیث یعنی متعدد اسانید سے حاصل ہونے والی ایسی حدیثیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ہی جیسا پیغام موجود ہو، انہیں سب سے زیادہ مستند مانا جاتا ہے اور معتبرتیرین احادیث کے زمرے میں رکھا جاتا ہے ۔ لیکن عالم اسلام کے اکثر علماء بشمول ان 126 مشاہیر امت کے جنہوں نے 14،000 الفاظ پر مشتمل ایک کھلا خط نہاد اسلامی ریاست پر تنقید کرتے ہوئے خود ساختہ خلیفہ البغدادی کے نام لکھا تھا-ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ : "۔۔۔ مستند اور صحیح حدیث میں بیان کیا گیا ہر ایک پیغام الہامی ہے اور وحی الٰہی کا درجہ رکھتا ہے۔ "یہ سراسر کامن سینس کے منافی ہے ۔ حدیثیں نبی اکرم ﷺ کی رحلت کے صدیوں بعد ضبط تحریر میں لائی گئیں اور باضابطہ مرتب کی گئیں ۔ لہٰذا وہ "الہامی" یا "وحی الٰہی سے ماخوذ" کیسے ہو سکتی ہیں جیسا کہ وہ دعوی کرتے ہیں؟ لیکن واضح طور پر عالم مغرب کے جید علماء ،پاکستان کے مولانا طاہر القادری اور الازھر یونیورسٹی مصر کے مشاہیر امت تمام کے تمام اپنے دلائل کی بنیاد انہیں روایات حدیث پر رکھتے ہیں ۔
جناب صدر،
اعتدال پسند علماء روایتی جہادی بیانیہ کا کوئی معتبر اور مستند جوابی بیانیہ اس بنیاد کی رعایت کرتے ہوئے نہیں پیش کر سکتے جس پر اسلام پرست نظریات کی تشکیل کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر اپنے کھلے خط میں اعتدال پسند علماء کے فتویٰ میں یہ بات کہی گئی کہ: "یہ بات معلوم ہے کہ آیت ‘‘لا اکراہ فی الدین’’ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے لہٰذا اب کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ یہ منسوخ ہو چکی ہے۔ اس کے بعد فتویٰ میں جبر و تشدد کے استعمال پر بغدادی کی زجر و توبیخ کی گئی ہے ۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اعتدال پسند فتویٰ میں بھی بغدادی اور دیگر اسلام پسندوں کے اس بنیادی قضیہ کو تسلیم کیا گیا ہے کہ امن و آشتی کے پیغامات پر مبنی فتح مکہ سے قبل نازل ہونے والی آیتیں منسوخ ہو چکی ہیں یا کم از کم منسوخ ہو چکی ہوں گی، اور اب جنگ سے متعلق عسکریت پسندی کی تعلیمات پر مبنی وہ آیتیں ہی باقی رکھی جانی چاہئے جن میں مشرکوں اور کافروں کے قتل کا حکم وارد ہوا ہے ۔
اسی طرح کا ایک دیگر مسئلہ قرآن مجید کے "عدم خلق" کا ہے ۔ یہ آج کے اعتدال پسند علماء سمیت تمام مکاتب فکر کے نزدیک مسلم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کے تمام احکامات و ہدایات اپنے سیاق و سباق سے قطع نظر مسلمانوں کے لئے ہر زمانے میں نافل العمل ہیں۔ قرآن کریم نے جنگوں کے دوران ایسی کئی ہدایات فراہم کی ہیں جو ساتویں صدی کے اوائل میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عائد ہوتی تھیں۔ جنگی سپاہیوں کو لڑنے ، اپنی جانیں قربان کرنے اور دشمنوں کو تہہ تیغ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہیں۔ احکامات کی پیروی کرنے پر انعامات اور ان کی نافرمانی پر سزاؤں کا اعلان کر دیا گیا ہے ۔ لیکن ایک بار جب جنگ ختم ہو جائے تو پھر وہ احکام قابل اطلاق نہیں رہتے ۔ تاہم، ان جنگوں کے 1400 سال بعد ان احکام و ہدایات کو آج بھی مسلمانوں پر نافظ العمل مانا جاتا ہے۔ یہی موقف تمام اسلامی علماء کا ہے۔ جدید اعتدال پسند علماء اس پہلو پر سوال نہیں کرتے ۔ اس کھلے خط میں یہ لکھا گیا ہے کہ : "قرآن کی ہر بات سچ اور حق ہے۔"
جناب صدر،
اجماع کا موجودہ اسلامی نظریہ دیڑھ صدیوں میں تیار ہوا ہے۔ یہ تاریخ کی پیش رفت سے کافی متاثر رہا ہے۔ لہذا، موجودہ فقہ اسلامی اسلام کی بنیادی کتاب قرآن کے پیمانے پر خود اپنا جواز نہیں پیش کر سکتی ۔ مثال کے طور پر ارتداد اور توہین رسالت کے لئے قرآن میں کوئی سزا نہیں بیان کی گئی ہے۔ لیکن کئی مسلم ممالک میں توہین رسالت مخالف قوانین موجود ہیں جن میں سزائے موت لازمی ہے ۔ انڈونیشیا اور ملیشیا جیسے دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں بھی اسی طرح کے مطالبات کئے جا رہے ہیں۔ تمام مکاتب فکر کی کلاسیکی فقہِ اسلامی اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ مسلم کی جانب سے توہین رسالت ارتداد کی ہی ایک شکل ہے جو سزائے موت کا مستوجب ہے ، تاہم اس فیصلے تک پہنچنے کے عمل اور سیاق و سباق میں قدرے اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ تاہم، یہ سزا مناسب عدالتی جانچ بین کے بعد ہی صرف حکومت دے سکتی ۔ لیکن انتہا پسند علماء کی دلیل اب یہ ہے کہ چونکہ اب مسلم ریاستیں جدید سامراجی قوتوں یا طاغوط (شیطان) کی مرہون منت ہو چکی ہیں اور اس سزا کا نفاذ نہیں کر رہی ہیں لہٰذا اگر یہ ذمہ داری نہیں تو کم از کم مسلم افراد کا حق ضرور ہے کہ وہ اس کے مجرم کو خود ہی موت کی سزا دے دیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح اس بات کی توثیق کریں گے کہ فلاں نے اصل میں توہین یا ارتداد کا ارتکاب کیا ہے؟ فتویٰ جاری کرنا صرف چند علماء یا علماء کی ایک جماعت کا ہی کام ہے ۔ اور توہین رسالت یا ارتداد کا مبینہ مرتکب یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے توہین نہیں کی ہے یا اسلام نہیں چھوڑا ہے، لیکن جب کوئی عالم یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ الزامات درست ہیں تو عام طور پر متعدد مسلم ممالک میں پائے جانے والے لاقانونیت کے ماحول میں اسے ہی حتمی فیصلہ مان لیا جاتا ہے۔
اس ظلم اور سفاکی کی بنیاد شریعت اسلامیہ کے حدود سے متعلق ان قوانین پر ہے جنہیں ہماری اعتدال پسند علماء کی حمایت حاصل ہے ۔ داعش کا جواب دینے کے لئے عالمی مسلم برادری کی جانب سے متعین کئے گئے یہ 126 اعتدال پسند علماء اپنے کھلے خط میں یہ مسئلہ اٹھاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ: "قرآن اور حدیث میں حدود کی سزا متعین ہے اور اسلامی قانون میں بلا چون و چرا واجب العمل ہے۔" بغدادی گروہ کے بنیادی قضیہ کو قبول کر لینے کے بعد خط میں عراق اور شام کی نام نہاد اسلامی ریاست میں اس پر عمل درآمد کی تنقید کی گئی ہے۔ خط میں ہے کہ: "تاہم، انہیں وضاحت، انتباہ، تاکید و تنبیہ اور وافر ثبوت کے بغیر نافظ نہیں کیا جاسکتا ہے، اور ظالمانہ انداز میں بھی ان کا نفاظ جائز نہیں ہے۔" وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ایک بار جب اعتدال پسند علماء نے حدود کے بنیادی قضیہ کو تسلیم کر لیا جو کہ 7 ویں صدی کے عرب بدوی قبائیلی رسوم و رواج پر مبنی ہے، اور انہیں "اسلامی قانون میں بلا چون و چرا واجب العمل " قرار دیا تو اعتدال پسندی اور انتہا پسندی کے درمیان کیا فرق باقی رہ گیا؟
مسلمان یہ مانتے ہیں کہ مسلم اکثریتی ممالک میں رہنے والی غیر مسلم اقلیت مامون ہے اور اسے مذہبی آزادی عطا کی جا سکتی ہے، سوائے جزیرہ عرب کے جو کہ اسلام کے لئے مخصوص ہے ، جبکہ جو مسلم خاندانوں میں پیدا ہوئے ہیں یا جو اسلام قبول کر چکے ہیں انہیں مذہب چھوڑنے کی آزادی حاصل نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اب اسلام کو عام طور پر ریاست کا مترادف مانا جاتا ہے اور کسی مسلم کی جانب سے توہین رسالت اور ارتداد کو اعلی ترین غداری تصور کیا جاتا ہے جس کی سزا بھی اسی معیار کی متعین ہے ۔
بیسوی صدی کے ایک ہندوستانی عالم دین مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے اس پہلو کو جائز ٹھہراتے ہوئے اسلام کو ایک ریاست بیان کیا ہے، لیکن صدیوں سے مسلمان اسلام کو ریاست قرار دئے بغیر اس تصور کو مانتے آئے ہیں ۔ 18 ویں صدی کے محمد بن عبد الوہاب اور شاہ ولی اللہ دہلوی ہوں یا 17ویں صدی کے مجدد الف ثانی شیخ سرہندی ہوں یا 13 ویں اور 14 ویں صدی تقی الدین احمد ابن تیمیہ ہوں کہ 11 ویں اور 12ویں صدی کے صوفی شیخ امام ابو حامد محمد الغزالی ہوں، سب اسی نظریہ کے حامل ہیں ۔
غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کے معاملہ میں یہی اجماع قائم ہے۔ تقریباً تمام مکاتب فکر کے علماء کا یہی ماننا ہے کہ مسلموں اور غیر مسلموں کے درمیان صرف ایک فاتح اور مفتوح کا رشتہ ہی ممکن ہے۔ یہ پوری روئے زمین دو حصوں میں منقسم ہے ایک دار الاسلام ہے اور دوسرا دار الحرب ۔ حالات سے لاچار ہو کر اس کا ایک تیسرا زمرہ بھی تیار کر لیا گیا ہے اور وہ دار الصلح اور دار الامن ہے ۔لیکن یہ قطعی طور پر ایک عارضی تقسیم ہے۔ دار الصلح میں رہنے والے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے بالکل اسی طرز پر دار الاسلام میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں جو دار الحرب میں رہنے والوں کے لئے لازم ہے۔
جناب صدر،
مسلمانوں کے درمیان آپسی فرقہ وارانہ اختلافات خواہ جتنے بھی تلخ کیوں نہ ہوں اور ہر طبقہ ایک دوسرے طبقے کو کافر و مرتد ہی کیوں نہ قرار دیتا ہو لیکن یہ خواب تمام اسلامی فرقوں کے درمیان مشترک ہے جیسا کہ پاکستان کے مولانا ڈاکٹر اسرار احمد نے بھی کہا ہے کہ " امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بازیافت ہونی چاہئے۔" ان کے استاذ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنے درج ذیل الفاظ میں اس کا طریقہ کار بیان کیا ہے جس سے ان کے دلائل کا خلاصہ ہوتا ہے: "اگرچہ غیر مسلموں کو درجہ دوم کی شہری حیثیت دی جا سکتی ہیں اور انہیں اپنے بے دین عقائد پر عمل کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے لیکن انہیں دنیا کے کسی بھی حصے پر حکومت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ غیر مسلم کو ہر جگہ اقتدار سے محروم کر دیا جانا چاہئے ۔ اسلام دنیا کے کسی ایک چھوٹے سے حصے میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں حاکمیت الٰہ کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے ۔ "
مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ " اقامت دین" مسلمانوں کا بنیادی فریضہ ہے ۔ لہذا، جب افغانستان سے سوویت یونین نکالنے اور اس کی جگہ ایک بنیاد پرست اسلامی ریاست قائم کرنے کا موقع ہاتھ لگا تو پوری دنیا کے بے شمار مسلمانوں نے اس کی دعوت پر صدائے لبیک بلند کیا۔ اسی طرح، جب عراق ، شام اور افغانستان کے خطے سے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے انخلاء کا موقع میسر ہوتا ہے تو بہت سارے لوگ اس دعوت پر صدائے لبیک بلند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان سب کو فریضہ جہاد انجام دینے اور ایک مذہبی ذمہ داری ادا کرنے کا ایک سنہرا موقع تصور کیا جاتا ہے ۔
لہٰذا اس وقت جب کہ امریکہ مذکورہ دونوں خطوں سے انخلاء کا فیصلہ کر چکا ہے پورے عالم اسلام میں خوشی کی ایک لہر دوڑ چکی ہے اور غیر مسلموں کو مٹانے اور بالخصوص سب سے بڑے دشمن شرک اور بت پرستی کو دنیا سے ختم کرنے کا جذبہ ان کے اندر تازہ دم ہو چکا ہے ۔ ایک مذہبی مسلمان اور خاص طور پر ایک مدرسے کے فارغ التحصیل کے لئے پوری دنیا کے مسلمان ایک ہی قوم ہیں (الاسلام ملۃ واحدۃ) اور تمام غیر مسلم ایک اور علیحدہ قوم ہیں (الکفر ملۃواحدۃ)۔ اکثر مسلمانوں کے نزدیک ایک عیسائی، ایک یہودی، یا ایک ملحد کے درمیان یا ایک موحد اور ایک سابق مسلم یا جسے مرتد سمجھا جاتا ہو، اس کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اور ان کا کام روئے زمین سے کفر، شرک اور ارتدادکا خاتمہ کرنا اور دنیا پر اسلام کی بالا دستی قائم کرنا ہے ۔
جناب صدر،
اس مسئلے پر اعتدال پسند علماء کا کیا خیال ہے؟ حیرت انگیز ہے، در اصل ایسا ظاہر ہوتا ہے کے وہ بتوں کی مسماری کو جائز سمجھتے ہیں۔ کھلے خط کا مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ ہو: "تمہارے (ابو بکر البغدادی کے) سابق رہنما ابو عمر البغدادی نے کہا ہے کہ: 'ہماری رائے میں شرک کے تمام مظاہر کو تباہ اور نیست و نابود کرنا اور اس تک لے جانے والے تمام ذرائع کا سد باب کرنا واجب ہے اور اس کی وجہ ایک (عظیم محدث امام الائمہ فی الحدیث) امام مسلم کی وہ روایت ہے جو انہوں نے اپنی صحیح میں نقل کی ہے: ابو الحیائی الاسدی سے مروی ہے کہ علی بن ابی طالب نے کہا: 'کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتا دوں جسے کرنے کے لئے انہوں [یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم] نے مجھے بھیجا ہے۔ کوئی ایک بھی بت نہ بچے یہاں تک کہ میں اسے منہدم کر دو اور کوئی ایک بھی اونچی قبر نہ بچے یہاں تک کہ میں اسے سطح زمین سے ملا دوں’ ۔ تاہم، اگرچہ اس کی بات سچ ہو تب بھی اس کا اطلاق نبیوں یا صحابہ کی قبروں پر نہیں ہوتاکیونکہ مسجد نبوی سے متصل ایک عمارت کے اندر نبی ﷺ اور آپ کے دو صحابہ کرام حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو دفن کرنے پر صحابہ کرام متفق تھے۔ "
اس سے قطعی طور پر یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اعتدال پسند علماء صرف "نبیوں یا صحابہ کی قبروں"کے انہدام کے خلاف ہیں’’ نہ کہ شرک (بت پرستی) کے تمام مظاہر کو تباہ کرنے اور نیست و نابود کرنے کے خلاف ہیں ۔ لہذا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان اعتدال پسند علماء کے مطابق طالبان بامیان میں بدھ کی مورتیوں کو منہدم کرنے میں حق بجانب تھے ۔ یہ آج کی ایک ایسی دنیا میں بین المذاہب تعلقات کو برقرار رکھنے کے لئے موزوں نہیں ہے جہاں تمام مہذب قومیں لوگوں کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کے حق کا احترام کرتی ہیں اور جہاں اسلام کے نام پر انجام دی جانے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے باوجود خود اسلام کو تحفظ عطا کیا جاتا ہے اور اس کا دفاع بھی کیا جاتا ہے۔
عالمی خلافت کی ضرورت کے مسئلے پر بھی اعتدال پسند علماء بغدادی گروہ کی بنیادی تجویز سے متفق نظر آتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے: "علماء کے درمیان اس امر پر اتفاق ہے کہ خلافت کا قیام امت کی ایک مشترکہ ذمہ داری ہے۔ امت مسلمہ (عالمی مسلم برادری) 1924 عیسوی سے ہی ایک خلافت کے فقدان کا شکار رہی ہے ۔" اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے بغدادی کی زجر و توبیخ کی ہے اور اس پر سرکشی اور فتنہ انگیزی کا الزام لگایا ہے ۔ لیکن بنیادی مسئلہ اب بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ کیوں کہ یہاں بھی اعتدال پسند علماء "ایک نام نہاد عالمی خلافت قائم کرنے کی امت مسلمہ کی ذمہ داری" کے بنیادی قضیہ پر بغدادی سے متفق نظر آتے ہیں ۔ جو آج کے دور میں ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ اور دنیا بھر کے اعتدال پسند اسلامی علماء سے ایسی کوئی بات نکل کر آنا تو بلا شبہ تمسخر آمیز ہے۔ یہ بھی جاننا ہمارے لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم عالمی خلافت جیسی کسی بھی چیز کا مطالبہ نہیں کرتا ہے ۔
واضح طور پر بغدادی گروپ (داعش) اور اعتدال پسند علماء دونوں یکساں طور پر فرسودگی کا شکار ہیں اور ان کی ذہنی اور فکری سطح 7 ویں صدی عیسویں میں ہی منجمد معلوم ہوتی ہے۔ نہ ہی انتہاپسند اور نہ ہی اعتدال پسند ایسی جدید، کثیر ثقافتی اور خود مختار قومی ریاستوں کو تسلیم کرتے ہیں جن میں تمام شہریوں کو آزادانہ طور رہنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کے یکساں حقوق حاصل ہوں اور جن کی سرحدیں فتح و شکست کے ذریعہ نہ بدلی جا سکیں ۔ قرون وسطی کے خطوط پر عالمی خلافت کے قیام کا واحد راستہ یہ ہے کہ نام نہاد اسلامی ریاست پوری دنیا پر فتح حاصل کر لے اور اپنے لیڈر کو عالمی مسلم برادری کا خلیفہ قرار دیدے۔ یہ وہ پہلو ہے جس پر اعتدال پسند علماء سوال کر رہے ہیں ۔ ان کا سوال ہے کہ بغدادی اتنی وسیع و عریض زمین اور مشرق وسطی میں فتح حاصل کئے بغیر عالمی مسلم برادری کا خلیفہ کیسے بن سکتا ہے ۔ وہ فتح کے ذریعہ خطوں میں اضافہ کرنے کے قرون وسطی کے نظام سے متعلق سوال نہیں کر رہے ہیں۔
یقیناً اسلامسٹ اور بظاہر اعتدال پسند بھی اب بھی ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں ایک صوفی شیخ الغزالی (1111-1058) اسلام کی حدود میں توسیع کے لئے سال میں کم از کم ایک بار ضرور جہاد پر جانے کی تعلیم دیتے ہیں۔ کسی بھی صورتحال کا ایک حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ان کے بس کا روگ نہیں ۔ ان کی غیر منطقی سوچ و فکر کو سمجھنے کے لئے آپ کو ان کی تاریخ جاننے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستانی علماء 14ویں صدی کے مسلم حکمران (1325 سے 1351 تک دہلی کے سلطان) محمد بن تغلق کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ ہندوستان کے تمام مشرکوں (بت پرستوں) یعنی ہندوستانی کی آبادی کے 80 فیصد حصہ کو مشرک قرار دیا جائے اور شرک کی سزا میں انہیں قتل کر دیا جائے جو کہ اسلام میں سب سے بڑا جرم ہے۔ ظاہر ہے کہ تغلق نے ان کی بات نہیں مانی۔
جناب صدر،
علماء کے درمیان یہ جنونیت اور حقیقت سے یہ نفسیاتی دوری محض ایک ہندوستانی رجحان نہیں ہے۔ ترکی کے علماء نے خلافت عثمانیہ کو جو کہ تاریخ کی عظیم سلطنتوں میں سے ایک تھی، قریب چار صدیوں تک یورپ سے پرنٹنگ پریس درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی تھی اور اسے شیطان کی ایجاد قرار دیا تھا ۔ آج کے مسلمانوں کی پسماندگی کا نقطہ آغاز وہی فتویٰ ہے۔ 1940 اور 1950 کی دہائیوں میں عالمی سطح پر مسلم برادری کے اندر بحث کا سب سے اہم موضوع یہ تھا کہ کیا مذہب لاؤڈ اسپیکر اور ریڈیو کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ بعد میں جب ٹیلی ویژن سامنے آئی تو پھر یہی بحث کئی برسوں تک مزید ہماری توجہ کا مرکز بنی رہی۔ آج بھی علمائے دیوبند نے جن کے مدرسوں نے طالبان پیدا کیے صرف اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے ہی انٹرنیٹ کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آج بھی امت مسلمہ علماء کی چنگل میں ہے۔
جب تک حقیقی طور پر اعتدال پسند مسلم علماء اسلام اور ریاست کے بارے میں کامیابی کے ساتھ ان مذہبی نظریات پر سوال کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے اور ایک جدید، تکثیریت پسند اور پرامن اسلامی نظریہ قائم نہیں کر لیتے تب تک ان عناصر کو فروغ حاصل کرنے اور پھلنے پھولنے کے لئے چھوڑ دینا ایک حماقت ہوگی۔ وہ امن عالم کے لئے خطرہ رہ چکے ہیں اور مستقبل میں بڑے پیمانے پر عالمی امن کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ جیسا کہ میں اس سے قبل بھی کہہ چکا ہوں کہ اعتدال پسند علماء کو مزید وقت اور گنجائش فراہم کرنے میں پوری دنیا کو متحد ہونا چاہئےتاکہ وہ اس علیحدگی پسندی اور تشدد پر مبنی فقہ اسلامی کا محاسبہ اور تردید کر سکیں اور اس کی جگہ امن اور تکثیریت پسندی پر مبنی ایک نیا فقہی نظریہ قائم کر سکیں۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/do-repeat-mistakes-1989-/d/118088
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism