محمد یونس، نیو ایج اسلام
شریک مصنف (اشفاق اللہ سید
کے ساتھ)، اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلیکیشن، یو ایس اے 2009
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
وہ باپ جو اپنے بیٹے کی تعریف دس مرتبہ کرتا ہے لیکن
تنبیہ صرف ایک مرتبہ ، ضروری نہیں ہے کہ وہ
برا انسان ہو۔ بیٹے کے لئے ضروری ہے
کہ وہ پوری زندگی کے حالات اور معاملات کوسامنے
رکھ کر ہی اپنے والد کے بارے کو ئی فیصلہ کرے ۔
قرآن جیسے مقدس کتاب کے لے بھی بالکل یہی سچائی ہے جو 23 سال (610-632) کے عرصے میں نازل ہوا۔ صرف چند آیتوں میں اس کے اجتماعی پیغام کومحدود نہیں کیا جا سکتا ہے ، خصوصاًیہ 2:120، 5:51 اور 5:57 آیتیں جو عیسائیوں اور یہودیوں
کے تئیں غیر ہمدردانہ ہیں۔ آیات مندرجہ ذیل
ہیں:
"اور تم سے نہ تو یہودی
کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی، یہاں تک کہ تم ان کے مذہب کی پیروی اختیار کرلو۔ (ان
سے) کہہ دو کہ خدا کی ہدایت (یعنی دین اسلام) ہی ہدایت ہے۔ اور (اے پیغمبر) اگر تم
اپنے پاس علم (یعنی وحی خدا) کے آ جانے پر بھی ان کی خواہشوں پر چلو گے تو تم کو (عذاب)
خدا سے (بچانے والا) نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار"(2:120)۔
"ے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے
کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا بیشک
خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا"(5:51) ۔
"اے ایمان والوں! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں ان
کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے دوست نہ بناؤ اور
مومن ہو تو خدا سے ڈرتے رہو (57) اور جب تم لوگ نماز کے لیے اذان دیتے ہو تو یہ اسے
بھی ہنسی اور کھیل بناتے ہیں یہ اس لیے کہ سمجھ نہیں رکھتے"(5:58) ۔
یہ آیتیں (تقریباً
624-628) کے درمیان اس وقت نازل ہوئیں
، جب مدینہ کے مقامی یہودی قبیلے مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کے دشمنوں کے ساتھ مل کر سازشیں رچ رہے تھے اوران سے
اتحادکو فروغ دے رہے تھے تاکہ خارجی حملے اور اندرونی بغاوت کے ذریعہ مسلمانوں
کی بڑھتی تعداد کو تباہ و برباد کیا
جا سکے۔ ان ہی حالا تکے پیش نظر ان آیات کا
نزول ایک مخصوص سیاق و سباق کے ساتھ ہوا تھا۔ حالآنکہ ، اہمیت کی حامل وہ آیتیں ہیں جو نزول ورآن کے آخری مرحلے میں نازل
ہوئیں ، کیونکہ ان کا نزول کوئی خاص حالات کے تحت
نہیں ہوا تھا، اور وہ قرآن انہتائی اہم پیغامات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ لہٰذآخری ادوار میں نازل ہو نے والی سورۃ المائدہ کی کچھ
(5: 44-47)آیتیں قابل توجہہ ہیں جن میں توریت اور انجیل کا ذکر نازل شدہ
صحف کے طور پر کیا گیا ہے ،اور ور پر یہودیوں اور عیسائیوں مذہبی تسلیم
کیا گیا ہے۔
"بیشک ہم نے توریت نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے اسی
کے مطابق انبیاء جو (خدا کے) فرمانبردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں اور مشائخ
اور علماء بھی کیونکہ وہ کتاب خدا کے نگہبان مقرر کیے گئے تھے اور اس پر گواہ تھے
(یعنی حکم الہٰی کا یقین رکھتے تھے) تو تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا
اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا اور جو خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام
کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں،(5:44)
اور ہم نے ان لوگوں کے لیے
تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے
بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ
ہے لیکن جو شخص بدلہ معاف کر دے وہ اس کے لیے کفارہ ہوگا اور جو خدا کے نازل فرمائے
ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بےانصاف ہیں،(5:45)
، اور ان پیغمبروں کے بعد انہی کے قدموں پر ہم نے عیسیٰ بن مریم کو
بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے اور ان کو انجیل عنایت کی جس
میں ہدایت اور نور ہے اور تورات کی جو اس سے پہلی کتاب (ہے) تصدیق کرتی ہے اور پرہیزگاروں
کو راہ بتاتی اور نصیحت کرتی ہے،(5:46)
اور اہل انجیل کو چاہیئے کہ
جو احکام خدا نے اس میں نازل فرمائے ہیں اس کے مطابق حکم دیا کریں اور جو خدا کے نازل
کئے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے گا تو ایسے لوگ نا فرماں ہیں"(5:47)۔
ان بیانات کے علاوہ ، عیسائیوں اور یہودیوں ،کی عزت واحترام کے تعلق سے قرآن مزید احکامات پیش کرتا ہے۔
قرآن اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں
کے درمیان کچھ لوگ بہت نیک، صالح اور معتدل تھے:
"اور اہلِ کتاب میں سے کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے پاس (روپوں
کا) ڈھیر امانت رکھ دو تو تم کو (فوراً) واپس دے دے اور کوئی اس طرح کا ہے کہ اگر اس
کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھو تو جب تک اس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو تمہیں دے
ہی نہیں یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ امیوں کے بارے میں ہم سے مواخذہ نہیں ہوگا یہ
خدا پر محض جھوٹ بولتے ہیں اور (اس بات کو) جانتے بھی ہیں"(3:75) ۔
"یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہلِ کتاب میں کچھ لوگ (حکمِ
خدا پر) قائم بھی ہیں جو رات کے وقت خدا کی آیتیں پڑھتے اور (اس کے آگے) سجدہ کرتے
ہیں،(3:113)
(اور) خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے اور اچھے کام کرنےکو کہتے
اور بری باتوں سے منع کرتےاور نیکیوں پر لپکتے ہیں اور یہی لوگ نیکوکار ہیں3:114)
)
اور یہ جس طرح کی نیکی کریں
گے اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور خدا پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے"(3:115)
"اور بعض اہلِ کتاب ایسے بھی ہیں جو خدا پر اور اس (کتاب) پر جو
تم پر نازل ہوئی اور اس پر جو ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور خدا کے آگے عاجزی
کرتے ہیں اور خدا کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہیں لیتے یہی لوگ ہیں جن کا صلہ
ان کے پروردگار کے ہاں تیار ہے اور خدا جلد حساب لینے والا ہے"(3:199)۔
"اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) ان کے پروردگار
کی طرف سے ان پر نازل ہوئیں ان کو قائم رکھتے (تو ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ)
اپنے اوپر سے پاؤں کے نیچے سے کھاتے ان میں کچھ لوگ میانہ رو ہیں اور بہت سے ایسے ہیں
جن کے اعمال برے ہیں"(5:66)۔
یہ (2:62، 5:69 22:17)،تمام
آیتیں یہودیوں اور عیسائیوں سمیت تمام اعتقاد
پسند انسانیت کے لئے الہی فیصلے کے عالمی معیار کی واضح تجویز پیش کرتی ہیں ۔
"جو لوگ مسلمان ہیں یا
یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست، (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو خدا اور روز
قیامت پر ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا، تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ
خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک
ہوں گے" (2:62)۔
"جو لوگ خدا پر اور روز
آخرت پر ایمان لائیں گے اور عمل نیک کریں گے خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا ستارہ
پرست یا عیسائی ان کو (قیامت کے دن) نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ غمناک ہوں گے"
(5:69)۔
"جو لوگ مومن (یعنی مسلمان) ہیں اور جو یہودی ہیں اور ستارہ پرست
اور عیسائی اور مجوسی اور مشرک۔ خدا ان (سب) میں قیامت کے دن فیصلہ کردے گا۔ بےشک خدا
ہر چیز سے باخبر ہے" (22:17) ۔
نوٹ: مندرجہ ذیل میں
یہ چار آیتیں (4:124، 64:9، 65:11)
کسی بھی مذہ بی طبقے کا کا ذکر کئے بغیرتمام
اعتقاد پسند انسانیت کے لئے اجروثواب کا وعدہ کرتی ہیں، تحقیق پسند حضرات اسے اپنے
قرآنی کے نسخے مین میں دیکھ سکتے ہیں۔
(22:40) میں اس بات کا اعلان
ہے کہ خانقاہوں، گرجا گھروں، یہودی عبادت گاہوں اور مساجد میں خدا کا نام باقاعدگی سے لیا جاتا ہے۔
"جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے ان کو اجازت ہے
(کہ وہ بھی لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ اور خدا (ان کی مدد کرے گا وہ) یقیناً
ان کی مدد پر قادر ہے، (22:39)،
یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں
سے ناحق نکال دیئے گئے (انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار
خدا ہے۔ اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور
(عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں خدا
کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں۔ اور جو شخص خدا کی مدد کرتا ہے خدا اس
کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بےشک خدا توانا اور غالب ہے"(22:40)۔
اپنے مذہبی تکثیریت کے تصور کا اعلان قرآن
وحی کے اختتامی مرحلے میں واضح اور غیر مبہم الفاظ میں کرتا ہے:
“اور ہر ایک کے لئے توجہ کی ایک سمت (مقرر) ہے وہ اسی کی طرف رُخ کرتا
ہے پس تم نیکیوں کی طرف پیش قدمی کیا کرو، تم جہاں کہیں بھی ہوگے اﷲ تم سب کو جمع کر
لے گا، بیشک اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے"(2:148)۔
"......ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ
عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا
لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ
حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ
تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے"(5:48(۔
"اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے
تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔
بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب
جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے"(49:13)۔
اپنے اختتامی مرحلے میں، قرآن
مسلمان مردوں کو عیسائی، یہودی اور کسی مومن
عورت (5:5) سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
"آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں، اور ان لوگوں کا
ذبیحہ (بھی) جنہیں (اِلہامی) کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے
لئے حلال ہے، اور (اسی طرح) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں
جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لئے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر
ادا کر دو، (مگر شرط) یہ کہ تم (انہیں) قیدِ نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ
کہ (محض ہوس رانی کی خاطر) اِعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے،
اور جو شخص (اَحکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد
ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا"(5:5)۔
قرآن مسلمانوں سے ان لوگوں کے علاوہ جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں (29:46)، تمام اہل کتاب سے منطقی انداز میں حسن
کلام کے ساتھ (16:125، 29:46) بحث کرنے کا حکم دیتا ہے۔
"(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت
کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ
کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں
کو (بھی) خوب جانتا ہے"(16:125)۔
"اور (اے مومنو!) اہلِ کتاب سے نہ جھگڑا کرو مگر ایسے طریقہ سے
جو بہتر ہو سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا، اور (ان سے) کہہ دو کہ ہم
اس (کتاب) پر ایمان لائے (ہیں) جو ہماری طرف اتاری گئی (ہے) اور جو تمہاری طرف اتاری
گئی تھی، اور ہمارا معبود اور تمہارا معبود ایک ہی ہے، اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں"
(29:46)۔
لہٰذا کسی مخصوص پس منظر
والی قرآنی آیات 2:120، 5:51،
5:57 یا دیگر آیات کاحوالہ
دور حاضر کے عیسائیوں اور یہودیوں اور
دیگر مذہبی طبقات کے خلاف نفرت کو ہوا دینے
کیلئے دینا ، قرآنی پیغامات کو مسخ کرنے کے
مترادف ہوگا۔
احتیاطی نوٹ۔ آج ایسے لوگوں کی تین قسمیں ہیں جو
قرآن کی مندرجہ بالا مخصوص پس منظروالی آیات کو عالمی مدا بنانے پر بضد ہیں۔ (1) مسلم دہشت گرد تنظیمیں اور جزوی
انتہا پسند عناصر ، اگر چہ ظاہراًاقلیت اپنے متشدد ایجنڈے کے جواز پیش کے طور پر ان کا حوالہ دیتے ہیں، (2) اسلاموفوبس(Islamophobes)جو اسلام مخالف ویب سائٹ کا استعما ل اپنی نفرت اور خوف کا جواز پیش کرنے کے لئے کرتے ہیں(3) مغربی ممالک
میں ایسےکچھ مسلمان جو تارکین وطن مسلمانوں کے درمیان ہیں ، قرآن میں مذکور ہ اخلاقی تعلیمات اور بنیادی
احکامات (مثلاً نیک اعمال، جائز سرگرمیوں میں
سربلندی ، اخلاقی اور مالی ایمانداری، اپنی صلاحیت کو وسعت دینے کیلئے
مسلسل جدو جہد، سماجی انصاف، سماجی ذمہ داری، سخاوت، معافی، رحم و کرم ، رحم
دلی، ہمدردی، عورتوں، پڑوسیوں اور تمام انسانیت کے ساتھ
مہربانی) اور لالچ، صارفیت اور خود غرض خواہشات کی دھن میں قرآنی پیغامات سے صریحاً انکار کےلئے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ صرف جزیہ(9:29) کے متعلق اور مال
غنیمت(8:41، 33:27) کے متعلق دو آیتیں ہیں جو اس دور میں پوری طرح
پر تاریخی حقائق کے مطابق تھیں اور جو
اس زمانے کے اقتصادی مطالبات کے لئے جز و لا ینفک تھیں، بعض دفع
اسلام کو بدنام کرنے کے لئے ان کا پوری طرح تاریخی کے خلاف پیش کیا جاتا ہے۔
اس حقیقیت سے انکار نہیں کیا جا
سکتا ہے کہ مذہب اسلام کے احکامات کی تمام
شاخیں ایسے مواد پر مشتمل ہے جو حدیث، قدیم سیرت اور قدیم اسلامی شریعت کے ارد گرد زبانی طور پر گردش کر رہے ہیں ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے
کم از کم ایک سو پچاس سال بعد جن کی تألیف
کی گئی۔ ان میں عجیب وغریب مواد ہیں جو، جن کی منشا ءجنسیت میں اشتعال پیدا کرنا
، دہشت گردی کو فروغ دینا، بین المذاہب
نفرت کو فروغ دینا، خواتین مخالف ایسے نظریات
کو فروغ دینا جن کا سائنسی اعتبار سے دفاع
نہیں کیا جا سکتا ہے اور جو خودمیں متضاد ہیں
[1]۔ یہ ایسے ناگزیر تزئین کاری اور
اضافے کی عکاسی کرتے ہیں جو زبانی طور پر گردش میں ہے، اور جو تمام بڑے مذاہب
کے تقابلی اور مذہبی بیانات کی خصوصیات ہیں۔
اسلام کی بنیادی اور واحد آسمانی کتاب قرآن
میں نہ تو ان مہلک
اور نقصان تزئین اور اضافوں کا ذکر ہے اور نہ وہ ان کی حمایت کرتا ہے۔
نوٹ:
حدیث اور ان کے موئلفین کا
دفاع عظیم امامین جنہیں کبھی غلط سمجھا گیا اور یہاں تک کہ ان کی ملامت کی گئی
8 اکتوبر، 2012
-----------
محمد یونس نے آئی آئی ٹی سے
کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے سے سبکدوش
ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام
کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر
خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل
پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-pluralism/muhammad-yunus,-new-age-islam/the-qur’an’s-regard-for-the-people-of-the-book-(christians-and-je
ws)-and-the-believing-humanity–-a-living-testimony/d/8924
URL: